نظرآتے تاریک مستقبل ،معاشی بدحالی ،انرجی
بحران ،بے روزگاری جیسے بے شمار مسائل میں مبتلا، پاکستانی عوام کی مایوسی
روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔گزشتہ سالوں کے دوران سابقہ حکومتوں سمیت تمام
سیاسی جماعتوں نے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی بجائے غیرمحفوظ، غیر
یقینی صورت حال پیدا کرنے اورلوٹ کھسوٹ کے ذریعہ معاشی طور پر پاکستان کو
انتہائی خطرناک حدوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ویسے توپیپلزپارٹی
کی حکومت نے بدامنی ،مالی بدعنوانی، بدترین طرزِ حکمرانی جیسے بے شمار
ریکارڈ قائم کئے لیکن سابقہ حکومت کو اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے آئین میں
ترمیم کے ذریعہءسے جمہوریت کو مستحکم کردیااور پاکستان کی تاریخ میں پہلی
مرتبہ اقتدار سیاسی عمل کے ذریعہ سے ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت
کومنتقل ہوااور صدر نے آئین میں ترمیم کے بعداپنے اختیارات وزیرِ اعظم کو
منتقل کردیئے ۔لیکن گزشتہ عرصہ حکومت کے دوران تما م اختیارات وزیراعظم کو
منتقل کرنے کے باوجود عملاََ صورت حال کچھ اس طرح رہی جس کی وضاحت کے لئے
ایک قدیم قصہ جدید اسلوب کے ساتھ حاضر خدمت ہے۔
چند دوست ایک مقامی ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور گھریلو مسائل کا
ذکر ہورہا تھا۔ جن میں سے اکثر اپنے جیون ساتھی کے لڑائی جھگڑے سے عاجز ی
کااظہار کررہے تھے۔ کہ ایک دوست میں مردانگی کے جذبات اجاگر ہوئے اور کہنے
لگا تم لوگ اپنے مرتبہ اور اختیارات سے بے خبر ہو۔ اس سب کچھ میں تمھارا
اپنا قصور ہے۔ پھر اُس نے گردن ذرا اونچی کی اوراپنے ہیئرسٹائل کو نمایاں
کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا کہ میر ی مثال تمھارے سامنے ہے۔
ہم دونوں میاں بیوی نے اپنے اختیارات تقسیم کئے ہوئے ہیں ۔ ہم ایک دوسرے کے
اختیارات میں مداخلت نہیں کرتے ، اس طرح ہم ہنسی خوشی سے بھرپوراور ایک
کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن میں سے ایک دوست نے پوچھا بھائی بتاﺅ تو
سہی کہ تم نے طاقت اوراختیارات کس طرح تقسیم کئے ہیں۔ کامیابی کا یہ انوکھا
راز ہمیں بھی تو بتاﺅ۔
اس پرصاحب ِ اختیار پھولے نہ سمایا اور وضاحت شروع کی ۔میر ی بیوی کے پاس
چھوٹے چھوٹے کا م کا اختیارہے۔ باقی تما م اختیارات اور ذمہ داریاں میرے
پاس ہیں ۔ یو ں سمجھیں کہ چیف ایگزیکٹو اوراصل سربراہ میں ہی ہوں ۔
بات کچھ یوں ہے کہ انتہائی معمولی ذمہ داریاں جیسے بچوں کوکس تعلیمی ادارے
میںداخلہ کروانا ہے۔ میرے ماں ، باپ سمیت کس رشتہ دار کے ساتھ کس طرح کا
سلوک کرنا ہے۔ شاپنگ کے مقام اورنوعیت سمیت بچوں کے رشتے اور شادیاں کہاں
طے کرنی ہیں۔بس ایسی ہی چندچھوٹی اور معمولی نوعیت کی ذمہ داریوں کا اختیار
میری بیگم کے پاس ہیں۔
جب کہ اصل اختیارات اور ذمہ داریاں میرے پاس ہیں(جیسے پیپلز پارٹی کے سابقہ
دورحکومت میں آئینی ترمیم کے بعدسارے اختیارات وزیراعظم کے پاس چلے گئے تھے
)۔ایسے ہی میرے اختیارات میں شامل ہے کہ بھارت کو کن شرائط کی بنا پر
پسندیدہ ملک قرار دیناہے۔اسرائیل کو تسلیم کرناہے یا نہیں،مسئلہ کشمیر،
افغانستان اور فلسطین کس طرح اور کب حل کرنا ہے اورعالمی طاقت امریکہ بہادر
کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کن شرائط کی بنیاد پر استوارکرنے ہیں۔ ان
سمیت بے شمار اختیار ات اور طاقت میرے پاس ہے۔ہم ایک دوسرے کے اختیارات سے
تجاوز نہیں کرتے،امن سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم میں کوئی اختلاف
نہیں۔اورظاہری بات ہے کہ ہماری اس پر سکون زندگی کی وجہ میرے پناہ اختیارات
ہیں۔(یعنی کہ حقیقت میںعملی طور پرہمارے سابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی
اور راجہ پرویز اشرف کی طرح اس بھولے بادشاہ کے اختیارمیںبھی کچھ نہیں
تھا)۔
جیساکہ آپ سب جانتے ہیں ،کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران جمہوریت
کی بقا اور مضبوطی کے لئے آئین میں ترمیم سے اختیارات صدرسے وزیرِاعظم کو
منتقل ہوگئے لیکن عملی طور پرپاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور کے وزرائے
اعظم سیدیوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ان اختیارات کے استعمال میں
کس حد تک خود مختارتھے اس حقیقت سے ہم سب خوب واقف ہیں۔پھر بھی پیپلز پارٹی
اپنے اس تاریخ ساز ، کٹھن ترین اور بے مثال فیصلہ پر فخر کرنے پر حق بجانب
ہے۔ لیکن اس سے پاکستان کے غریب عوام کس حد تک مستفید ہوئے؟فخر ہے تو اپنی
تاریخ ساز کامیابی پرعوام کی سہولتوں یا مصیبتوں میںکس حد تک اضافہ ہوا اس
سے ہمیں کیا۔
ہمارے صدر مملکت نے نہ صرف اپنے اختیار ات تفویض کئے بلکہ انتہائی مشکل
ترین حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ اوروسیع تر ملکی مفاد کی خاطر صرف محدود
اختیارات پر اکتفا کیا۔ جیسے وزارت کا قلمدان کسے عطا کرنا ہے اور کسے
محروم کرنا ہے۔ کس کی پارٹی رکنیت ختم کرنی ہے۔ اوراعلی حکومتی عہدہ
(سفارت، کسی منافع بخش ادارے کا سربراہ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔) اور امریکہ کی خوشنودی
کی خاطر کس حد تک قربانی دینی ہے اور کس ملک کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے
ہیں۔ اسی طرح کے چند معمولی فیصلے ملکی مفاد میں کئے۔
جبکہ سارے اختیارات کے مالک وزیراعظم جو کسی بھی تعلیمی ادارے میں تقسیم
انعامات کی تقریب ہو ،کسی شادی کی تقریب میں شرکت ہو یا کسی عمارت کا
افتتاح ہو اور اسی طرح کے تمام بڑے بڑے فیصلے کرنے میںمکمل طور پر خودمختار
تھے۔
افسوس ہم نے ملک دوٹکڑے ہونے کے باوجود کبھی حساسیت کا ادراک نہیں کیا ۔
ہماری نااہلی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ ہم نے کسی بھی قومی
ایشویا مسئلہ کا حل عقل،شعور،حقائق کی بنیاد پر تلاش کرنے کی بجائے ہر
نقصان اورقومی خسارے کو سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو پاک
صاف ظاہر کیا ۔ حتی کہ مستقبل قریب کے مسائل، بڑھتی ضرورتوںکے حل کے لئے
کوئی ٹھوس پالیسی اور واضح اقدامات کرنے کی بجائے ہم نے ہمیشہ کبوتر کی طرح
آنکھیں بند کرنے اور (ڈنگ ٹپاﺅ) پالیسی اختیار کرنے میں عافیت سمجھی تا کہ
کسی طرح وقت گزر جائے۔ مسائل کے حل میں عد م دلچسپی اور اپنی نااہلی سے
توجہ ہٹانے کے لئے ہمارے ہاں یہی انوکھاطریقہ ہے۔ کہ عوام کومسائل در مسائل
کی نوید سنائے جاﺅ جیسا کہ آج کل مسلم لیگ ن کے راہنماﺅںنے بھی مسائل
گنوانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔حالانکہ آپ کو پاکستان کے عوام نے مسائل سے
آگاہ کرنے کا نہیں، مسائل حل کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔
حال ہی میںانتخابی مہم کے دوران عوامی خدمت کے انہی دعویداروں میں سے کوئی
سونامی کے ذریعہ تبدیلی لا رہا تھا تو کوئی تمام مشکلات ، مصائب اور قرضوں
سے پاک نیاپاکستان بنانے(ہم نے بدلا ہے پنجاب ہم بدلیں گے پاکستان) کے وعدے
کررہا تھا۔ لیکن آج بھی عوام کے مسائل ،مصائب اورحالات ویسے ہی ہیں،آج بھی
روزانہ لاشیں گررہی ہیںاورآج بھی ڈرون حملوںمیںبے گناہ شہری مارے جارہے
ہیں۔خیبرپختونخوا ،بلوچستان ، کراچی، گلگت سمیت عوام کوبے رحمی اور بے دردی
سے قتل کیا جارہا ہے۔کراچی میں امن وامان قائم کرنے اور لاشوںکے گرنے کا
سلسلہ ختم کرنے کے لئے اختیارات سے تجاوز کی بحث کو بنیاد بنا کر ایک ماہ
کی مہلت کی باتیں ہورہی ہیں۔ویسے یہ مہلت انسانی جانوں کے خون سے ہولی
کھیلنے والے بے رحم دہشت گردوںاور قاتلوں کے لئے ہے یاصوبائی حکومت کے لئے
ہے ؟اگر یہ مہلت دہشت گردوں کے لئے ہے تو کیاگزشتہ چودہ سال کی مہلت کم
تھی؟اور اگرخدانا خواستہ یہ مہلت صوبائی حکومت کے لئے ہے تو جنہوں نے پانچ
سال مرکز میں ہونے کے باوجود عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں وہ
ایک ماہ میں کیا کرلیں گے؟ |