ناقابل برداشت گرمی نے ناک میں دم کیا تو دوست احباب نے سرکار کو اچھی خاصی
صلواتیں سناییں صلواتوں کا یہ دور جاری تھاکہ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ
سوزو واٹر پارک چلتے ہیں سو حکمرانوں کو صلواتیں سناتے ہم نے سوزو واٹر
پارک کا رخ کیا ۔راستے میں روڈ کی دوسری جانب میں نے میلے کچیلے اور پھٹے
پرانے کپڑوں میں ایک ۲۰ سالہ لڑکے کو دیکھا جس نےتھالی میں ناریل کے
خوبصورت پیس سجا رکھے تھے میں نے ناریل کھانے کی خواہش کااظہار کیا تو ایک
دوست نے اس لڑکے کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا وہ لڑکا ہماری طرف ہی دیکھ رہا
تھا اسےگاہک ملنےکی اتنی خوشی تھی کہ وہ گاڑیوں کی پروا کیے بغیر ہماری طرف
دوڑا میری آنکھوں کےسامنے تو جیسےاندھیرا چھا گیا میں نے آنکھیں بند کر لیں
ایک تیز رفتار گاڑی اس کےاتنا قریب تھی کہ مجھے یقین تھا یہ گاڑی اگلے ہی
لمحے اسے کچل ڈالے گی میرے دوست بھی جیسے سکتے کے عالم میں تھے۔جب میں نے
آنکھیں کھولیں تو وہ لڑکا ہمارے سامنے کھڑا تھا گاڑی اس کے انتہائی قریب سے
گزر گئی تھی انتہائی اطمینان سے وہ لڑکا یوں گویا ہوا سر جی یہ بڑا پیس ۲۰روپے
کا اور چھوٹا ۱۰ روپے کا میں نے اسے کہا کہ اگر گاڑی تم سے ٹکرا جاتے تو؟
وہ بولا سر جی ہمیں گاہک پکڑنے کے لیے جلدی کرنا ہی پڑتی ہے اگر میں جلدی
نہ کرتا تو شاید آپ لوگ چلے جاتے اور میں ناریل نہ بیچ پاتا ہمارا پورا دن
گاڑیوں سے ہی بچتے بچاتا گزرتا ہے میں نے کہا تمہارا نام کیا ہے تو اس نے
بتایا کہ اس کا نام جمیل ہے میں نے کہا دن میں کتنے کما لیتے ہو تو اس نے
جواب دیا سر جی اللہ پاک دااحسان اے دو سو سے لے کر اڑھائی سوکما لیتا ہوں
جمیل کا غیر معمولی اطمینان دیکھ کر میرا ضبط ٹوٹ رہاتھا میں اس کی کچھ مدد
کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے اتنے عظیم انسان کی مدد میں عار محسوس ہو رہی تھی
بالاخر کہہ ہی دیا یارجمیل آپ یہ تھوڑے سے پیسے رکھ لو لیکن وہ تو حقیقت
میں جمیل تھا اس نے انکار کرتے ہوئے کہا سر جی اللہ دا بڑا احسان اے تسیں
اے پیسے رکھ لو یہ کہتے ہوئے جمیل ایک دوسرے گاہک کی طرف بڑھ گیا۔
میرے دوست تو سویمنگ سے لطف اندوز ہوتے رہے لیکن میں جمیل جیسے اللہ تعالٰی
کے شاکر بندوں کے بارے میں سوچتا رہا اور ان کا موازنہ ان لوگوں سے کرتا
رہا جواپنے خالق سے ہی بر سر پیکار ہیں حقیقت یہ ہے کہ مادہ پرست لوگ
دنیاکی رنگینیوں میں اس حد تک گم ہو چکے ہیں کہ ان کاھم و غم صر ف آورصرف
جز وقتی لذتیں ہیں جن کے حصول کے لیے یہ مادہ پرست کسی بھی طرح کے قوانین
کے پابند نہیں ہیں ایسے لوگوں کے پاس مال ودولت تو بہت ہے لیکن یہ لوگ سکون
جسی دولت سے محروم ہیں سکون اور اطمینان جیسی دولت جمیل جیسے لوگوں کے پاس
ہے جوہرحال میں اپنے اللہ کے شاکر رہتے ہیں۔
اگر ہم موجودہ دنیا کے حالات پر نگاہ ڈالیں تو واقعا آج کا طغیان گر انسان
اللہ تعالٰی سے برسرپیکار نظر آتا ہے۔آج یہ انسان کہیں پر اسلام اور اللہ
تعالٰی کے مقدس نام پر بےگناہوں کے خون سےہاتھ رنگ رہا ہے تو کہیں یہ بدبخت
انسان فطرت کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے اور غیر
انسانی اورغیر اخلاقی افعال کوآزادی سے موسوم کرتا ہے کہیں طاقت کے نشےمیں
مست ظالم حکمران کمزور ممالک کی عوام پرظلم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں ایسےعالم
میں جمیل جیسے لوگوں کا وجود کسی غنیمت سے کم نہیں ہے جو حکمرانوں کی طرف
سےاپنے استحصال کے باوجود اپنی زندگی کا پہیہ چلا رہے ہیں تاریخ عالم گواہ
ہےکہ جن اقوام نے اپنے خالق سے جنگ کی وہ قومیں صفحہ ہستی سےہی مٹ گییں آج
یورپ میں جو کلچر پنپ رہا ہے یہ کلچر انسان کو اس کے اللہ سےنا صرف دورکر
رہا ہے بلکہ اس فاسد کلچر نے انسان کو اپنے خالق کے سامنےلا کھڑا کیا ہے
ہمیں اپنے اللہ سے قریب ہونےکے لیے اور اس کے انعامات کا حق دار بننے کےلیے
اپنےخالق سے اپنا ناطہ جوڑنا ہو گا۔کہ اس کا وعدہ ہے جو اس کا شکرادا کرتا
ہے وہ اسکی نعمتیں بڑھاتا چلاجاتا ہے جبکہ طغیان گروں کو تاریخ کےکوڑا دان
میں پھینک دیتا ہے اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ہر میدان میں ترقی عنایت فرمایے
اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ آمین ۔ |