روحانی تربیت:ماہِ رمضان المبارک
جہاں اپنے ساتھ ہزارہارحمتوں،برکتوںاور فضیلتوںکوساتھ لاتاہے وہی بے شمار
امراض کے لئے شفاء کا سامان بھی مہیا کرتا ہے۔گویا کہ ماہِ رمضان المبارک
روحانی تربیت،روحانی و جسمانی امراض سے شفاء اور انسانیت کا درس دیتا
ہے۔اسی ماہ کی وجہ سے غرباء ومساکین کی بھوک وپیاس کا صحیح معنوں میںاحساس
بیدار ہوتا ہے،ہم ایک مہینہ اختیاری طور پر بھوک وپیاس برداشت کرتے ہیںجبکہ
غریب وناداراور یتیم غربت و افلاس کی چکی میں پِس کراضطراری طور پربھوک سے
اپنے شکم کی آگ اور بھوک سے تڑپتے بچوں کی سسکیاں سنتے ہیں۔اور جب تک
انسانی بھوک کا احساس اہلِ ثروت ومالدار طبقے میں پیدا نہیں ہوگاتب تک
زکوٰۃ کی مکمل ادائیگی ناگزیر ہے۔مگرافسوس صد افسوس!جوعمل یعنی روزہ اس
احساس کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے بہت سے لوگ طرح طرح کے بہانے بنا کراسے
ترک کردیتے ہیں۔معمولی سا مرض ہو یا خفیف سا بخار،سردی زکام ہویابدن
درد،یاپھر کسی فاسق وفاجرڈاکٹرنے کہہ دیاہوکہ روزہ رکھنا نقصان دہ ہوگا۔ان
تمام غیر شرعی وجوہات کا سہارا لے کرروزہ چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ روزہ امراض
میں اضافے کا نہیں بلکہ شفاء کا ذریعہ ہے اور کیوں نہ ہو کہ حضور سید عالم
ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’روزہ صبر ہے ،ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ
روزہ ہے۔‘‘(برکاتِ شریعت،ص؍۱۸۷)یعنی جس طرح مال کی زکوٰۃکی ادائیگی پر مال
بالکل صاف وستھراوپاکیزہ ہوجاتاہے اسی طرح بدن کی زکوٰۃکی ادائیگی یعنی
روزہ رکھنے پر انسان باطنی و ظاہری امراض سے پاک وصاف ہوجاتاہے۔
روزے کاکفارہ:غیر عذر شرعی اسباب و وجوہات کاسہارا لے کرروزہ ترک کرنے
والوںکو ہوش کے ناخن لینا چاہئے کیونکہ ایک روزہ بلا عذر شرعی ترک کرنے
پرروزے کاکفارہ ادا کرناہوگا۔روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو ایک
رقبہ یعنی باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کر سکے مثلاً اس کے پاس نہ
لونڈی، غلام ہے نہ اتنا مال کہ خرید ے یا مال تو ہے مگر رقبہ میسر نہیں
جیسے آج کل یہاں ہندوستان میں ،تو پے در پے ساٹھ روزے رکھے۔ یہ بھی نہ کر
سکے تو ساٹھ مساکین کو بھر بھر پیٹ دونوں وقت کھاناکھلائے اور روزے کی صورت
میں اگر درمیان میں ایک دن کا بھی چھوٹ گیا تو اب سے ساٹھ روزے رکھے، پہلے
کے روزے محسوب (شمار) نہ ہوں گے اگر چہ انسٹھ(۵۹) رکھ چکا تھا اگر چہ
بیماری وغیرہ کسی عذر کے سبب چھوٹا ہو مگر عورت کو حیض آجائے تو حیض کی
وجہ سے جتنے ناغے ہوئے یہ ناغے نہیں شمار کئے جائیں گے، یعنی پہلے کے روزے
اور حیض کے بعد والے دونوں مل کر ساٹھ ہو جانے سے کفارہ ادا ہو جائے گا۔ (بہار
شریعت)
تارکینِ روزہ ایک نہیں بلکہ کئی روزے ترک کر دیتے ہیںانھیں سوچنا چاہئے کہ
ایک ماہ کے روزے کی ادائیگی ہم سے نا گزیر ہے توہم کفارے میں کئی مہینوںکے
روزے کیسے رکھ سکیں گے؟اور اگر رکھ بھی لئے تو سرکاردوعالمﷺ نے
فرمایا:’’بغیر عذر شرعی کے جس نے ایک روزہ بھی چھوڑاتواس کی فضیلت پانے کے
لئے پوری زندگی کے روزے ناکافی ہیں۔‘‘(بخاری وترمذی)معلوم ہوازندگی بھرکے
روزے بھی ماہِ رمضان کے ایک روزے کابدل نہیںہوسکتے۔پھر ہم اس سلسلے میں
سستی اور تساہلی کیوں کرتے ہیں؟کیوں معمولی مرض کے خوف سے روزہ ترک کر کے
عذابِ جہنم کے مستحق بنتے ہیں؟ڈاکٹر کامنع کرنا بھی اسی وقت قابلِ قبول
ہوگاجب وہ ڈاکٹر اسلامی امور کی پاسداری کرتا ہواور وہ ایسا ہوجس کی گواہی
شریعت میں قابلِ قبول ہو۔ہونا تویہ چاہئے کہ منع کرنے کے باوجودبھی روزہ
رکھے اس لئے کے محبوبِ رب العالمینﷺکافرمان ہیں:’’روزہ رکھوصحت
مندہوجائوگے۔‘‘(برکات شریعت،ص؍۱۹۲)ڈاکٹرکی ممانعت پر گناہ کبیرہ کے مرتکب
ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ فرمانِ رسالت مرض سے شفاء کی سند ہے۔
سائنسی اور طبّی فوائد:الحمدللہ تعالیٰ!سائنسی تحقیق بھی بانی اسلام کے اس
قول کی صداقت پر سرتسلیم خم کرتی ہے۔؟مختصراً ملاحظہ فرمائیں۔ حکیم محمد
طارق محمود چغتائی اپنی تصنیف ’’سنت نبوی اور جدید سائنس ‘‘میں رقم طراز
ہیں۔ ’’پروفیسر مورپالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہیں، انہوں نے اپنا
واقعہ بیان کیا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور روزے کے باب پر
پہونچا توچونک پڑاکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کتنا عظیم فارمولہ
دیا ہے۔ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کواور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا
فارمولہ ہی دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ
ہوتی۔میںنے سوچاکہ اس کوآزماناچاہئے۔پھرمیںنے روزے مسلمانوںکے
طرزپررکھناشروع کردئیے۔میںعرصۂ درازسے معدے کے ورم ’’Stomach
Inflamation‘‘میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس
میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی۔ پھر میں نے جسم میں
کچھ اور تبدیلی بھی محسوس کی۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد میں نے اپنے جسم کو
نارمل(NORMAL) پایا۔ حتیٰ کہ میں نے ایک ماہ کے بعد اپنے اندر انقلابی
تبدیلی محسوس کی ‘‘۔پوپ ایلف گال ہالینڈ کا بڑا پادری گزرا ہے، اس نے روزے
کے بارے میں اپنے تجربات بیان کئے ہیں، ملاحظہ ہو۔ ’’میں اپنے روحانی
پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقۂ
کار کے ذریعہ جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مجھ پر مسلسل
زوردیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتائوں لیکن میں نے یہ اصول وضع
کرلیا کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین یوم نہیں بلکہ ایک ماہ
تک روزے رکھوائے جائیں‘‘۔ قارئین کرام!غور کریںدیگر مذاہب کے لوگ روزے کے
طبی فوائد سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور بعض لوگ روزہ ترک کرکے عذابِ جہنم کے
مستحق بن رہے ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو تا حیات احکامِ اسلام پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین |