ہاتھی کے سامنے والے دانت بڑے
لمبے لمبے اور نوکیلے بھی ہوتے ہیں۔ یہ بہت قیمتی بھی ہوتے ہیں۔ ان سے
مختلف قسم کی زیبائشی اشیا ((Show Peiceبھی بنائی جاتی ہیں۔ہاتھی کے یہ
لمبے لمبے اور لوکیلے دانت ہاتھی کے کسی بھی کام کے نہیں ہوتے ، کیوں کہ
ہاتھی اپنے ان قیمتی دانتوں سے کچھ کھا نہیں سکتا، کھانے کے لئے قدرت نے جو
دانت ہاتھی کو عطا کیئے ہیں وہ تو اور ہی ہوتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں
آتے۔اسی لیئے تو یہ بات مشہور ہے کہ " ہاتھی کے دانت کھانے کے اور د،کھانے
کے اور" مطلب وہی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ہمارے سیاست اس بات کو
اچھی طرح سمجھتے ہیں اور پوری طرح عمل بھی کرتے ہیں۔ وہ عوام کو اپنے جو
دانت دکھا رہے ہوتے ہیں حقیقت میں وہ اُن کے اصلی دانت نہیں ہوتے ، اُن کے
اصلی، لمبے لمبے اور تیز دھار دانت اُن کے منہ میں نہیں بلکہ اُن کے پیٹ کے
اندر ہوتے ہیں جن سے وہ ملک و وقوم کی دولت بڑی مہارت سے چبا چبا کر کھاتے
ہیں۔ ان خفیہ اور تیز دھار دانتوں سے کھاےا ہوا مال بہت جلد ہضم بھی ہو
جاتا ہے اسی لیئے حرام مال کھانے سے کسی بھی قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں
ہوتی۔ نا تو ان دانتوں کو کیڑا لگتا ہے اور ہی یہ ٹوٹتے ہیں۔ بلکہ عمر اور
سیاسی تجربہ بڑھنے کے ساتھ اور بھی مظبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ یہ بات غلط
ہے کہ سیاست دانوں کے یہ خفیہ دانت نہ تو کسی ایکسرے مشین سے نظر آتے ہیں
اور نہ ہی کسی الٹرا ساﺅنڈ مشین سے۔اصل میں ان خفیہ دانتوں کا سراغ لگانے
والے ماہرین بھی اپنے اندر خفیہ دانت رکھتے ہیں ۔اگر وہ ان سیاستدانوں کے
خفیہ دانتوں کا سراغ لگانا بھی چاہیں تو اُنہیں یا تو بھر پور قسم کا چارہ
مل جاتا ہے یا اُنہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔۔
سیاست دانوں کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اوروالی بات کی تصدیق کرنے کا
ایک طریقہ یہ ہے کہ جب کسی سیاست دان کا کوئی بہت بڑا سکینڈل منظر عام پر
آئے اور کچھ ہی دنوں میں بغیر کسی نتیجے کے غائب ہو جائے تو سمجھ لینا خفیہ
داتوں نے اپناکام کر دکھایا ہے۔ ایکسرے مشین اور الٹرا ساﺅنڈ مشین دونوں ہی
ناکام ہو جاتی ہیں ،کیونکہ تحقیق اور تفتیش کرنے والے ماہرین کے خفیہ دانت
بھی حرکت میں آتے ہیں ۔ اربوں کھربوںکا مال منٹوں میں ہضم ہو جاتا ہے۔۔۔
سابقہ حکومت میں ان اندرونی دانتوں نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔
ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل اس طرح کے بہت سے دیوقامت ادارے انہی دانتوں کی
بھینٹ چڑھے ہیں۔ان دانتوں کا سراغ لگانے والے بھی اس گنگا میں خوب نہائے
ہیں۔۔۔۔
حالیہ الیکشن میں بھی ہمیں جو بڑے بڑے قیمتی اور چمکدار دانت دکھائے گئے
تھے وہ ہاتھی کے دانت تھے۔۔ کھانے کے اور، دکھانے کے اور۔۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ۔۔ اے طائر لاہوتی۔۔۔۔۔ ہم اقتدار میں آ
کر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے، ہمیں اگر مینڈیٹ ملا تو اس ملک کو ترقی
کی بلندیوں تک لیں جائیں، اگر عوام نے ہماری قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے
ہمیں اسمبلیوں تک پہنچایا تو ہم اس ملک سے مہنگائی اور غربت کا خاتمہ کر
دیں گے۔کارخانوں میں مشینیں بھی چلیں گی اور گھروں میں پنکھے بھی ۔۔۔ ان کے
اسمبلی میں پہنچ جانے کے بعد ہم ابھی تک انہی بڑے بڑے اور خوبصورت دانتوں
کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کے اندرونی اور خونخوار دانتوں کی حرکت بھی
محصوس کرنے لگ گئے ہیں۔
جیسے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ سے مکر جانا، ایک فیصد سیلز ٹیکس بڑھا کر
مہنگائی کے خاتمے کے وعدے سے پھر جانا، موبائل فون کے ریچارج پر ٹیکس بڑھا
کر یہ کہنا کہ اس سے غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا۔۔۔۔
اے طائر لاہوتی۔۔۔۔کیا غریب آدمی موبائل استعمال نہیں کرتا؟؟؟ہو سکتا ہے
یکم جولائی کے بعد اُسے استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے کیونکہ جتنی
مہنگی کال ہو جائے گی اُس سے کم خرچ پر وہ بذات خود جا کر اپنے عزیزو اقارب
تک اپنا سلام اور پیغام پہنچا سکے گا۔
رہی بات لوڈ شیڈنگ کی ، پچھلی حکومت بھی لوڈ شیڈنگ ختم کرتے کرتے خود ختم
ہو گئی اور موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ پیش آنے کی پیش
گوئیاں کی جاسکتی ہیں۔کیونکہ یہ جو ہاتھی کے کھانے والے دانت ہیں نا!!! یہ
اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ |