لوگ 1988ءکا وہ زمانہ نہیں بھولے
ہونگے جب وزیرِ اعظم بینظیر لاہور تشریف لاتیں تو پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ
میاں نواز شریف اُن کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ تک جانا بھی گوارا نہ کرتے
۔پھر لوگوں نے میاں صاحب کوبینظیر کی شہادت پر ہچکیاں لے لے کر زارو قطار
روتے بھی دیکھا۔لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے تھے کہ وہ ضدّی نواز شریف کہاں
گیالیکن شاید یہ طویل جلاوطنی کا ثمر تھا جس نے میں صاحب کو یکسر بدل کے
رکھ دیااور اُنہوں نے جنابِ آصف زرداری جیسے لیڈروں سے بھی مفاہمت کی
پالیسی اختیار کی اور زرداری صاحب کی تمامتر وعدہ خلافیوں کے باوجود اُسے
برقراربھی رکھا ۔یار لوگوں نے فرینڈلی اپوزیشن تک کے طعنے دیئے، ملّی بھگت
کا شور مچایا لیکن میاں صاحب کی پالیسی میں سرِ مُو فرق نہ آیا ۔یہ اُسی
پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج میاں صاحب بلا شرکتِ غیرے بر سرِ اقتدار ہیں اور
پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔لوگ تو جنابِ
زرداری کو سیاست کی شطرنج کا ماہر کھلاڑی گردانتے رہے اور خود زرداری صاحب
بھی میاں صاحب کو یہ کہتے رہے کہ” اگر سیاست سیکھنی ہے تو ہم سے سیکھو“لیکن
وقت نے ثابت کر دیا کہ زرداری صاحب تو سیاست کی الف بے میں اٹکے رہے اور
میاں صاحب نے پورا سیاسی قاعدہ رٹ لیا۔زرداری صاحب کے اِس ”لوہار“ نے
اپنے”مفاہمتی ہتھوڑے “کی ایک ہی ضرب سے پیپلز پارٹی کو اپنی مرضی کے قالب
میں ڈھال کر ”نُکرے “ لگا دیااور یہ سچ ثابت کر دکھایا کہ ”سو سُنار کی ،
ایک لوہار کی“۔اب زرداری صاحب کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ پیپلز پارٹی
کسی بین الاقوامی سازش کا نہیں بلکہ اُن کی ”وعدہ خلاف سیاست“کا شکار ہوئی
ہے ۔زرداری صاحب خود تو خیرکبھی پارٹی کی جان نہیں چھوڑیں گے لیکن پیپلز
پارٹی اگر کسی نہ کسی صورت میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے
بہرحال ”خاندانِ زرداریہ“ سے پیچھا چھڑانا ہو گا۔
میاں صاحب کی اسی مفاہمتی پالیسی کے زیرِ اثر چوہدری نثار صاحب نے اسمبلی
میں محترم عمران خاں صاحب کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔خاں صاحب نے قومی
اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد انہی باتوں کا ورد شروع کر دیا جنہیں سُن سُن
کر کان پَک چکے ہیں۔جواباََ طرّار چوہدری نثار صاحب نے فرمایا کہ عمران خاں
کی تقریر ایک اپوزیشن لیڈر کی نہیں بلکہ ایک انتہائی محبّ ِ وطن پاکستانی
کی تقریر تھی اور ہم اُن کی ہر بات کی تائید کرتے ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ
خاں صاحب چار نہیں چالیس سیٹوں پر دھاندلی کے خلاف کوئی کمشن بنا لیں ہم
اُن کا بھرپور ساتھ دیں گے۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جناب فخر الدین جی
ابراہیم کا نام عمران خاں صاحب کی طرف سے ہی آیا تھا ۔اِس کے باوجود بھی
خاں صاحب انتخابی اصلاحات کا نیا مسودہ لے آئیں ، ہم اُن کا بھرپور ساتھ
دیں گے۔چوہدری نثارصاحب کی تقریر کے دوران تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی
متواتر ڈیسک بجا کر اُنہیں داد دیتے رہے اور عمران خاں صاحب کو مجبوراََیہ
کہنا پڑا کہ چوہدری نثار کی تقریر سُن کر مجھے خوف آنے لگا ہے کہ کہیں لوگ
ہمیں بھی ”فرینڈلی اپوزیشن“ نہ سمجھ بیٹھیں۔ چوہدری نثار کا تدّبریہ تھا کہ
میں بچا تیرِ حوادث سے نشانہ بن کر
آڑے آئی میرے تسلیم ، سَپر کی صورت
وگرنہ اپوزیشن تو بڑی شدّت سے خاں صاحب کی صحت یابی کا انتظار کر رہی تھی
اور خیال یہی تھا کہ کپتان کے آتے ہی ماحول گرم ہو جائے گا اور” سونامیے“
اسمبلی کو بہا لے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کئی دنوں سے بغلیں
بجانے کی پریکٹس کر رہی تھی لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شُدی“ نہ صرف یہ کہ
ہوا کچھ بھی نہیںبلکہ اُلٹا ”تحریکیوں“ نے چوہدری نثار کی تقریر پر ڈیسک
بجا بجا کر اپنے ہاتھ سُرخ کر لیے ۔اب ”با اصول کپتان“ کو چاہیے کہ تمام
ڈیسک بجانے والوں کی جواب طلبی کرتے ہوئے اُنہیں قوم سے معافی مانگنے کا
حکم صادر فرمائیںکہ جب تحریکِ انصاف کا صدر معافی مانگ سکتا ہے تو یہ کس
کھیت کی مولی گاجر ہیں۔پھر انٹر نیٹ پہ بیٹھے ”سونامیوں“ کو خوش بھی تو
کرنا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ نواز لیگ کے اِس مفاہمتی رویے سے صرف پیپلز پارٹی اور ایم
کیو ایم ہی نہیں ، میں خود بھی بہت دُکھی اورپریشان ہوں ۔بھاڑ میں جھونکنا
ہے ایسی جمہوریت کو جس میں ہلّہ گُلّا ہو نہ شور شرابا، گالی گلوچ ہو نہ
جوتم پیزار ۔ایسی ”ٹھنڈی ٹھار“ جمہوریت کے گولے بنا کر چوسنے کا ہمارا کوئی
موڈ نہیںکیونکہ ہمیں تو اپنے کالموں کے لیے مواد چاہیے جو صرف گرما گرم
”جمہوریت“میں ہی میسر آ سکتا ہے ۔اگر ایسی جمہوریت میسر نہ ہو تو پھر کیا
ہم ”سائیکل رکشوں“ پر کالم لکھنا شروع کر دیں؟۔یہی پریشانی ہمیں ہر پَل بے
کَل رکھتی تھی ، وہ تو اللہ بھلا کرے کپتان صاحب کا جنہوں نے عید الفطر کے
بعد ملک گیر تحریک اُٹھانے کا اعلان کرکے ہمارا فشارِ خون بلند کرنے کی کچھ
سبیل کی۔اب ہم ایک ایک دِن انگلیوں پر گِن کر گزاررہے ہیں اورہماری عید تو
تب ہو گی جب ”کپتان صاحب“ کا سونامی پورے ملک میں ٹھاٹھیں مارتا پھرے
گا۔اِس سونامی کی لپیٹ میں تو بہت پہلے سبھی آ جاتے لیکن ایک تو خاں صاحب
ناگہانی حادثے کے سبب بستر سے لگ گئے اور دوسرے خاں صاحب انتخابات سے پہلے
دو ، تین ہفتوں میں ”نو بال پہ نو بال“ پھینکتے چلے گئے اور نواز لیگ چھکّے
پہ چھکّا مارتی چلی گئی۔اتنی غلطیوں کے باوجود دبنگ کپتان اب بھی یہی کہتے
ہیں کہ ”پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست! “ ۔کم از کم اِس معاملے میں توہم بھی
اُن کے ہمنوا ہیں کیونکہ اِس میں ہمارا بھی بھلا ہے اور انٹر نیٹ کے ”سیاسی
نو مولودوں “کا بھی، جو سونامی کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہو گئے ہیں
۔سونامیے تو سرے سے تسلیم کر ہی نہیں سکتے کہ اُن کے قائد کا فرمان غلط بھی
ہو سکتا ہے۔جب قائد نے ٹی وی اینکر کو یہ لکھ کر دے دیا اور اپنے بچوں کو
یہ تک کہہ دیا کہ اب تم سے میری اگلی ملاقات بطور وزیرِ اعظم پاکستان ہو گی
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اُن کے خوابوں کو چکنا چور ہونے دیا جائے ؟۔سو
یہ طے ہوا کہ چوہدری نثار لاکھ مفاہمت کی بات کریں اور میاں صاحب بھلے شوکت
خانم میں عیادت کے لیے جاتے پھریں ، ”سونامیے“ عمران خاں کی وزارتِ عظمیٰ
سے کم پر کوئی سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں ۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ تحریکِ
انصاف نواز لیگ کی مفاہمتی پالیسی کے جھانسے میں آ جائے گی تو وہ بوڑھے ،
بیمار جاوید ہاشمی سے عبرت پکڑے جس نے مفاہمت کے اصولوں کو مدّ ِ نظر رکھتے
ہوئے میاں نواز شریف صاحب کو اپنا لیڈرکہہ دیا اور پھر سوشل میڈیا پر وہ
طوفانِ بدتمیزی اُٹھا کہ ”باغی “ کو ٹی وی پر آ کر یہ کہنا پڑا ”بغاوت چھوڑ
دی میں نے “۔ویسے جاویدہاشمی صاحب کو”کپتان“ کے دربار میںبطور مجرم حاضری
دیتے وقت میاں نواز شریف صاحب تو ضرور یاد آئے ہونگے جو آگے بڑھ کر اُن کی
گاڑی کا دروازہ کھولا کرتے تھے- |