امریکیوں کو جاسوسی کا شوق وراثت میں تاج برطانیہ سے ملا
ہے اور اسی شوق کی وجہ سے امریکی حکام آج کل صفائیاں پیش کرنےمیں مصروف ہیں۔
قصہ یہ ہے کہ ایک مہینے کے مختصر عرصے میں پے درپے امریکہ کی طرف سے جاسوسی
کی ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں جنکی وجہ سے ملکی اور عامی سطح پر امریکی
حکام اور امریکی اداروں کو کافی بدنامی کا سامنا ہے۔سب سے پہلے روزنامہ
گارڈین نے خبر دی کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی لاکھوں امریکی شہریوں کی
فون کالز کا ڈیٹا جمع کررہی ہے۔ لوگوں کی طرف سے ردعمل آنا شروع ہوا تو
اوباما حکومت نےعوام کو چوہدری شجاعت کے "مٹی پاؤ" فارمولے کے مطابق مطمئن
کرنے کی کوشش کرتے کہا کہ ملکی سالمیت اور دہشت گردی سے مقابلے کے لیے اس
قسم کے اقدامات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ سابق سی آئی اے ایجنٹ اور سسٹم منیجر ایڈورڈ
سنوڈن نے امریکی خفیہ سوفٹ ویئر «PRISM» سے پردہ اٹھا کر امریکہ پر ڈرون
حملہ کردیا۔ «PRISM» سوفٹ ویئر کی وجہ سے امریکن پولیس، ایف بی آئی، نیشنل
سیکیورٹی کونسل وغیرہ دنیا بھر میں لوگوں کے ایمیل، ویڈیو بلکہ پرسنل
کمپیوٹر وغیرہ تک رسائی اور ڈیٹا حاصل کرنے کے علاوہ مشکوک افراد کا ورچوئل
تعاقب بھی کرسکتی ہیں۔اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا لیکن امریکہ نے پھر
چوہدری شجاعت کی مددلی اور مٹی پاؤ فارمولے کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو
یقین دلایا ہم انتہائی محدود پیمانے پر یہ کام کررہے ہیں اور اس کے ذریعہ
بہت سے لوگوں کی جان بچائی جاسکتی ہے-
ایڈورڈ سنوڈن نے ہانگ کانگ میں پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ امریکہ چینی
عوام کے ٹیلی فون ہیک کرکے ان کے ایس ایم ایس پڑھ کر اپنا جاسوسی کا شوق
پورا کررہا ہے ساتھ ہی یہ خبر بھی آگئی کہ امریکی جاسوس لندن میں جی ۲۰
اجلاس کے دوران روسی صدر کے اہم اور خفیہ گفتگو کو سننے کی کوشش کرتے رہے
ہیں۔ امریکہ کے بارے میں پھیلنے والی ان خبروں کی وجہ سے یورپی یونین میں
بھی بے چینی پھیل گئی اور یورپی یونین نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ
«PRISM» سوفٹ ویئر کے بارے میں یورپی یونین کو تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔صدر
اوباما نے معاملے پر" مٹی پانے" کے لیے جرمنی کی صدراعظم انجیلا مرکل کو
یقین دہانی کروائی کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ جمع کیا جانے والا دیٹا
انتہائی محدود اور قانونی تقاضوں کے دائرے میں ہورہا ہے۔
اوباما کو جرمنی سے گئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ جرمنی کے معروف اخبار
ڈیئراشپیگل میں ایک دستاویز شائع ہوئی کہ امریکی ادارے واشنگٹن میں موجود
یورپی یونین کے دفتر کے فون ریکارڈ کرتے رہے ہیں۔ جاسوسی کی یہ دستاویز بھی
سنوڈن کا ایک ڈرون حملہ شمار کی جاسکتی ہے جس میں امریکہ کی طرف سے جاسوسی
کے طریقہ کار اور یورپی یونین کے دفاتر میں موجود ڈیٹا چوری کرنے کے طریقہ
کار کی تفصیلات درج تھیں۔اس خبرکے بعد یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ مارٹن سکلز
نے امریکہ سے وضاحت طلب کرتے ہوئے اسے امریکہ اور یورپی یونین کے باہمی
تعلقات کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے
اتحادیوں کی جاسوسی کے بجائے اپنے اداروں کو کنٹرول میں کرے۔
سنوڈن کی طرف سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف امریکہ نے بھی
شاید مٹی پاؤ فارمولے کو ایک سوفٹ ویئر کی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے
ذریعہ لوگوں کو خاموش کروایا جاسکے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان سے بھی امریکہ
نے وسیع پیمانے پر ڈیٹا حاصل کیا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے کوئی خاص ردعمل
نہ ہونے کی وجہ بھی شاید ہمارا اپنا مٹی پاؤ فارمولہ ہے۔ |