پچھلے اتوار کو نیٹ پر جب یہ خبرپڑھی کہ پاکستان کے شمالی
علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں نانگا پربت بیس کیمپ میںدہشت گردوں نے
دس غیر ملکیوں اور ایک پاکستانی سیاح کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے
تودماغ سن ہو کر رہ گیا۔ یوں تو ملک میں جاری دہشت گردی کی نئی لہر میں
ہونے والے سارے واقعات ہی افسوس ناک ہیں، لیکن گلگت کا یہ واقعہ بہت ہی
زیادہ قابلِ مذمت ہے۔ یہ بہت ہی برا ہوا، بہت ہی برا....بیرون ملک سیاح
دراصل اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں اور جس ملک میںجاتے ہیں، وہاں کے مہمان
تصورہوتے ہیں اورمہمانوں و سفیروں کو حالت جنگ میں بھی کوئی ہاتھ نہیںلگاتا۔
سیاح ایسے مہمان ہیں جو آپ کے گھر آتے ہیں تولاکھوں ڈالر زرمبادلہ اور
روزگار کے چھوٹے بڑے سینکڑوں مواقع ساتھ لے کر آتے ہیں اور جاتے ہوئے
میزبان کے گھر سے حسین یادیں اوراس کے سوفٹ امیج کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ایڈونچر ٹورازم،
قدرتی خوبصورتی، مذہبی سیاحت اور تاریخی مقامات سے مالامال ہے۔ ان مقامات
میں سے کئی خاص مقامات گلگت بلتستان میں ہیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
یہاں دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹواوردنیا کی نویں بلند ترین اور
افسانوی شہرت یافتہ چوٹی نانگا پربت (جسے کلر ماو ¿نٹین بھی کہا جاتا ہے،
اورجس کے دامن میں دہشت گردی کی یہ واردات ہوئی ہے) سمیت8ہزار میٹر سے
بلند5 چوٹیاں ہیں، اس کے علاوہ7ہزار میڑ سے بلند101چوٹیاں، 5ہزار ایک سو
گلیشیر،چوبیس سومربع میل پر مشتمل برفانی علاقہ، سینکڑوں قدرتی
جھیلیں،ہزاروں سال پراناتاریخی ورثہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے نہایت پر
کشش ہیں۔ یہاں دنیا کاوہ منفرد ترین مقام ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، یعنی
یہاں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش ہم آغوش
ہوتے ہیں۔ ان سحر انگیز مقامات کی وجہ سے گلگت سیاحوں کی جنت کہلاتا تھا
لیکن اس جنت میں پچھلے ایک عشرے سے امن و امان کی حالت نہایت خراب ہے، جس
کی سنگینی میں کئی گنا زیادہ اضافہ اس سانحے سے ہوگیا ہے ۔
سیاحت کا شعبہ کسی بھی ملک کا بہت اہم شعبہ ہوتا ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف
زرِمبادلہ ملک میں آنے کا بڑا ذریعہ ہے بلکہ یہ کسی بھی ملک کے مثبت تاثر
کو بیرونی دنیا میں عام کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ سیاح جس ملک میں جاتے ہیں،
وہاں کی سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی اقدار کے بارے میں جان کر
پھردنیا بھر میں ایک طرح سے اُس ملک کے بغیر تنخواہ کے سفیر بن جاتے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں کئی ایسے ممالک ہیں، جن کی مجموعی ملکی آمدن کا دارو
مدار ہی سیاحت پر ہے۔ دنیا بھر میںسیاحت ایک بڑی صنعت بن چکی ہے جس سے
لاکھو ں لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے۔ شعبہ سیاحت سے وابستہ انہی کثیر
الفوائد مقاصد کی وجہ سے وہ ممالک جوخوبصورت قدرتی مناظر اور تاریخی و
ثقافتی ورثہ سے مالا مال ہیں، وہاں سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات پہنچائی جاتی
ہیں، جن میں سب سے بڑھ کر ان کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں امن
و امان کی حالت اتنی مخدوش ہے کہ اب ہم اپنے مہمانوں کی حفاظت بھی نہیں کر
سکتے۔ کتنے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ وردی پوش دہشت گرد انتہائی دشوار
گزار راستوں سے گزر کر آتے ہیں، اپنے ہدف کو ہٹ کرتے ہیں اور بحفاظت اپنی
کمین گاہوں میں روپوش ہو جاتے ہیں اور دنیا کی منظم ترین فوج اور خفیہ
ادارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
اس دہشت گردی کے بعد حسبِ معمول تحریکِ طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کر
لی، لیکن ٹی ٹی پی کا ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد ذمہ داری قبول کرنا خود
ایک انتہائی پراسرار اور متنازعہ معاملہ ہے۔ اس لیے ہم بالکل کنفرمیشن کے
ساتھ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس ضمن میں دفتر خارجہ اور گورنر
گلگت کے بیانات انتہائی اہم ہیں، جس سے شک ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اور اس کا
پس منظر اتنا سادہ نہیں ، جتنا میڈیا پربتایا جا رہا ہے۔ دفتر خارجہ نے
سانحے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے ذمہ داردراصل پاک چین
تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی بات گورنر گلگت بلتستان نے بھی
کی، انہوں نے بھی واقعہ میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ اگریہ
بات مان لی جائے کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہے، پھر بھی یہ بات تو یقینی ہے کہ
بیرونی دشمنوں نے براہِ راست یہ کارروائی نہیں کی ہے بلکہ اپنے مقامی مہرے
استعمال کیے ہیں۔ میڈیا پر ٹی ٹی پی کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ ڈرون
حملوں کے ردعمل میں اور دنیا کو ڈرون حملوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے انہوں
نے کارروائی کی ہے۔ اگر واقعتاً ٹی ٹی پی نے یہ کہا یا جس نے بھی ان کی طرف
سے یہ بات گھڑی ہے تو یہ انتہائی بھونڈی دلیل ہے۔ یہ اسلام کے احکامات کے
توبالکل خلاف ہے ہی، پشتونوں اور قبائلی روایات کے بھی بالکل خلاف ہے۔ ہم
تو بچپن سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ قبائلی علاقے والے مہمان نوازی میں دنیا
میں اپنی مثال آپ ہیں۔ پھر افغان طالبان ( جن کے نام پر پاکستانی گروہ خود
کو ”طالبان“ کہتے ہیں)کے بارے میں غیر ملکی میڈیا بھی معترف ہے کہ وہ
دورانِ جنگ بھی اسلامی اخلاقیات کی پوری پابندی کرتے ہیں۔دیکھیے عین حالتِ
جنگ میں ایک برطانوی صحافی خاتون بہروپ بدل کر جاسوسی کرنے کے لیے
افغانستان میں داخل ہوتی ہے اور طالبان کے قبضے میں آجاتی ہے توصرف دس دن
میں طالبان کے اخلاق سے متاثر ہو کرمسلمان ہو جاتی ہے ۔پھر ایسا کیسے ہو
سکتا ہے کہ ملا عمر حفظہ اللہ کو اپنا امامِ جہاد کہنے والے اپنے اوپر ظلم
کا بدلہ معصوم اور نہتے سیاحوں کو خون میں نہلا کرلیں !!
دہشت گردی کا یہ واقعہ پاکستانی سیاحت کے لیے اس لحاظ سے اور بھی زیادہ
سنگین ہے کہ پچھلے ماہ ایک امریکی جریدے کے سروے کے مطابق پاکستان سیاحت کے
اعتبار سے دنیا کے نہایت خطرناک ممالک میں سے ایک ہے۔ سیاحت کے حوالے سے اس
رپورٹ کی بازگشت پچھلے ماہ عالمی میڈیا پرسنائی دیتی رہی ہے۔ اس رپورٹ میں
پاکستان کوجو سیاحت کے زمرے میں عالمی طور پر کم ازکم پہلے پانچ ممالک میں
جگہ پانے کا استحقاق رکھتا تھا، ہماری نااہلی کی وجہ سے سیاحت کے لیے دنیا
کے پہلے پانچ خطرناک ترین ممالک میںپانچویں نمبر پر شمار کیا گیاہے۔ یہ
شرمناک اعزازمئی 2013ءمیں امریکی جریدے فوربز کی اس حوالے سے مرتب کردہ
فہرست میں پاکستان کو دیا گیا۔ اس فہرست میں ڈکیتیاں، قتل و غارت، کرپشن،
اغواءبرائے تاوان، دہشت گردی اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھا گیا۔فہرست میں
صومالیہ کو سیاحت کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا،دوسرے نمبر پر
افغانستان موجود ہے ،تیسرے نمبر پر عراق کو رکھا گیا ہے چوتھے نمبر پر
افریقی ملک کانگو ہے اور اس کے بعد جنت نظیرپاکستان کا نمبر ہے جہاں دہشت
گردی عروج پر ہے۔ میں سو چ رہا ہوں کہ دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد اب
اگرپاکستان کوسیاحت کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پہلے نمبر کا ”اعزاز “دے
دیا جائے تو کچھ بعید نہیں۔
نانگا پربت جسے دنیا بھر کے کوہ پیماکلر ماو ¿نٹین یعنی قاتل پہاڑ بھی کہتے
ہیں.... صدیوں سے انسانی جانوں کا خراج لیتا آیا ہے۔ پوری دنیا میں سب سے
زیادہ جس چوٹی کو سر کرنے میں کوہ پیماؤں کی جانیں تلف ہوئی ہیں، وہ نانگا
پربت ہی ہے.... اسی قاتل پہاڑ کے دامن میں ایک بار پھر گیارہ قیمتی جانیں
تلف ہوئی ہیں لیکن اس بارقاتل پہاڑ نہیں، وہ انسان نما درندے ہیں ، جو چند
سکوں کی خاطر انسانی خون کی ہولی کھیلتے ہیں....!!
|