اداروں کا حُسن پڑھے لکھے، باصلاحیت اور تجربہ کار افراد
سے ہوتا ہے۔ بھلے وقتوں کی بات ہے کہ مختار مسعود تہران میں قائم پاکستان
ایمبیسی میں اپنے فرائض منصبی انجام دیا کرتے تھے۔ موصوف کے والد ِ گرامی
علی گڑھ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد تھے اور موصوف خود بھی علی گڑھ
یونیورسٹی کے ہی تعلیم یافتہ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہیں کئی اہم
سرکاری عہدوں پر تعینات ہونے کا موقع ملا اور ملت پاکستان کی خدمت کے سلسلے
میں انہیں کئی ممالک میں اپنے فرائض انجام دینے کا موقع ملا۔ انہوں نے
سرکاری اداروں کے اندر صرف وقت نہیں گزارا بلکہ اپنی تعلیم و تجربے کو ملت
کی خدمت کے لئے صرف کیا اور اپنے مشاہدات و تجربات کو تاریخ، ادب اور فن کے
سانچے میں ڈھال کر لوحِ ایّام، آوازِ دوست اور سفرِ نصیب کے نام سے تین
کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی ہر کتاب علمی و فنّی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اور
علم و ادب کا خزانہ شمار ہوتی ہے۔
لوحِ ایّام میں انہوں نے ایران میں اپنے قیام کے دوران مختلف تجربات و
مشاہدات اور انقلاب اسلامی کی آمد کے اپنی آنکھوں دیکھے واقعات کو جس دلکشی
اور ہنر سے بیان کیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح سفرِ نصیب میں
انہوں نے حالات و واقعات کی جو منظرنگاری کی ہے اور منظر نگاری کے دوران جو
پیغامات دئیے ہیں وہ ہمارا ملّی سرمایہ ہیں۔ آوازِ دوست کے بارے میں ماہرین
کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں جس طرح ادب، فلسفے اور تاریخ کو ایک دوسرے کے
ساتھ پیوست کرکے پیش کیا گیا ہے، اس سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ، ”آواز
دوست“ کے مضامین ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہیں۔ صاحبانِ اردو زبان اور خصوصاً
اہلیان پاکستان کی آئندہ نسلیں ان سفر ناموں کی روشنی میں اپنے ماضی، حال
اور مستقبل کا خاکہ شفاف انداز میں دیکھ سکتی ہیں۔
وہ صرف لکھتے نہیں تھے بلکہ اپنے معاشرتی تجربے کو فکر کی سانچ پر پرکھ کر
الفاظ کے موتیوں میں پرو دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ان کی کتاب سفرِ نصیب سے
ان کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں: "غلامی کی بے شمار قسمیں اور طرح طرح کی
شکلیں ہوا کرتی ہیں، گمراہی غلامی کی بدترین صورت ہے، اگر آزاد ہونے کے بعد
بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے تو اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو
یہ صورت غلامی سے بدرجہا بدتر ہوتی ہے۔" اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں
کہ "زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرّجال کا غم کھاتے
ہیں۔" مختار مسعود نے بھی قحط الرّجال کا بہت غم کھایا اور شاید یہی وجہ ہے
کہ آوازِ دوست کا طویل ترین مضمون قحط الرّجال ہی ہے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے ایک جگہ پر مختار مسعود کے قحط الرّجال کے احساس
پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "1971.72ء تک پہنچتے پہنچتے پاکستان میں بڑے
آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔ بڑے آدمی سبھی 1947ء سے پہلے بن چکے تھے, اس کے
بعد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔" اسی طرح پاکستان کی بیوروکریسی کی
تاریخ میں آب کوثر، رود کوثر اور موج کوثر کے مصنف شیخ محمد اکرم جیسے
صاحبانِ علم و دانش کا ایک بڑا نام اور مقام ہے۔ جیسے جیسے ہم قیام ِ
پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں, ہمارے ہاں تمام شعبوں میں خصوصاً
بیوروکریسی کے شعبے میں "قحط الرّجال" کا احساس شدت سے زور پکڑتا جاتا ہے۔
میں ایک طالب علم ہوں اور اس زمانے کی پیداوار ہوں کہ جب سے پاکستان میں
بڑے آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔ میں نے بڑے آدمیوں کو زیادہ تر کتابوں میں ہی
پایا ہے۔ مجھے بچپن سے ہی مختار مسعود اور شیخ محمد اکرم جیسے لکھاریوں سے
قلبی لگاو رہا ہے اور اب جب کسی سرکاری ادارے میں قدم رکھتا ہوں اور اس کے
اہلکاروں کو دیکھتا ہوں تو ایک خواب میں چلا جاتا ہوں اور ایک عجیب احساس
کے ساتھ سوچتا ہوں کہ صرف چند سال پہلے تک ان اداروں میں کیسے کیسے علم
دوست اور انسانیت پرور لوگ ملت پاکستان کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ
رہتے تھے۔ وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا جب سرکاری دفاتر کے اہلکاروں کو یقین
ہوتا تھا کہ انہیں ملت کی خدمت کے عوض تنخواہیں دی جاتی ہیں، جب سرکاری
آفیسرز اپنے آپ کو ملت کا خادم سمجھتے تھے اور جب ملت کی سہولت اور آسائش
کو مدّنظر رکھر قانون بنائے جاتے تھے۔
مجھے چند دن پہلے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی میں ایک صاحب سے ملنے کا
اتفاق ہوا، جنہیں پیاس اور گرمی نے ستا رکھا تھا اور انہیں چودہ دن کے بعد
یہ اطلاع دی گئی تھی کہ آپ کے فارم ناقص ہیں، لہذا دوبارہ تشریف لائیں۔ وہ
صاحب کہنے لگے کہ وہ اس زمانے میں بھی اس ایمبیسی آئے تھے جب یہاں کا عملہ
بااخلاق، چوکس اور اپنے کام کاماہر ہوتا تھا، لیکن اب گذشتہ چند سالوں سے
ہر روز لوگوں کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ خصوصاً جو لوگ پہلی مرتبہ ایمبیسی آتے
ہیں انہیں پورا دن ایمبیسی میں بٹھا کر ٹائمنگ پوری کی جاتی ہے اور پھر
فارم دے کر واپس بھیج دیا جاتا ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ چند
بار ایمبیسی کے چکر لگائیں۔ میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے، وہ بولے ایسا اس
لئے ہے کہ جب تعلیم و تجربے اور میرٹ کو نظر انداز کرکے لوگوں کو بھرتی کر
لیا جائے اور انہیں پبلک ڈیلنگ پر مامور کیا جائے تو وہ ایسا ہی کریں گے۔
اگر ایمبیسی میں پبلک ڈیلنگ کے لئے ایک تعلیم یافتہ اور تجربہ کار شخص کو
بٹھا دیا جائے تو پورے دن میں کیا سات آٹھ فارم یا زیادہ سے زیادہ دس فارم
پُر کرنا کوئی مشکل کام ہے۔
انہوں نے یہ کہا تو مجھے مختار مسعود کا یہ جملہ یاد آگیا کہ "غلامی کی بے
شمار قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں، گمراہی غلامی کی بدترین
صورت ہے، اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستے کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے
تو اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بدتر ہوتی ہے۔" ہم
غلامی کی بدترین صورت میں جی رہے ہیں۔ ہم اپنے ہی ملکی اور سرکاری اداروں
میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے سر پٹختے ہیں، چیختے اور چلاتے ہیں لیکن کہیں
ہماری شنوائی نہیں ہوتی۔ تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے اہلکار کیا
ادنٰی اور کیا اعلٰی سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہیں اور مخلوقِ خدا پر کیا
بیت رہی ہے، اس کا کسی کو احساس ہی نہیں، لوگوں کے فارم نامکمل ہونے کا
ڈرامہ تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ فارم کیوں پورا پورا دن نامکمل رہتے ہیں
اور تین تین چکر لگانے کے باوجود پُر نہیں ہوتے، اس بارے میں کوئی نہیں
پوچھتا۔ قحط الرّجال کے اس دور میں کیا پاکستان ایمبیسی میں ایک ذمہ دار
آفیسر بھی نہیں رہا جو اپنی ملت کو اس ذلت سے نجات دلائے اور نااہل کو اہل
اور بداخلاق کو خوش اخلاق کی جگہ سے ہٹائے۔ |