ملک میں انصاف کا حصول اور سیاسی لیڈروں کو قانون کے
کٹہرے میں کھڑا کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ عشرت جہاں فرضی تصادم کے
واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ سیاسی لیڈروں کو جہاں کہیں بھی اپنی گردن
پھنستی نظر آتی ہے فوراً وہ اس ایجنسی کی جس کی تعریف کرتے وہ کبھی تھکتے
نہیں تھے، برائی شروع کردیتے ہیں۔ اپنے پروگرام جلسے جلوس وغیرہ میں ہر وقت
انہیں اسی کا بھوت نظر آتا ہے۔ ایس آئی ٹی اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کا
نوجوان کوغلط طریقے سے پھنسائے جانے کا عدالت نے نوٹس لیا تو فوراً اپولیس
والوں کی مورل کی بات کرکے پولیس اور خفیہ ایجنسوں کی دفاع میں محاذ سنبھال
لیتے ہیں۔ اسی طرح کے واقعات ممبئی ، میرٹھ، بھاگلپور، ملیانہ، جمشید پور،
مراد آباد وغیرہ کے فسادات میں سامنے آئے ہیں جب انکوائری کمیشن نے ان
لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی سفارش کی تو نہ صرف فرقہ پرست عناصر،
سیاسی پارٹیاں حتی کہ حکومت ان لوگوں کے دفاع کھڑی ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہے
کہ ان فسادات میں آج تک کسی پولیس والوں کو سزا نہیں مل سکی ۔اس دہرے میعار
اور دہرے پیمانہ کو اس مثال کو سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں شورش کے
دوران سیکڑوں نہیں ہزاروں کشمیری خواتین کی فوجی، نیم فوجی اور ایجنسیوں
اور دیگر افراد نے آبروریزی کی ۔ لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی
گئی۔ کارروائی کی گئی تو وہ ایک مسلمان کے میجر عبدالرحمان کے خلاف۔ ان کا
کورٹ مارشل بھی ہوا ، نوکری بھی گئی اور سزا بھی ملی لیکن آبروریزی کی بڑی
واردات کو انجام دینے والے ترقی پاتے رہے اور جب بھی انسانی حقوق کی
تنظیموں نے ان کے خلاف آواز اٹھائی ’مورل ڈاؤن‘ کا حوالہ دیکر ہمیشہ ہمیش
کے لئے اس معاملے کو برف کی موٹی چادر میں لپیٹ دیاگیا۔ 23فروری 1991کو
راجپوتا رائفل کے جوانوں نے کونان پوشپورہ میں تلاشی مہم تقریباً سو سے
زائد خواتین جن میں ، غیرشادی شدہ، شادی شدہ حاملہ اور کم عمر کی لڑکیاں
شامل تھیں، کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی تھی اور یہ رات سے نو بجے دن تک
جاری رہا تھا جس میں اب تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ہندوستان میں انصاف کے معاملے میں یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ایک
مسلم کو سزا دینے میں اگر سو بے قصور مسلمان بھی تختہ دار پر چڑھ جائیں تو
کوئی ہرج نہیں لیکن کوئی مجرم مسلمان کسی حالت میں بچنا نہیں چاہئے بم
دھماکے کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوان اس کی زندہ مثال ہیں۔ اگر معاملہ
برعکس ہے تو ایک قصوروار کو بچانے کے لئے بیوروکریٹ، سیاست داں، میڈیا یہاں
تک کہ سادھو سنت بھی میدان کود جاتے ہیں اورکوششوں کی تمام حدوں کو پارکرتے
ہوئے مجرم کو صاف بچا لے جاتے ہیں۔ اگر اس بات میں کسی کو کوئی شبہ ہو تو
کرنل پروہت اور پرگیا سنگھ ٹھاکر کے بارے میں سیاست دانوں کے بیانات اور
افسر شاہ کے رجحانات کو دیکھ لیجئے ۔ کوئی بعید نہیں ایک دن کرنل پروہت اور
پرگیا سنگھ ٹھاکر کوبری کردئے جائیں۔ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر میں پکڑے گئے
افسران اور سیاست داں کو بچانے کیلئے ایک طبقہ پوری طرح میدان میں ہے اور
میڈیا من گھڑت کہانیاں بیان کرکے حسب سابق مودی کی وفادار ی کا حق نمک ادا
کر رہا ہے۔ گجرات قتل کے عام کے ہیرواور سوشل میڈیا میں پھیکو کے نام مشہور
نریندر مودی نے 27 جون کو ممبئی میں جس طرح سی بی آئی کو ہدف تنقید بنایا
کہ اس نے آئی بی کے افسر سے عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے میں پوچھ تاچھ
کی تھی۔ انہوں نے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ میرے ساتھ
نہیں گزرتا تو پتہ ہی نہیں چلتا حکومت سی بی آئی کا اتنا غلط استعمال کرتی
ہے‘‘ ۔ یو پی اے حکومت سرکاری اداروں کے اختیارات کو لیکر کھیل کھیل رہی ہے
اور آئی بی کے خلاف سی بی آئی کو کھڑا کر رہی ہے اور اس کا غلط استعمال
کرکے ملک کے ڈھانچے کو ختم کر رہی ہے۔ وہ یہ پوچھ رہی ہے کہ ان کے مخبر کون
ہیں ۔کچھ دن پہلے ہی سی بی آئی کو 'کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن' قرار
دیتے ہوئے نریندر مودی نے الزام لگایا تھا کہ جانچ ایجنسی اپنے سیاسی آقاؤں
کے کہنے پر گجرات کے افسران اور وزراء کے خلاف سازش رچ رہی ہے۔
عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے میں ایک نیا موڑ آ سامنے آیا ہے کہ گجرات
حکومت کو عشرت جہاں کے فرضی انکاؤنٹر کا علم تھا۔ سی بی آئی کے ذرائع کے
مطابق اس فرضی انکاؤنٹر کی معلومات گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی، ان کے
قریبی امت شاہ جیسے لوگوں کو تھی۔ ایک انگریزی نیوز ویب سائٹ میں شائع خبر
کے مطابق گجرات میں ممبئی کی کالج اسٹوڈنٹ عشرت جہاں اور 3 دیگر لوگوں کے
فرضی انکاؤنٹر کی معلومات گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی، ان کے قریبی امت
شاہ اور حکومت میں شامل کچھ ’ٹاپ لوگوں‘ کو تھی۔ 15 جون 2004 کو احمد آباد
کے مضافات میں ممبئی کی کالج اسٹوڈنٹ عشرت جہاں، جاوید شیخ، امجد علی رانا
اور ذیشان کو پولیس نے فرضی انکاؤنٹر میں مار گرایا تھا۔اس انکاؤنٹر کے بعد
گجرات پولیس نے دعوی کیا تھا کہ وہ تمام پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ
کے رکن تھے اور ان کا مقصد گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو قتل کرنا
تھا۔آئی بی کے ایک سینئر افسر اور امت شاہ (اس وقت گجرات کے داخلہ وزیر
مملکت تھے) کو اس سازش میں کلیدی ملزم بنایا گیا ہے۔سی بی آئی کے ایک سینئر
افسر نے دعوی کیا کہ اس معاملے میں حکومت میں شامل ’ٹاپ‘ لوگوں کو ساری
معلومات دی جا رہی تھی۔ سی بی آئی اس انکاؤنٹر کی تفتیش گجرات ہائی کورٹ کی
رہنما ہدایات میں کر رہی ہے۔ سی بی آئی کو اس معاملے میں 4 جولائی سے پہلے
چارج شیٹ داخل کرنا ہے۔ چارج شیٹ میں حکومت میں شامل کچھ ’ٹاپ لوگوں‘ کے
اوپر کچھ سنگین الزامات عائد کیے جا سکتے ہیں۔سی بی آئی افسر کے مطابق،
فرضی انکاؤنٹر کے الزام کو پختہ کرنے کے لئے ان کے پاس دستاویزی ثبوتوں کے
علاوہ کچھ الیکٹرانک اوڈیوز بھی ہیں۔ اسی کی بنیاد پر آئی بی کے اسپیشل
ڈائریکٹر راجندر کمار اور امت شاہ کو اہم سازشی بتایا جائے گا۔افسر کے
مطابق ثبوتوں سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ راجندر کمار اور امت شاہ نے عشرت جہاں
سمیت چاروں کو فرضی انکاؤنٹر میں مار گرانے کی سازش رچی تھی۔ راجندر کمار
نے نہ صرف فرضی الرٹ دئے، بلکہ پہلے ان لوگوں کو پکڑ کر گجرات پولیس کی
حراست میں دیا۔ یہی نہیں انہوں نے ان چاروں کو لشکر طیبہ کے دہشت گرد ثابت
کرنے لئے اے کے 47 رائفل بھی دستیاب کروائی تھی۔راجندر کمار 1979 بیچ کے
آئی پی ایس اورآئی بی کے مشہور افسر ہیں۔ سی بی آئی کے اس سینئر اہلکار نے
دعوی کیا کہ اس معاملے میں حکومت میں شامل بڑے لوگوں کو ساری معلومات دی جا
رہی تھی۔ اس سازش کو انجام دینے کیلئے 'سفید داڑھی' اور 'کالی داڑھی' کوڈ
ورڈ کا استعمال کیا گیا ہے۔تفتیشی ٹیم کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے ڈی آئی
جی ڈی جی بنجارہ کو آئی بی کے افسر راجندر کمار سے بات چیت کرتے سنا تھا جس
میں بنجارہ نے کہا تھا کہ دونوں داڑھی والوں نے عشرت اور دیگر تین افراد کے
قتل کی منصوبہ بندی کی منظوری دے دی ہے۔سی بی آئی کے مطابق سفید داڑھی کا
مطلب ہے مودی اور کالی داڑھی کا مطلب ہے امت شاہ ہیں۔
یہ معاملہ تقریباَ پانچ سال تک ٹھنڈ ے بستہ میں رہا۔ معاملے کی جانچ کر نے
والے میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ایس سی تمانگ نے پانچ سال بعد 7 ستمبر 2009 کو
چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے پاس ایک 243 صفحات کی رپورٹ فائل کر کے کہا کہ
یہ حراست میں موت کا معاملہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ گجرات پولیس
نے 12 جون کو عشرت کو تین ساتھیوں کو ممبئی سے اٹھایا اور 14 جون کو حراست
میں ان کا قتل کر دیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عشرت جہاں کا نہ تو
کسی دہشت گرد گروپ سے رشتہ تھا اور نہ ہی ان لوگوں سے نریندر مودی کو جان
کا خطرہ تھا۔ رپورٹ میں ایڈیشنل ڈی جی پی پی پانڈے، ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا
، اس وقت کے احمد آباد کے پولیس کمشنر کوشک سمیت تمام پولیس والوں کے نام
کا ذکر کیا گیاتھا۔اسے فرضی تصادم تسلیم کرتے ہوئے سماعت کے حکم دے دیا
گیا۔ 9 ستمبر 2009 کو گجرات ہائی کورٹ نے اس رپورٹ پر اسٹے لگا دیا اور کہا
کہ گجرات کے سینئر پولیس افسران کی ایس آئی ٹی معاملے کی جانچ کرے۔ایس آئی
ٹی نے اپنی رپورٹ میں مجسٹریٹ تمانگ کی رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے
مسترد کر دیا۔ اس دوران عشرت جہاں کی ماں شمیمہ بانو کی درخواست پر سماعت
کرتے ہوئے ہائیکورٹ نے ایک اور ایس آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا، جس میں
گجرات کے باہر کا ایک سینئر پولیس افسر کے علاوہ درخواست گزار کے پسندیدہ
افسران کو شامل کرنے کا حکم دیا۔ عجیب بات یہ کہ یہ ایس آئی ٹی میں شامل
تقریبا تین سینئر پولیس افسران جانچ درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے، کیونکہ
معاملہ کافی پیچیدہ تھا اور ساتھ ہی ایس آئی ٹی کے ایک رکن آئی جی ستیش
ورما کے کام کرنے کے طریقوں سے باہمی اختلافات بھی ہوتے رہتے تھے۔ایس آئی
ٹی نے 21 نومبر، 2011 کو اپنی رپورٹ ہائی کورٹ میں پیش کی جس میں کہا گیا
کہ عشرت اوراس کے ساتھیوں فرضی مڈبھیڑ میں مارا گیا۔ تاہم ایس آئی ٹی کی
رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ مارے گئے لوگ دہشت گرد تھے یا پھر
نہیں۔چونکہ معاملہ کئی ریاستوں سے منسلک تھا، اس لئے ہائی کورٹ نے معاملے
کی جانچ جنوری، 2012 میں سی بی آئی کے حوالے کر دی۔
عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کی جانچ کے ضمن میں سی بی آئی اور وزارت داخلہ کے
درمیان اختلاف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔وزارت داخلہ کسی بھی حال میں انٹیلی جنس
بیورو (آئی بی) کے اسپیشل ڈائریکٹر راجندر کمار کو ملزم بنائے جانے کے حق
میں نہیں ہے۔وزارت کے اہلکار کے مطابق راجندر کمار پر اس معاملے میں مقدمہ
چلانے سے تشویش ناک صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ افسر دہشت گردوں کے خلاف
آپریشن چلانے سے بچیں گے اور انٹیلی جنس آفیسر ایسی معلومات ریاستوں کو
دینے سے گریز کرے گا۔ اس سے ملک کی اندرونی سلامتی کو بڑا خطرہ ہو سکتا ہے
۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سی بی آئی راجندر کمار کے خلاف مقدمہ چلانے کے
لئے وزارت داخلہ سے اجازت مانگتی تو یہ نہیں ملتی۔ افسر نے کہا کہ ہماری
اجازت کے بغیر اگر ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے تو وہ کورٹ کی پناہ لے
سکتے ہیں ایک دوسرے اخبار نے وزارت کے سینئر افسر کے حوالے سے کہا ہے کہ
وزارت راجندر کمار کی ہر ممکن مدد کرے گی اور آئی بی افسر کو زیادہ سے
زیادہ فرضی انکاؤنٹر کے بارے میں معلومات نہ دینے کا ملزم بنایا جا سکتا
ہے۔وزارت داخلہ کا رویہ ہمیشہ مسلم دشمن رہاہے۔ اس کی ساری کوشش مسلمانوں
کو مختلف معاملوں میں الجھانے کی رہتی ہے۔ وزارت داخلہ کا رویہ منصفانہ
ہوتا تو اتنی بڑی تعداد میں مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں
نہیں ہوتے۔ سشیل کمار شندے نے ہندو دہشت گردی کے بارے میں اعتراف کیا لیکن
جیسے ہی بی جے پی محاذنے کھولا وہ فوراً اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ وزارت
داخلہ یہ کوشش پہلی نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس طرح کی کوشش کر چکی ہے۔ 6
اگست 2009 میں اپنے پہلے حلف نامے میں وزارت داخلہ نے عشرت اور اس کے
ساتھیوں کو دہشت بتاتے ہوئے تصادم کی سی بی آئی جانچ کی مخالفت کی تھی،
لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم کے دباؤ میں دو ماہ کے اندر ہی حلف
نامہ تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے گجرات ہائی کورٹ کو سونپے گئے
اپنے دوسرے حلف نامے میں عشرت اور اس کے ساتھیوں کے دہشت گرد ہونے کے پختہ
ثبوت نہ ہونے کا دعوی کیا تھا۔ اسی کے بعد عدالت نے اس کی سی بی آئی جانچ
کا حکم دیا تھا۔سی بی آئی کی تفتیش سے مودی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہاہے۔
اس کیس میں گجرات کے دو آئی پی ایس افسر سرکاری گواہ بننے کو تیار ہو گئے
ہیں۔ اس سے سی بی آئی کا شکنجہ آئی بی کے سینئر افسر راجندر کمار پر اور
کسے گا اورسی بی آئی کی اسٹیٹس رپورٹ کے جو حصے سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق
عشرت جہاں تصادم نریندر مودی اور اس وقت کے وزیر داخلہ امت شاہ کی ہری
جھنڈی ملنے کے بعد انجام دی گئی تھی۔گواہ بننے والے ان افسران نے صادق جمال
تصادم میں بھی اہم معلومات دی تھی۔تفتیش میں یہ پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے کہ
صادق کو غلط طریقے سے گجرات اور مہاراشٹر پولیس نے حراست میں رکھا تھا اور
گجرات کے نرودا میں واقع گلیکسی سنیما کے پاس 13 فروری، 2003 کو قتل کردیا
تھا۔ صادق کو بھی گجرات پولیس نے لشکر کا ایجنٹ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ مودی
کو مارنے کے مشن پر تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ سی بی نے پہلی بار آئی بی کے مسلم مخالف چہرے سے پردہ
اٹھایا ہے۔اس سے پہلے بھی اس مسلم مخالف کرتوت کو اجاگر کیاگیاہے۔ 2007 میں
دہلی پولیس کی طرف سے گرفتار دو کشمیری نوجوانوں نے الزام لگایاتھا کہ
انہیں آئی بی کے حکم کی تعمیل نہ کرنے کی وجہ سے دہشت گردی کے الزام میں
پھنسایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ارشاد علی نے منموہن سنگھ کو خط لکھا تھا کہ
آئی بی کے لوگ مسلم محلوں میں مولویوں کو بھیج کر نوجوانوں کو جہاد میں
شامل ہونے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، پھر انہی نوجوانوں کو پکڑ کر اپنا
مخبربنا لیتے ہیں اورپھر وہ جیسا چاہتے ہیں استعمال کر تے ہیں ۔ہائی کورٹ
کے حکم پر سی بی آئی اس معاملے کی جانچ کی تھی اور نوجوانوں کے الزام درست
پائے تھے۔ملک بھر میں پکڑے جانے والے مسلمان اسی عمل میں دہشت گرد بنائے
جاتے ہیں۔اس کے بعد سے وہ مسلسل ایس آئی ٹی کے مخبر کے طور پر استعمال کیے
گئے۔ اسی لئے آپ نے کبھی یہ نہیں جان پائیں گے کہ پارلیمنٹ حملے کے اصلی
مجرم کون تھے۔آزادی سے قبل آئی بی کا قیام 1885میں مجاہدین آزادی کی
سرگرمیوں پر رکھنے کیلئے عمل آیاتھا۔ آزادی کے بعد اس ایجنسی کا کام
مسلمانوں پر مختلف الزامات لگاکر تباہ و برباد کرنے تک محدود ہے۔ نریندر
مودی کے گرد پہلی بارعشرت جہاں فرضی تصادم کے معاملے میں گھیرا تنگ ہورہا
ہے۔ اگر اس معاملے میں نظام انصاف کا وقار برقرار رکھاگیا ہے توملک کی نیک
نامی کا سبب بنے گا ۔ویسے مجموعی طورپر تفتیشی ایجنسیوں کا جو رویہ رہاہے
وہ مسلمانوں کے حق میں ان کی نیت قطعی صاف نہیں ہوتی ۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ
عشرت جہاں کو واقعی انصاف ملے گا یا صرف یہ الیکشن اسٹنٹ بن کر رہ جائے گا
اور نریندر مودی اور امت شاہ صاف بچ کر نکل جائیں گے۔روش بتاتی ہے کہ ان
لوگوں کا بال بھی باکا نہیں ہوگا۔ |