انفرادی زندگی سے آگے بڑھ کر انسان کی اجتماعی زندگی پر
غور کیجئے تو اس میں بھی یہی نظر آئے گا کہ قوموں کی تگ و تاز اور جدوجہد
کےلئے سب سے زیادہ جذبہ محرکہ رزق کا سوال ہوتا ہے ۔رزق کی یہی اہمیت تھی
جس کے پیش نظر مارکس اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ" تاریخ انسانیت کی تعبیر ہی
معاشی نقطہ نگاہ ہے"۔حقیقت یہی ہے کہ آج تہذیب ، معاشرت ، سیاست ، قومی
مسائل اور بین الاقوامی معاملات سب کی باگ دوڑمعاشیات کے ہاتھ میں ہے اس
وقت دنیا عملا جن دو بلاکس میں بٹی ہوئی ہے ، کہنے کو تو خط امتیاز نظامِ
حکومت ہے۔۔۔یعنی ڈکٹٹر شپ اور جمہورےت ۔۔لیکن در حقیقت ان میں بنیادی
اختلاف نظام معیشت ہی کا ہے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ افراد ہوں یا اقوام ،
روٹی کے مسئلہ نے دونوں کی ناک میں نکیل ڈالی ہوئی ہے اور وہ انہیں جد ھر
جی چاہیے کشاں کشاں لئے پھر رہا ہے۔شائد یہ رزق کے حصول کےلئے غیر فطری
طریقہ ہی ہے جس نے قتل و غارت کی جنگ میں انسانوں کی جان لینے کا ٹھیکہ
ایسے افراد کو دے دیا گیا ہے جنھیں انسانیت یا اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں
ہے۔ صرف کراچی میںرواں سال کے ماہ جون میں پہلے ہفتے میں 43، دوسرے ہفتے
میں66،تیسرے ہفتے میں 82,اور چھوتھے ہفتے میں 63افراد کو فائرنگ،دہماکوں
میں 254افراد کو ہلاک کیا گیا ۔جبکہ چھ ماہ کے دوران ایک ہزار 455شہری دہشت
گردی کا نشانہ بنے۔چھ ماہ کے دوران جنوری میں240،فروری میں220، مارچ
میں286،اپریل میں217، مئی میں233اور جون میں254افراد کو ٹارگٹ کلنگ ، بم
حملوں اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری
عوام کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ، جبکہ کراچی میں دو صوبائی اسمبلی کے
ممبران جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا ان کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی اور
عدلیہ کے جسٹس مقبول باقر کو بم دہماکے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی ۔الیکشن
کے دنوں میں جس طرح بم دہماکے ہو رہے تھے اس سے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ
کراچی شہر میں حکومتی رٹ بھی قائم ہے ۔عام انتخابات کے دوران 23اپریل کو
ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر پیپلز چورنگی جبکہ26اپریل کو اورنگی ٹاﺅن قائد
عوام کالونی میں اے این پی کی کارنر میٹنگ کے قریب بم دہماکہ کیا گیا۔
27اپریل کو پی پی پی کی لیاری کے علاقےکمہارواڑہ میں موٹر سائیکل میں نصب
بم سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔جبکہ گیارہ مئی انتخابات کے دن قائد آباد
لانڈھی ،قصبہ اسلامیہ کالونی میں کوسٹر اور اس سے کچھ دن قبل ایم کیو ایم
کے دو دفاتر واقع قصبہ کالونی اور بزنس روڈ پر بھی بم دہماکے کئے گئے۔جبکہ
کراچی میں قانون نافذ کرنے والوں کا یہ حال ہے کہ کراچی کی جیل میں بڑے
پیمانے پر ماہ جون میں سرچ آپریشن کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں500موبائل
فون ، بیٹریاں ، چارجز اور منشیات اور دیگر ممنوعہ اشیاءبر آمد کی گئیں
لیکن جب جسٹس مقبول باقر پر حملے کے بعد رینجرز نے دوبارہ آپریشن کیا جو
9گھنٹے تک جاری رہا اور جیل انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے آپریشن کے
محض دس دن بعد جیل کے نادر دوبارہ6موبائل فون اور دیگر ممنوعہ اشیا کا پائے
جانا ثابت کرتا ہے کہ اصل خرابی خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر
بھی موجود ہے ، کیونکہ جیل جیسی بند جگہ میں کسی بھی غیر قانونی اشیا ءیا
موبائل فون کا پہنچنا ، سیکورٹی پرماموراہلکاروں کے بغیر ناممکن ہے۔ لیکن
اس کے باوجود حکومتی سطح پر جیل انتظامیہ سے نہ کوئی باز پرس کی گئی اور نہ
ہی جیل عملے کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کاروائی عمل میں لائی گئی ، جو خود
حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ جب رینجرز نے جیل پر نو گھنٹے سرچ
آپریشن کیا تو یہ جواز دیا گیا کہ جسٹس باقرحملے کی پلاننگ جیل کے اندر
بنائی گئی تھی جس میں کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد ملوث ہوسکتے ہیں۔لیکن
اس کے باوجود وزارت جیل خانہ جات اور وزیر اعلی سندھ نے اس پر کوئی ایکشن
نہیں لیا کہ جیل کے اندر یہ تمام مواد کرپٹ اہلکار کیونکر پہنچا رہے
ہیں۔انتظامیہ کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے بجائے سترہ قیدیوں کو سکھر جیل
منتقل کرکے کرپٹ انتظامیہ بری الزمہ ہوگئی کہ انھوں نے کوئی اہم کارنامہ
انجام دے دیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی یہ دیکھنا چاہیے جیل کے اندر
بھاری تعداد میں موبائل کا برآمد ہونا اور پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات سے
اہلکاروں کی جانب سے رشوت وصولی ، کس قدر خطرناک رجحان ہے ، جو کراچی سمیت
پورے میں امن کے قیام کے لئے ایک اہم مسئلہ کی نشاندہی پر چشم پوشی ہے۔ہم
جرائم ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری سمیت دیگر اہم امور پر کراچی کو زیر بحث
اسلئے لاتے ہیں کیونکہ کراچی کو میڈیا کافی ہائی لائٹ کرتا ہے۔ کمال کی بات
یہ ہے کہ گذشتہ دنوں دو دوستوں کے درمیان ایک لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی میں
چھیڑ خانی پر دورسے دوست نے نشے کی حالت میں قتل کردیا ، تو اس پر بھی سوشل
میڈیا سے وابستہ اور برگر کلاس کے نوجوان شاہ زیب کیس کی طرح ، اس نوجوان
کی تصاویر اٹھا کر سی ویو پر شمعیں روشن کرتے نظر آئے اور میڈیا ان مظلوموں
کو انصاف کی فراہمی کےلئے کوریج دینے پر مجبور اس لئے ہے کیونکہ یہ ان کا
مرچ مصالحہ ہے۔ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد چیف جسٹس صاحب اس پر نوٹس لے لیں۔
لیکن اس بات کےلئے کون نوٹس لے گا کہ محض آٹھ ہزار روپے کے خاطر انسان جان
لینے والا درندہ ، جلد کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔گذشتہ دنوں ایک ایسے
مذہبی جنونی شخص کا اعترافی بیان منظر عام پر آیا جس نے پیسوں کے خاطر اپنے
ذاکرین کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا۔یقینی طور پر یہ سب کچھ ایک
ایسامعاملہ ہے جیسے صرف ِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ الیکڑونک میڈیا کے نزدیک ،
کتے کی جانب سے کاٹنے پر نہیں ، بلکہ کتے کو کاٹنے پر خبر بنتی ہے۔زیادہ تر
ٹارگٹ کلرز کے اعترافی بیانات میں دیکھا جائے تو یہی ایک بات مشترکہ نظر
آتی ہے کہ معاشی مجبوریوں اورضروریات کو پورا کرنے کےلئے اُیسے ایسے عمل
کرنے پڑے جس کی وجہ سے کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں امن کا قیام محض
ایک خواب ہیہے۔بے روزگاری ، خاندانی ضروریات ، ازدوجی مجبوریوں اور
پسماندگیوں نے زیادہ تر ٹارگٹ کلرز کو محض روٹی کی فراہمی کے وعدے پر
انسانیت کا جرم عظیم کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔حکومت اپنی ذمے داری اور
اقربا پروری کے علاوہ رشوت خوری اور سیاسی وابستگیوں کی بناءپر روزگار کی
بندر بانٹ کرتی نظر آتی ہے اور میرٹ کے نام پر حقداروں کا حق چھین کر انھیں
دے دیا جاتا ہے جو اُس کے حقدار نہیں ہوتے ۔اس لئے جرائم کے خاتمے میں
حکومت کے مایوس کن کردار کی وجہ سے المناک خرابیوں کو جنم دیا ہوا ہے ۔
ریاست اپنا فرض کماحقہ سر انجام نہیں دیتی اور معاشی بد حالی کے شکار
نوجوان غلط سمت میں مجبور کر غلط و ہولناک قدم اٹھانے کے بعد پلٹ کر نہیں
دیکھتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ" میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا نہیں ہوں"۔
|