کشمیر کی تاریخ میں فاتح حکمرانوں کی درندگی اور کشمیریوں
پر ظلم و ستم ڈھائے جانے کی بیشمار مثالوں کے ساتھ کچھ اچھے حکمرانوں کی
عوام دوست پالیسیوں اور عوامی مفاد کی کاروائیوں کی بھی مثالیں موجود
ہیں۔مغلوں،افغانوں،سکھوں اور ڈوگروں کے علاوہ مقامی اور مسلمان حکمرانوں
میں چک خاندان کے آخری فرما نروا یوسف شاہ چک نے فرقہ واریت کا بوجھ سر پر
اٹھایا اور دیگر مسلمان فرقوں اور مسالک پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔یوسف شاہ
چک کے سفاکانہ رویے سے تنگ آکر اہلیان کشمیر نے مغل بادشاہ کو کشمیر کش کی
دعوت دی جسکے نتیجے میں حضرت زین العابدین بڈھ شاہ کی قائم کردہ مسلمان
حکمرانی کا دور ختم ہوگیا اور کشمیری نسل در نسل غلامی کے اندھیروں میں
دھکیل دیے گئے۔
مغلوں کے جبر کا دور ختم ہوا تو افغانوں کا ظلم در آیا۔مغل اور افغان عقیدے
کے لحاظ سے تو مسلمان تھے مگر کشمیریوں کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کرتے
تھے۔افغانوں کے بعد سکھ آئے اور مساجد کو اصطبلوں میں بدل دیا۔حیرت کی بات
یہ ہے کہ سکھوں نے جتنے گورنر کشمیر میں تعینات کیئے ان میں اکثریت
مسلمانوں کی تھی جو سکھ حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے کشمیریوں پر ستم کے تیر
برساتے۔سکھوں کے بعد ڈوگرہ راج قائم ہوا تو کشمیری مسلمانوں کی حالت بدستور
غلامانہ رہی۔ڈوگرے مقامی حکمران تھے جنھوں نے وقت کے لحاظ سے زرکثیر دیکر
کشمیر کا سودا کیا تھا۔ڈوگروں نے کشمیر کی حکمرانی خریدنے کیلئے ایمن آباد
گوجر انوالہ کے ہندو ساہو کاروں نے لاکھوں روپے قرض لیا جسے چکانے کیلئے
کشمیری عوام پر بھاری ٹیکس لگائے۔ٹیکسوں کی بھر مار اور جبری مشقت کی وجہ
سے ڈوگروں کو ہمیشہ ہی اپنے عوام کی طرف سے بغاوت کا خطرہ رہتا جسے کچلنے
کیلئے انھوں نے پولیس،فوج اور مقامی جاگیرداروں کو وسیع اختیار دیے رکھے
تھے۔جبر و ظلم کے اس دور میں بھی سکھوں اور ڈوگروں کے ادوار میں عدل و
انصاف اور رعایا پروری کی کچھ مثالیں ملتی ہیں جس سے انسانی ضمیر کے زندہ
ہونے کا احساس ہوتا ہے۔بد قسمتی ،بے حسی اور درندگی کا موازنہ کیا جائے تو
1947ءکے بعد نام نہاد آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر میں جمہوری لبادہ
اوڑھنے والے انسان نما درندوں اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کے سفاک ایجنٹوں
نے جسطرح اپنی ہی ماﺅں اور بیٹیوں کی عزتیں لوٹیں اور برادری ازم کو مذہب
سمجھ کر اس کی آڑ میں اپنے مخالفین پر ستم ڈھائے اسکی مال جبر کے کسی بھی
دور میں نہیں ملتی۔آزاد کشمیر میں جتنے قتل،اغوائ،ڈکیتیوں اور زنا کے کیس
سامنے آئے اس میں سیاستدان،پولیس،پٹواری اور سیاستدانوں کی برادریوں کے
غنڈے جنھیں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے ملوث پائے
ہیں۔آزاد کشمیر میں سیاست ایک منافع بخش کاروبار ہے جس پر چند پاﺅنڈ اور
ڈالرمافیا کی بھی مکمل گرفت ہے جو ایک کے بدلے میں دس پاﺅنڈ کماتے ہیں۔اس
گروپ میں منشیات فروش،لینڈ مافیا اور انسانی سمگلر شامل ہیں جنکا کاروبار
بین الاقوامی حیثیت کا حامل ہے۔آزاد کشمیر کے وزیر مشیر اور حکمران اپنے
بیرونی دوروں کے دوران اپنے وفود میں بھاری رقوم لیکر لوگوں کو شامل کرتے
ہیں جو ان دوروں سے کبھی واپس نہیں آئے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام آباد
میں مقیم برطانوی ہائی کمشنر نے برملا اسکا اظہار بھی کیا کہ آزاد کشمیر کی
اہم سیاسی اور سرکاری شخصیات انسانی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہیں۔آزاد
کشمیر کے ایک بڑے سیاسی لیڈر جو کہ اخلاقی لحاظ سے انتہائی پست ہیں کا بیٹا
برطانیہ میں منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث ہو کر جیل کاٹ چکا ہے جبکہ
خاندان کے دیگر نونہال بھی اس پیشے سے منسلک کروڑوں کما رہے ہیں۔موصوف خود
بھی اسی دھندے سے منسلک رہے اور سیاست کی آڑ میں دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی
بن گئے۔آزاد کشمیر کے سیاستدانوں میں دولت مند ترین ہونے کا اعزاز تو آپ نے
حاصل کر ہی لیا ہے مگراب آنیوالے دور میں وزارت عظمٰی بھی آپ کی منتظر ہے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
جس قوم کی قیادت بد کردار،بد اعمال اور عزت و عقیدت سے عاری اوباشوں کے
ہاتھ ہو اسے آزادی تو کیا غلامی بھی نصیب نہیں ہوتی بلکہ ایسی قوموں پر خدا
کا عذاب نازل ہوتا ہے جو زلزلے کی صورت میں ایک بار وارننگ دے چکا
ہے۔انسانی سمگلنگ میں ملوث دارلحکومت کا داروغہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو
کرپٹ حکمرانوں کا سارا ٹولہ اسکی حمایت میں صف آرا ہوگیا چونکہ اس سے پہلے
وہ اپنے ہر دورے میں ہر کرپٹ سیاستدان اور اعلیٰ افسر کا بندہ سمندر پار
پہنچا کر اعلیٰ ایوانوں سے اشیر باد حاصل کرتا رہا تھا کڑوروں روپے اور
لاکھوں پاﺅنڈ لگا کر ان سیاستدانوں نے داروغہ شہر کو جیل سے تو رہا کرا دیا
مگر قدرت کے انتقام سے نہ بچا سکے کشمیر کی تاریخ بہادر اور با جرات
حکمرانوں اعلیٰ کردار کے حامل قاضیوں اور منصب داروں کے کارناموں سے مزین
ہیں جبکہ ایسے تاریخ کے اوراک پر ایسے وزرائے اعظموں کا ذکر بھی ہے جو نہ
تو اپنی سیاہ کاریوں پر شرمندہ ہیں اور نہ ہی ان کی سیاسی جماعتیں،برادریاں
اور آزاد کشمیر کی شرعی عدالتیں ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی پوزیشن میں
ہیں عدالتوں کے جج اور قاضی یہ لوگ خود تعینات کرتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں
انکی ذاتی اور خاندانی ٹریڈ کمپنیاں ہیں یہ کرپٹ اور عیاش سیاسی ٹولہ اپنی
اپنی برادریوں کی ضرورت ہے اور برادریوں کا تعصب ان لیڈروں کے دم و قدم سے
قائم ہے ایک ہلڑ باز،عیاش اور مار دھاڑ کا ماہر سیاستدان آزاد کشمیر کے ہر
حلقے اور برادری کی ضرورت ہے۔ شرافت کی سیاست اورا صولوں کی پاسداری کرنے
والے کا آزاد کشمیر کی سماجی زندگی میں مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایسے سیاست
دان کو مجاور،اللہ لوک اور ڈرپوک جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے آزاد کشمیر
کی سیاست میں بد کرداری،بد اعمالی،انگلینڈ کے کلبوں میں جاکر ہلڑ بازی کرنے
والوں کی زیادہ اہمیت ہے جھوٹ،فراڈ اور دھوکہ دہی آزاد کشمیر کی سیاست کی
اہم کوالیفکیشن ہے جو لیڈر پٹواریوں،تھانیداروں اور تحصیل داروں سے لیکر
سیکرٹریوں کو گالیاں دے،تھپڑ لگائے،قانون شکنی کرے،اسلام آباد میں اپنی
وسیع اور محل نما کوٹھیوں میں شراب و شباب کی محفلیں سجائے اور اپنے حلقے
میں دہشت اور بربریت پھیلائے وہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لئے
موزوں امیدوار ہے پھر ایسا درندہ صفت امیدوار دولت،دھونس اور اپنے پاکستانی
پروموٹروں کی مدد سے الیکشن جیت کر ممبر اسمبلی،وزیر یا مشیر بن جاتا ہے تو
ان کی درندگی کود کر سامنے آجاتی ہے اور اپنے ہی وطن کی بہو، بیٹیوں کی
عزتیں لوٹنے،ان پر جسنی تشدد کرنے ،انھیں برہنا کرکے سڑکوں اور چوراہوں پر
پھینکنے سے نہیں ڈرتا اور پولیس ایسے درندوں کی درندگی کے نشان مٹا دیتی ہے
اور صدر ریاست اور وزیر اعظم اپنے وزیروں اور اسمبلی ممبروں کی درندگی پر
پردہ ڈالنا فرض اولین سمجھتے ہیں کسی زرداری،نواز شریف،اسفند یار ولی،الطاف
حسین،سردار قیوم،منور حسن،عمران خان،عاصمہ جہانگیر ،انصار برنی اور مولانا
فضل الرحمٰن کی اس طرف نظر نہیں جاتی اور نہ ہی ٹی وی شوز میں درس دینے
والے نام نہاد استادوں کو کچھ سنائی دیا،چونکہ عزتیں لوٹنیں والوں کا تعلق
آزاد کشمیر سے ہے اور کشمیر پاکستان کی شاہرگ ہے۔ آزاد کشمیر کی انتظامیہ
اور مقننہ باہم اتفاق سے معاملات دبا دیتی ہے اور مظلوم لڑکی کو پریس کے
سامنے لاکر بیان دلوا کر گلو خلاصی کرواتی ہے۔ مزید بدنامی،جان سے مار دینے
کی دھمکی اور پیسے کا لالچ شرعی عدالت کے ذریعے زنا بالرضا ثابت کرکے عمر
قید کی سزا جیسے ہتھکنڈوں کے سامنے ایک نہتی بے بس غریب اور بے سہارا لڑکی
کیا کرسکتی ہے؟ وہ یہی کرسکتی ہے کہ پریس کے سامنے بیان دے کر گوشہ گمنامی
سے جاسکتی ہے تاکہ درندوں کا کام جاری رہے۔ درندگی پھیلتی
رہے،ہوٹلوں،ہاسٹلوں،گیسٹ ہائسوں،ریسٹ ہاﺅسوں سمیت کشمیر ہاﺅس کی رونقیں
بحال رہیں،عزتیں لٹتی رہیں،عصمتیں بکتی رہیں،نوکریوں کے جھانسے میں کشمیرکی
بیٹیاں سسکتی رہیں،شراب کی محفلیں چلتی رہیں،جھنڈوں والی گاڑیوں پر دلال بد
مست گھومتے اور عزت داروں کے گھروں میں نقب لگاتے رہیں اور اہل پاکستان اس
کا تماشا دیکھتے رہیں۔
افسوس سد افسوس کہ آزادی و حرمت کا نعرہ لگانے والوں نے ایوان اقتدار کو
بالا خانوں میں بدل دیااور آزادی کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں نے درندروں
کا روپ دھار لیا آج کشمیر کی بیٹیوں کی عصمتیں لوٹنے والے بھارتی درندے ہی
نہیں بلکہ پاکستانی اشرافیہ کی آنکھوں کے تارے اور سیاسی جماعتوں کے جیالے
بھی برابر کے شریک ہیں مقبوضہ کشمیر کا گورنر اور وزیر اعلیٰ کبھی کبھی اس
درندگی پر تلملا اٹھتے ہیں اور ان میں اتنی جرات ہے کہ وہ کم از کم بھارتی
فوجیوں کی درندگی پر بیان تو دیتے ہیں آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم میں
اتنی بھی اخلاقی جرات اور غیرت ایمانی نہیں کہ وہ اپنے وزیروں کو وزارت سے
ہٹا سکیں اپنے عزیزوں کو لگام دے سکیں اور سرکاری افسروں کو سزادے سکیں
آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ صرف کورٹ آف اپیل ہے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان
از خود نوٹس نہیں لے سکتے اس لئے درندہ صفت حکمرانوں اور افسروں کو عدلیہ
سے کوئی ڈر نہیں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی
برانچیں ہیں دراصل قوت جناب زرداری،نواز شریف،شجاعت حسین اور الطاف حسین کے
پاس ہے جنھیں آزاد کشمیر کی حکومت سے دلچسپی ہے عوام سے نہیں۔جیسا کہ عرض
کیا ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام برادریوں کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ان کی
عزت اور غیرت برادری کی حدود تک محدود ہے۔بقول میاں محمد بخشؒ کے غریب کی
کوئی برادری نہیں ہوتی۔غریب پیدا ہی امیر کی چاکری،غلامی اور سلامی کیلئے
ہوتا ہے۔
لِسے دا کی زور محمد نس جاناں یا رونا |