دہلی کے نئے ایل جی، نجیب جنگ

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر جناب نجیب جنگ کی دہلی کے ایل جی کے منصب پر تقرری یقینا دہلی والوں کے لئے بڑی خوش خبری ہے۔ ان کی تقرری سے نہ صرف جامعہ برادری کو فخر محسوس ہوا بلکہ علم دوست مسلم طبقہ میں بھی خوشی محسوس ہوئی ۔ وہ ایک لائق منتظم ، ماہرمنصوبہ ساز،سوشل سائنٹسٹ اور علم دوست دانشور ہیں۔ ان کی جیسی ہمہ جہتی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔لیکن ان کی اس تقرری کو اس نگاہ سے دیکھنا کہ وہ مسلم نمائندہ ہیں، درست نہیں۔ اس منصب پر ان کی نامزدگی ان کی لیاقت اور صلاحیت کی بدولت ہوئی ہے۔ البتہ اس تقرری سے اور اس سے قبل وزارت خارجہ کے ترجمان کے اہم منصب پر سید اکبرالدین اور آئی بی کے ڈائرکٹر کے منصب پر آصف ابراہیم کے تقرری سے یوپی اے سرکار یہ عندیہ ظاہر کرچکی ہے کہ کلیدی اورحساس پوسٹوں پرتقرری کے لئے مسلمانوں پر عدم اعتماد کی وہ پالیسی جو آزادی کے بعد سے چلی آرہی تھی ،اب بدلی جارہی ہے۔ جہاں تک مسلم نمائندگی کا سوال ہے تو مسلمانوں کے خود ساختہ اور بے ساختہ ’نمائندے‘ تو ہزاروں ہیں، خود اپنے قلم سے اپنے نام کے ساتھ مفکراسلام، ندائے ملت، فخر ملت اور نجانے کیا کیا القاب آداب لکھ کر اپنے فوٹو کے ساتھ اپنے بیان چھپوانے کے لئے اخباری نمائندوں کے گردمنڈلاتے رہتے ہیں ، مگر حال ان کا یہ ہے: ’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘۔
آزادی کے بعد بہت سے اہل مسلمان اعلا مناصب پر پہنچے ہیں۔ مگر نامزد ایل جی مسٹر نجیب جنگ کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی دانشوری کی لئے بڑھانے کے لئے، ان اقدار کو خیر باد نہیں کہا جو ان کو اپنے اجداد سے ورثہ میں ملی ہیں۔ انہوں نے اپنا قد بڑھانے کے لئے نہ تو دین بیزاری کا مظاہرہ کیا اور نہ مسلم جذبات کی پامالی کا سہارا لیا ۔ یہ بڑی بات ہے جو خال خال ہی ملتی ہے۔بلکہ بعض کام ایسے کئے ہیں جس سے ملّت کی تالیف قلب ہوئی ہے۔مثلا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی سرکاری منظوری کا معاملہ جو سابق میں الجھایا جاتا رہا تھا ، اور اردو کے فروغ کے لئے جامعہ کے اساسی چارٹر کے مطابق انڈر گریجوئیٹ کلاسوں میں اردو کی تعلیم کی بحالی ۔ اب تک صرف ایک سالہ کورس تھا اور اس کے نمبر ڈویزن میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کوئی سنجیدگی سے اردو نہیں پڑھتاتھا۔ اب دو سالہ کورس کردیا گیا ہے اور اس کے نمبر ڈویزن میںشمارکئے جانے لگے ہیں۔

چند ماہ بعددہلی کے اسمبلی الیکشن اور اگلے سال پارلیمانی الیکشن سے قبل قومی راجدھانی میں پہلے مسلم ایل جی کی تقرری سیاسی اعتبار سے اہم ہوسکتی ہے۔مگر ہمارے خیال سے یہ تقرری اس لئے زیادہ اہم ہے وہ اسی شہر کے پروردہ ہیں۔اس کے مسائل، اس کی معاشرت، اس کے باشندوں کے انداز فکر اور اس سے زیادہ اس کی تاریخ سے جس طرح وہ واقف ہیں، کم ہی لوگ واقف ہونگے۔ اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ ان کی صلاحتیں راجدھانی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں زیادہ بہتر رہنمائی کرسکیں گے۔
مسٹر نجیب جنگ بنیادی طور سے تاریخ داں ہیں۔ تاریخ داں کے سامنے معاشروں کی ترقی و تنزلی کا و وسیع کنویس ہوتا ہے جس سے اس کو سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کی تشخیص اور اس کے علاج کی موثرتدابیر تلاش کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ طالب علمی کے دور سے دہلی کے ایل جی کے منصب تک کا ان کا یہ سفر بڑا ہی دلچسپ اور رنگا رنگ ہے۔ ان کا خاندان صدیوں سے دہلی کے معززین میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے پردادا مولوی سمیع اللہ خان مرحوم(ولادت دہلی : 1834ئ)مولانا مملوک علی اور مفتی صدرالدین آزردہ کے ممتاز شاگردوں میں تھے۔ وہ کانپور میں منصف (1858) اور علیگڑھ میں سب جج (1872) مقرر ہوئے۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بانی صدر اور مدرستہ العلوم (جو بعد میں مسلم یونیورسٹی بنا) کی انتظامیہ کے اول سیکریٹری تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ دیگراہل ثروت معززین کے برعکس نہایت بیدار ذہن اور ملّت دوست شخصیت کے مالک تھے۔ سنہ۰۴۸۱ءمیں انہوں برطانیہ کا سفر کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب یوروپ میں علمی فتوحات کا غلغلہ تھا اور عالم اسلام انحطاط کی طرف مائل تھا۔طب ، سائنس اور دیگرعلوم معقولات میں مسلمان حکماءاور فضلا کی ابتدائی فتوحات سے استفادہ کرکے یوروپ بیدار ہورہا تھا اور مسلمان فقہی موشگافیوں اورمسلکی مباحثوں میں گم ہوکرزندگی کے اصل تقاضوں اور دین کے جوہر سے بے خبر ہورہے تھے۔ دہلی کی سلطنت کا شیرازہ بھی بکھرنا شروع ہوگیا تھا ۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ سفر برطانیہ اور بعض دیگر ممالک میں تعلیمی اور صنعتی ترقیات کے مطالعہ کے لئے کیا تھا اور بعد میں ایک سفر نامہ بھی تحریر کیا جس کو حال ہی میں پروفیسر اصغر عباس،(سابق صدر شعبہ اردو، اے ایم یوعلی گڑھ) نے ایڈٹ کرکے از سرنو جامعہ بک ڈپو سے شائع کرایا۔ ممتاز محقق علامہ نورالحسن راشد کاندھلوی نے مولانا سمیع اللہ کی سوانح عمری کی بھی نشاندہی کی ہے جو مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کی لائبریری میں موجود ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسی وقت یہ سمجھ لیا تھا کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے انحطاط کا سبب سائنس اور دیگر علوم معقولات سے وحشت اور منقولات تک محدودیت ہے۔چنانچہ وہ سرسید احمد خان کے تعلیمی مشن میں پیش پیش رہے۔

ان کے صاحبزادے حمیداللہ خاں جو بعد میں’افضل العلماءنواب سربلند جنگ بہادرحمیداللہ خاں‘کہلائے اور نظام حیدرآباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب تک پہنچے ، محمڈن انگلو اورینٹل کالج (جو بعد میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بنا) کے اولین طلباءمیں تھے۔انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے کنٹب کالج آف لاءسے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ان کے خطاب جنگ بہادر سے جنگ کا لاحقہ اب اس خاندان کے نام کا جزو بن گیا ہے۔

ان کے صاحبزادے حلیم جنگ دہلی کے بڑے صاحبِ ثروت تاجروں میں شمار ہوتے تھے ۔ اس خاندانی پس منظر کے باوجود نجیب جنگ کے مزاج میں سادگی اور انکساری ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ طلباءمیں بھی گھل مل جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کینٹین میں بیٹھ کر چائے پی لیتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ڈرامے کا کرداربن جاتے ہیں۔ وہ حاکمیت نہیں جتاتے۔بلکہ ایک مربی اور منتظم اعلا کی حیثیت سے طلباءکی رہنمائی کرتے ہیں اوران کو ڈسپلن میں بھی رکھتے ہیں۔ان کے اس چار سالہ دور میں جامعہ میںکوئی بھی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور تعلیمی دنیا میں جامعہ کا نام اونچا ہوا ہے۔

نجیب جنگ صاحب نے سینٹ اسٹیفن کالج سے تاریخ میں ایم اے کیا۔پھر لندن اسکول آف اکانومکس سے’ ترقی پذیر ممالک میں سوشل پالیسی وپلاننگ‘ موضوع سے ایم اے کیا۔انرجی پلاننگ میںمہارت حاصل کی ۔ انہوں نے اپنی سروس کا آغاز پولیس محکمہ سے کیا۔ سنہ1973 ءمیں آئی اے ایس افیسر بنے اور ۲۲ سال تک مدھیہ پردیش اور مرکز میں مختلف اہم مناصب پر فائز رہے۔ان میں دس سال کی وہ مدت بھی شامل ہے جب وہ ضلع مجسٹریٹ رے۔

مدھیہ پردیش میں تقرری کے فوراً بعد کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ وزیراعلا کا منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد ارجن سنگھ ضلع دتیا میں پیتم بارا پیٹھ مندر کا دورہ کرنے پہنچے۔نجیب جنگ نے ان کو اس کے تاریخی ، ثقافتی، روائتی اور مذہبی پہلوﺅں کے بارے میں اتنا کچھ بتایا کہ وہ حیرت میں پڑ گئے جس کا اظہار انہوں نے ڈی آئی جی انٹیلی جنس سے کیا جو اس وقت ان کے ساتھ تھے۔ ا ن کوریاست میں کئی کلیدی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور ان سب میں وہ سرخرو رہے۔ وہ مرکز میں جائنٹ سیکریٹری بھی رہے ۔ کئی سال تک ایشین ڈولپمنٹ بنک کے سینئر مشیر رہے۔ انہوں نے انرجی امور میں جو مہارت حاصل کی وہ تاریخ کے طالب علم کے لئے ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اس حیثیت سے انہوں نے ملک کی گرانقدر خدمات انجام دیں۔علاوہ ازیں وہ آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ آف انرجی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر وزٹنگ فیلو اور رسرچ اسکالر رہے۔وہ رزروبنک آف انڈیا کے سنٹرل بورڈ کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ سنہ 2009 سے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وی سی ہیں۔ان کا شمار یقینا کامیاب وی سی کی حیثیت کے کیا جائے گا۔

انہوں نے خود دلچسپی لیکر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کا معاملہ حل کرایا۔ بقول پروفیسر اخترالواسع انڈرگریجوئیٹ کلاسوںمیں اردو کے لازمی کورس کو دوسال کردینا اور اس کے نمبروں کو نتیجہ میں شامل کیا جانا، اردو کے فروغ لئے انتہائی اہم قدم ہے جس کا سہرا نجیب جنگ کے سر ہے۔ ان کے دور میں بہت سے نئے سائنسی کورسز بھی شروع ہوئے۔ جو نئے مطالعاتی مراکز سابق وی سی کے دور میں قائم ہوگئے تھے ان کی موجودہ اعلا نہج بھی ان کا ہی کارنامہ ہے۔پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی کا تاثر یہ ہے کہ ان کے دورمیںیونیورسٹی میں اکیڈمک سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور ان کا معیارر بلند ہوا۔اور یہ کہ اقلیتی درجہ رکھنے والی اس مرکزی یونیورسٹی کا علمی وقار ان کے دور میں یقینا دوبالا ہوا ہے۔

انہوں نے اپنے دور میں طلباءکی اخلاقی رہنمائی پر بھی توجہ دی۔غیر سنجیدہ طلباءکی لگام کسی اور پڑھنے والے بچوں کے لئے ماحول کو سازگار بنادیا۔ وہ مسلمانوں کی اعلاتعلیم میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور ان حصاروں پرکڑھتے ہیں جو مدرسہ تعلیمی نظام نے اپنے گردکھڑے کر لئے ہیں۔ یہ نظام اس دور میں یقینا موزوں تھا جب انگریز ملک پر قابض ہوئے اور دین و ایمان خطرے میں پڑگیا تھا۔ ملک کی آزادی کے بعد تقاضے بدلے ہیں۔ہندستان کے مسلمان اب نہ حاکم ہیں، نہ محکوم ہیں، بلکہ آئینی جمہورتی میں برابر کے شریک ہیں۔ برادران وطن کے برابر آنے کے لئے ان کوجدید علوم میں آگے آنا ہوگا جس میں وہ بعض تحفظات کی وجہ سے پچھڑ گئے ہیں۔ مگر ابھی مسلمانوں کا سواد اعظم وقت کے تقاضوں اور اس کی ضرورتوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکا ہے ۔ نجیب جنگ نے جب دارلعلوم دیوبند کو جدید علوم کی طرف متوجہ کرایا تو ان کی یہی فکر مندی بول رہی تھی۔

نجیب جنگ دراصل مختلف قسم کی مہارتوں اور تجربات سے مالامال ایک شخصیت کا نام ہے۔ امید ہے کہ منصوبہ سازی میں ان کی مہارت ، تاریخ کا گہرا شعور،سماجی طاقتوں کی فہم اور خود دہلی سے ان کی وابستگی ،قومی راجدھانی کے لئے نیک فال ثابت ہوگی۔ وہ خود ایک لائق فائق سول افسر رہے ہیں اس لئے امید ہے کہ افسر شاہی کی اڑنگے بازی ان کا راستہ نہیںروک سکے گی۔ ہم بہ نشاط قلب اس تقرری کاخیر مقدم کرتے ہیں۔جامعہ ملیہ کے پروفیسر اخترالواسع کو پدم شری اعزاز کے بعد مرکزی حکومت کا یہ دوسرا اہم اقدام ہے جس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ مگریہ اقدامات علامتی بن کر نہ رہ جائیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ان بنیادی اقدامات پر بھی توجہ دی جائے جن سے اقلیتی فرقہ خود کو اس عظیم ملک کا ایک ایسا حصہ سمجھنے لگے جس کے ایک پیر میں کانٹا چبھے تو تکلیف دوسرے پیر میں بھی محسوس ہو۔

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.