پاک، طالبان اور امریکہ مذاکرات کے حوالے سے اب
تک ، حکومتوں کے درمیان معاملات میں"سب ٹھیک ہے".کا پیغام نہیں سمجھا جا
سکتا ۔خاص طورپر نئی نویلی حکومت کےلئے ڈرون حملوں پر سخت بیانات میں
سنجیدگی کاکتنا عنصر شامل ہے ایسے وقت پر چھوڑا جائے تو یقینی طور پر ماضی
کی حکومتیں بھی اس طرح صرف سخت بیانات پر ہی اکتفا کرتی رہی ہیں۔گو کہ
امریکی قیادت اس بات کو سمجھتی ہے لیکن پاکستانی موقف کی اصابت کو تسلیم
کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔پاک ، افغان سرحد پر دونوں ممالک کی جانب سے خیر
سگالی کے پیغامات ،میںکرزئی حکومت کا حائل ہوجانا قابل غور ہے۔برطانوی وزیر
اعظم کا نیٹو افواج کے انخلا کے حوالے سے پاکستان کا دورہ بھی اس وقت
پاکستان سمیت دنیا بھر میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے لیکن امریکہ کی جانب سے
ڈرون حملوں کا نہ روکے جانا ، تمام تر امن کی کوششوں پر پانی پھیرنے کے
مترادف بن چکا ہے۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں افغانستان کے
حوالے سے پاکستان نے واضح پیغام دے دیا کہ پاکستان طالبان کومذاکرات کی میز
پر لانے کےلئے جتنی کوشش کرسکتا تھا اس میں وہ کامیاب رہا ہے۔ لہذا پاکستان
کو امریکی اتحادی بننے کے بعد جن مشکلات کا سامنا ہے ایسے امریکہ اور اُس
کے اتحادی ممالک حل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں بلکہ طالبان اور امریکہ کے
درمیان دوحہ میں مذاکراتی عمل میں بعض اصول اور تعریفیں متعین کرنے کے
بجائے افغانستان حکومت کی جانب سے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا ۔ وہ خود
باعث افسوس اور حیران کن ہے۔پاکستان کا طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ
نائن الیون کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں فرنٹ اتحادی
کی حیثیت سے اسے جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کےلئے اسے حساس
ٹیکنالوجی فراہم کی جائے ، اسی طرح افغان مسئلے اور طالبان مذاکرات کے بارے
میں پاکستان کی حیثیت اور کردار ایک ایسا معاملہ ہے جس کے تعین کے بغیر
گھتی سلجھانے کی کوششیں بے معنی ہیں۔امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامیو
ں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے بجائے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغانستان سے
باوقار انخلا سمیت کسی بھی معاملے میں پاکستان کے جغرافیائی محل و وقوع اور
تاریخی عوامل کے باعث اس کے کردار کی اہمیت سے صرف نظر ممکن نہیں۔
امریکہ کو اس حقیقت کا ادارک کرتے ہوئے پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں کردار کا معترف ہونا چاہیے اور پاکستان کے استحکام کے لئے عملی طور پر
مثبت اقدامات کو ترجیح دینی چاہیے۔پاکستان میں جمہورےت کے معاملے میں کسی
اس قسم کے سمجھوتے سے گریز کرنا چاہیے جس سے پاکستان میں امریکی مخالفت میں
روز بہ روز اضافہ ہوتا چلا جائے ۔ امریکہ صدر کو اس بات سے آگاہ ہونا نہاےت
ضروری ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مہم میں اپنی بے مثال قربانیوں ،
القاعدہ کو نقصان پہنچانے کے باعث اس کی جوابی کاروائیوں کا ہدف بننے اور
سیاسی ، سماجی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہونے کے بعد امریکی تعاون کی
ضرورت ہے کہ جس میں کم از کم ڈرون حملوں کے حوالوں سے پہل کرتے ہوئے اپنی
پالیسوں میں تبدیلی کا عندیہ دے۔امریکی مفادات کےلئے پاکستان کی جانب سے
مزید اقدامات کے مطالبات کے لئے برطانوی وزیر اعظم کا پاکستان کا دورہ
اہمیت کا حامل ہے ، لیکن اوبامہ انتظامیہ اور برطانوی حکمت کو سمجھنا ہوگا
کہ حساس ٹیکنالوجی اور جدید حربی آلات کی غیر موجودگی کے باعث پاکستان کو
مشکلات کا سامنا ہے۔شمالی علاقوں میں سرگرم جنگجو عناصر کے مالی و تیکنکی
وسائل ، افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کی سرگرمیوں کے بلوچستان
سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ملنے والے شواہد ، ممبئی حملوں کی آر میں
پاکستان کو نئی دہلی اور واشنگٹن سے ملنے والی دہلکیوں کے سبب پاکستانی
عوام کا اعتماد مجروح ہوا ہے اور عدم اعتماد کی فضا مزید گھمبیر ہوگئی
ہے۔اور یہ تاچر بے وزن نہیں کیونکہ پاکستان نے نامساعد حالات میں جتنی
قربانیاں دیں ، امریکی حکومت نے پاکستان کے اعتماد کو اُسی قدر ٹھیس
پہنچایا ہے۔امریکہ ، پاکستان میں اپنے بارے میں کوئی رائے تبدیل کرانا
چاہتا ہے تو ایسے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی درپردہ سازشوں
میں آلہ کار بننے سے گریز کی راہ اختیار کرنا ہوگی۔امریکہ اور برطانیہ اگر
یہ سمجھتے ہیں کہ جو پاکستان کا دشمن ، ان کا دشمن ہے تو پھر انھیں اسلام
آباد کے عسکری و حربی مسائل کے حل کےلئے مدد کرنا ہوگی۔پاکستان مصنوعات کو
اپنی منڈیوں تک کھلی رسائی اور پاکستان کے معاشی و توانائی بحران میں بلا
کست و کم مدد فراہم کرنا ہوگی۔ جس میں جائز ٹرانزٹ ڈیوز ، کاٹن ٹیکسٹائل
اور مینو فیکچرز اور کسی بھی امدادی پروگرام میں این جیو ز کو تقسیم کار
بنانے سے گریز کرے۔امریکہ کوبھارت کی آبی جارحیت کی روک تھام پر توجہ دینا
ہوگی اور پاکستان کے بڑے پراجیکٹ ، ڈیم کی تعمیر ، پاور اسٹیشن ، روڈز اور
پورٹ پر خصوصی توجہ کی ضرورت دینا ہوگی کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت بنتی جا رہی
ہے کہ اگر خطے میں پاک ، بھارت جنگ کا امکان ہوا تو اس کا محور آبی ذخائر
پر بھارتی قبضہ ہوگا۔پورے خطے کو ایٹمی فلیش پوئنٹ بنانے والے مسئلہ کشمیر
کے حل کے لئے دونوں ممالک کی حکو متیں اپنے عوام کی ناراضگی کے سبب کسی بھی
جرات مندانہ اقدام کرنے سے گریزاں رہے گی اس لئے عالمی طاقتوں کو اقوام
متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اتصواب رائے کے لئے اپنا کردار ادا ہوگا۔عالمی
امن ، امریکی و برطانوی مفادات اور خطے میں سوا ارب باشندوں کے معاشی
مفادات کو محفوظ بنانے کےلئے کیا امریکہ اور برطانیہ سنجیدگی سے توجہ دینے
کو تیار ہے ، شائد اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔پاکستان کو افغان ، امریکہ
جنگ کے بعد معاشی ایمرجنسی سے باہر نکلنے کے لئے مختصر اور طویل المعیاد
مدد کی ضرورت ہوگی۔جس میں سرکر قرض پر قابو پانے کےلئے ،لا ءاور آرڈر کی
صورتحال بہتر بنانے اور روزگار کی فراہمی کےلئے آئی ٹی سیکٹر اور زرعی شعبہ
جات میں امداد کے ساتھ دہشت گردی سے نپٹنے کےلئے خصوصی آلات کی فوری فراہمی
ہے۔پاکستان ، اپنے بیانات سے بڑھ کر امریکہ کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر ہے
کیونکہ اس کی معاشی و عسکری صلاحیت اس قدر مستحکم نہیں ہے کہ وہ اپنی خارجہ
پالیسوں کوپاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق ڈھال سکے ۔ اس لئے خطے میں
امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ایک بہت بڑا خلا پیدا ہونے کا
خدشہ ہے اور امریکی مہم جوئی کے بعد اس پورے خطے کا امن داﺅ پر لگ چکا ہے ،
جو امریکہ کے جانے کے بعد بھی جلد پُر نہیں ہوسکے گا اور خاص کر پاکستان
کےلئے تکلیف دہ حالات کا سامنا ، عوام کےلئے سوہان روح ہوگا۔پاکستان کی
حکومت ان مشکلات سے تن و تنہا باہر نہیں نکل سکتی اس کےلئے ایسے قومی اتفاق
رائے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس لئے بکھیرتی اور غیر منطقی صوبائی حکومتوں اور
سیاسی جماعتوں کےساتھ مشترکہ حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ |