قائد اعظم کی عیدی

’’اُوںں ۔۔۔۔۔ کُوووںں ۔۔۔ ۔چُھ۔۔ ۔چھُک۔۔ ۔چھُک۔۔۔ ۔۔۔۔چھکا چھک۔۔ ۔چھکا چھک ۔۔۔‘ ریل گاڑی رفتار پکڑچکی تھی۔یہ انبالہ سے آنے والی ساتویں ریل گاڑی تھی جو لُٹے پُٹے مہاجرین کو لے کر لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر آرہی تھی،اس گاڑی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں سوار مسافروں میں خواتین اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔مُسلم گھرانوں کے مَردوں کو سکھوں اور ہندؤں نے بڑی بے دردی سے شہید کردیا تھا اور اب اُن مسلمانوں کے لُٹے پُٹے گھرانے اپنی عزت و آبرو بچانے اس پاک سر زمین کی جانب آرہے تھے جس کے حصول کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے کمزور و ناتواں وجود کے باوجود دن و رات محنت کی تھی اور انگریزوں اور ہندؤں کے پنجوں سے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد سرزمین حاصل کرلی تھی۔۔۔۔۔۔

’’ چھکا چھک۔۔۔۔۔چُھکا چُھک۔۔۔۔۔چُھکا چُھک۔۔۔۔۔چُھکا چُھک۔۔۔۔۔۔۔‘‘ نذیراں بھاپ سے چلنے والے انجن کا شور سُن کر اپنے خیالات سے چونکی اور اپنی گود میں سوئے ہوئے سات سالہ معصوم رفیق حسن کو دیکھا جس کے معصوم چہرے پر ایک نئے آزاد وطن کو دیکھنے اور وہاں رہنے بسنے کی روشنی چمک رہی تھی۔اچانک نذیراں کو اپنا شوہر یاد آیا جسے ایک سِکھ نے برچھی مار کر شہید کردیا تھا اور وہ کلمہ پڑھتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرگیا تھا۔۔۔۔۔گرتے گرتے اُس نے اُکھڑتی ہوئی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے اپنی بیوی نذیراں سے کہا تھا کہ اب تُو رفیق پُتر کو باپ اور ماں دونوں کا پیار دے گی۔اتنا کہہ کر وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا ۔ایک یتیم بچے کا ساتھ اور دنیا کے مسائل۔۔۔۔۔ایک غریب بیوہ عورت۔۔۔مگر نذیراں نے ہمت نہ ہاری اور لُٹے پُٹے قافلوں کے ہمراہ در در کی خاک چھانتی ہوئی اب اس ریل گاڑی میں بیٹھی تھی۔

اٹاری قریب آئی تو اچانک ماں کی گود میں سر رکھے سویا ہوا رفیق ایک دم سے بیدار ہوگیا اور بیٹھتے ہوئے پوچھا: ’’ اماں ۔۔۔کیا پاکستان آگیا ہمارا؟‘‘

نذیراں بڑے دُکھی انداز سے مُسکرائی جیسے مُسکرانے سے اُس کے چہرے پر پر سخت تکلیف ہورہی ہو اور بولی: ’’ کیوں پُتر۔۔۔تجھے کیاپاکستان کی خوشبو آگئی ہے سوتے سوتے میں۔۔۔۔۔‘‘

معصوم رفیق ماں کی بات نہ سمجھا اور بولا’’ نہیں نہیں امّاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خواب میں ابّا اور وہ لمبی سی ٹوپی والے بابا ۔۔۔۔جن کی تصویر والا اخبار چاچا کرمو لایا تھا نا ہمارے گھر۔۔۔۔کیا نام ہے اُن کا ؟‘‘ رفیق سوچتے ہوئے بولا۔

اسے یاد نہ آیا تو نذیراں نے یاد دلایا ’’ قائد اعظم محمد علی جناح !!!‘‘

وہ چونکا’’ ہاں ہاں امّاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی۔قائد اعظم، میں ابّا اور قائد اعظم کو خواب میں دیکھ رہا تھا کہ ابّا قائدِ اعظم سے پیسے مانگ رہے ہیں کہ میں اپنے ر فیق کو دوں گا ۔۔۔وہ پاکستان جا رہا ہے!‘‘ رفیق نے پھولتی سانسوں کے درمیان اپنی بات پوری کی۔

’’ تو کیا قائدِ اعظم نے پیسے دیے تیرے ابّے کو؟‘‘نذیراں نے پوچھا۔اب ڈبّے میں موجود دیگر عورتیں اور بچّے بھی اس دلچسپ گفتگو کو سُننے پر مجبور ہوگئے۔

’’ نہیں نہیں امّاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قائدِ اعظم ابّا پر بہت خفا ہوئے کہ رفیق کو بھیک کیوں دلواتا ہے محمد توفیق۔۔۔۔میں نے پاکستان بھکاریوں کے لیے حاصل نہیں کیا۔یہاں کا بچہ بچہ محنت کرے گا،علم حاصل کرے گا اور پڑھ لکھ کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرے گا، او ر محمد توفیق میں تجھے پیسے کیسے دے سکتا ہوں ۔۔۔۔۔میرے پاس جو تھوڑے سے پیسے بچے ہیں وہ میں پاکستانی بچوں کو اُن کی پہلی عید پر عیدی کے طور پر دوں گا۔۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر رفیق خاموش ہوگیا اور ڈبّے میں موجود عورتیں اور بچّے رفیق کے خواب پر ہنسنے لگے۔

ٓؒ البتہ نذیراں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جانتی تھی کہ رفیق کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔اس نے ضرور یہی خواب دیکھا ہوگا۔

لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا منظر دیکھ کر ہر مسافر خوف سے لرز اُٹھا۔دُوردُور تک لاشیں ہی لاشیں تھیں۔۔۔مسلمانوں کی لاشیں۔۔۔۔۔۔اُن مسلمانوں کی لاشیں جنہوں نے اپنی پاک سرزمین پر قدم رکھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور ایک غلام ملک میں غلامی کی موت مرنا پسندنہیں کیا تھا-

دو دن نذیراں اور رفیق امدادی کیمپ میں رہے۔تین دن بعد عید الفطر یعنی میٹھی عید تھی۔پاکستانیوں کی پہلی عید۔

عید کے دن ایک افسر کیمپ میں آیا اور بڑے غصے سے عورتوں سے بولا: ’’ جس کے ساتھ جتنے بچّے ہیں وہ ان بچوں کا نام ، ولدیت (والد کانام )اور اپنا نام لکھوادے، قائد اعظم نے پاکستانی بچوں کو عیدی بھجوائی ہے!‘‘ اتنا سُنتے ہی سب کے سب بے پناہ خوش ہوئے۔رفیق چیخا ’’ دیکھا امّاں میں نے بتایا تھا نا کہ قائد اعظم نے ابّا کو اسی لیے پیسے نھیں دیے تھے!‘‘
افسر کے کان کھڑے ہوئے’’ کون سے پیسے؟‘‘
’’ بچہ ہے جی۔۔۔۔۔کیسی بات کرتے ہیں آپ بھی۔۔۔۔۔اتنی لاشوں کو دیکھ کر گھبرا گیا ہے جی !‘‘ ایک بوڑھے نے بات بنائی اور گھور کر رفیق کو دیکھا۔نذیراں نے الگ چُٹکی کاٹی۔
رفیق بلبلا کر خاموش ہوگیا۔

گھنٹہ بھر بعد ایک بڑے سے پتیلے میں دودھ سویّاں اور کچوریاں کیمپ میں لائی گئیں اور یوں پاکستانیوں نے اپنے اللہ کے حضور عید کی نماز پڑھ کر اپنی پہلی عید منائی۔اس دوران کاغذی کارروائی بھی پوری ہوچکی تھی اور فی بچہ پانچ رُپے عیدی بھی بانٹی جارہی تھی۔رفیق کو عیدی ملی تو وہ بہت ہنسا اور بولا: ’’ میں تو ان پیسوں سے خوب پڑھوں گا!‘‘ اچانک کسی نے ایک بھاری بھرکم ہاتھ اُس کے نازک سے وجود پر رکھ دیا اور ایک بھاری سی آواز سُنائی دی’’ بیٹاپاکستان کے تمام بچے ہی خوب پڑھیں گے اور ا س ملک کو ترقی دیں گے،ایمان داری سے کام کریں گے اور خوب خوب محنت کریں گے۔۔۔۔اپنا ہوم ورک پورا کریں گے اور ہر سبق کو دل لگا کر یاد کریں گے،ورنہ قائد اعظم کی عیدی پھر کسی کو نہ مل سکے گی!‘‘

اتنا کہہ کر ابّا خاموش ہوئے اور اپنے دونوں ہونہار پوتوں محمد حسن نوید اور سعد سُفیان کو دیکھا ۔دونوں دم بخود ابّا کی انوکھی کہانی سُن رہے تھے،اُن کے تو وہم و گُمان میں بھی نہ تھا کہ یہ اُن کے ابّا کی اپنی سچّی کہانی ہے۔ابّا کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے ۔حسن اور سعد افسردہ ہوگئے اور حسن میاں نے ماحول کی سنجیدگی سے گھبرا کر کہا:’’ ابّا۔۔۔ابّا۔۔۔قائدِ اعظم کیا اب دوسرے پاکستانی بچوں سے ناراض ہوگئے ہیں؟یہ تو رمضان کا مہینہ ہے نا ابّا اور عید بھی تھری فور (تین چار) دن کے بعد آجائے گی۔۔۔تو ۔۔۔۔تو ۔۔۔اب قائدِ اعظم پاکستانی بچوں کو عیدی کیوں نہیں دیتے؟‘‘

ابّا زور سے ہنسے’’ ٹھاٹھاٹھاٹھاہ ہ ہ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ارے بھئی قائد اعظم تو اب اللہ تعالٰی کے پاس چلے گئے ہیں لیکن میاں ۔۔۔اب بھی وہ پاکستانی بچوں کو عیدی دیتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘

’’ لیکن قائد اعظم بچوں کو کہاں عیدی دیتے ہیں اب ، ابّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو آج تک نہیں دی عیدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سعد کو بھی نہیں دی۔۔۔ہے نا سعد؟‘‘حسن میاں نے اپنی بات کی تصدیق کرناچاہی۔
’’ہاں ۔۔۔۔بھائی۔۔۔قائد ۔۔۔اعظم ۔۔۔عیدی نئیں(یعنی ہاں بھائی قائدِ اعظم عیدی نہیں دیتے)‘‘

ابّا خُوب ہنسے۔۔۔۔۔بولے ’’ اور جو مجھ سے عیدی لیتے ہو،بابا سے،ماما سے،امّاں سے اور سب لوگوں سے اُس عیدی پر کس کی تصویر بنی ہوتی ہے؟‘‘ابّا مُسکرائے۔وہ بھی حسن ہی کے ابّا تھے۔اچانک حسن اور سعد میاں نے خوشی سے اُچھلنا شروع کردیا : ’’ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔قائد اعظم تو ہم بچوں کو بھی عیدی دیتے ہیں کیونکہ وہ تو پاکستان کے بانی ہیں نا اور اچھے بچّوں سے بہت پیار بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘ خوشی حسن میاں کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔وہ قائد اعظم سے بڑی محبت کرتے تھے اور ابّا سے قائد اعظم کے کئی سچّے واقعات بھی سُن چکے تھے۔

ابّا مُسکرائے اور بولے:’’ بس تو اپنی عیدی کو اونگے بونگے (فضول،بے مقصد،بے کار)کاموں میں خرچ نہیں کرنا ورنہ قائد اعظم ناراض ہوجائیں گے۔۔۔اور پھر عیدی نھیں دیں گے۔۔۔۔۔!!!!‘‘
پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ’’بابائے ادب اطفال ، پاکستان‘‘
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ’’بابائے ادب اطفال ، پاکستان‘‘ Read More Articles by پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ’’بابائے ادب اطفال ، پاکستان‘‘: 2 Articles with 3097 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.