خالقِ کائنات نے تین اقسام کی مخلوق پیدا کی ہیں۔نوری
یعنی فرشتے'ناری یعنی جن اور خاکی یعنی انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ
دیا گیا۔دراصل انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے اور اس کی تخلیق اس
طرح ممکن ہوئی کہ جسم کو مٹی سے بنایا گیا اور اس میں روح آسمان سے لا کر
ڈالی گئی۔ جسم کی ضروریات کا سامان یا اہتمام زمین سے کیا گیا کہ تمام تر
اناج غلہ پھل اور پھول زمین سے اگائے جبکہ روح کی غذا کا اہتمام آسمانوں سے
ہوتا رہا۔ہم سال کے گیارہ ماہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اس کائنات میں پیدا
ہونے والی اشیاء سے پورا کرتے رہتے ہیں اور اپنے جسم کو تندرست و توانا
رکھتے ہیں۔مگر روح کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہمیں پورے سال
میں ایک مہینہ ہی میسر آتا ہے جو رمضان المبارک ہے۔
دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میں بغیر
کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کا طمع کئے تعمیلاً روزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی
تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے
ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین نے تسلیم کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہی خیال
کیا جاتا تھا کہ روزہ کے طبی فوائد نظام ہضم تک ہی محدود ہیں لیکن جیسے
جیسے سائنس اور علم طب نے ترقی کی'دیگر بدن انسانی پر اس کے فوائد آشکار
ہوتے چلے گئے اور محقق اس بات پر متفق ہوئے کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔
آئیے! اب جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں کہ روزہ انسانی جسم پر کس
طرح اپنے مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔
|
|
روزہ اور نظام ہضم :۔
نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے
بہت سے اعضا پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضا جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود،
زبان، گلا، مقوی نالی ( limentary Canal ) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے
جانے والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف
حصے وغیرہ تمام اعضا اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے
ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو
اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل سے یہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر
ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ ' جنک فوڈز اور طرح طرح کے مضر صحت الم غلم
کھانوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا
آرام طاری کر دیتا ہے اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ
جگر نے نظام ہضم میں حصہ لینے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی سرانجام دینے
ہوتے ہیں۔ روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ
روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک
کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا
کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فورا مصروف عمل ہوجاتا
ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی
ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو
ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر
تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر
توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی
طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن( Globulin)جو جسم کے محفوظ رکھنے والے
مدافعتی نظام کو تقویت دیتا ہے' کی پیداوار پر صرف کرتا ہے۔
رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی
صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی
بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا
شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یاد رہے کہ جدید
میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے
امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے۔
نظامِ ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں
بھوک کے دوران یہ رطوبتیں زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں
تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا
پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ
روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے ۔یوں نظامِ ہضم درست کام کرتا ہے۔ روزہ
نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے اس کے اثر
معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں جس سے تیزابیت
(Acidity)جمع نہیں ہوتی اس کی پیداوار رک جاتی ہے ۔معدہ کے ریاحی دردوں میں
کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام کو روزہ
کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔ روزہ آنتوں
کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ
کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے
والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے
دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام
بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے
ہیں۔
روزہ اور دوران خون :۔
روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر
خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاً دل کے لئے مفید
چکنائی'' ایچ ڈی ایل ''کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس
سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ''ایل ڈی
ایل''اور ٹرائی گلیسر ائیڈ کی سطحیں بھی معمول پر آ جاتی ہیں اس سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غذائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین
موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزوں کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹا
بولزم )کی شرح بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی
اشیا ء کا کثرت استعمال ان فوائد کو مفقود کر سکتا ہے۔
|
|
دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے یہ اثر دل کو انتہائی
فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا
ہوا خون کا دباؤ ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے ۔شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی
کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnanuls)کا
پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت
کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں اس طرح
خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے جس کے نتیجے
میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک
بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis)سے بچنے کی بہترین
تدبیر روزہ ہی ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر
ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے اور خون کی پیدائش میں
اضافہ ہو جاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے
اندر زیادہ خون کی کمی دور کر سکتے ہیں۔
روزہ اور نظام اعصاب :۔
روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے
مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان باتوں کا روزہ اور
اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس قسم کی صورت حال انانیت (egotistic)یا
طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت
پر سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے نیز عبادات کی بجا آواری سے حاصل شدہ
تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ
خشوع وخضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری
پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ روزہ کے دوران چونکہ ہماری
جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر
کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ
میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام
کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران
عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے اعصابی
نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے ۔
روزہ اور انسانی خلیات :۔
روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے
درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار
میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی
طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل
(Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار
ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس
کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے
یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ
(Pencreas)کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے
کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی
توانائیوں کو جلا دے سکیں۔
|
|
روزہ اور غیر مسلموں کے انکشافات :۔
اسلام نے روزہ کو مومن کے لئے شفا قرار دیا اور جب سائنس نے اس پر تحقیق کی
تو سائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے ۔
٭…آکسفورڈیونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مورپالڈ اپنا قصہ اس طرح بیان کرتے
ہیں کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو
میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے
اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولہ ہی دے
دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی میں نے سوچا
کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانوں کے طرز پر رکھنا شروع کئے
میں عرصہ دراز سے ورم معدہ (Stomach Inflammation) میں مبتلا تھا کچھ دنوں
بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقعی ہو گئی ہے میں نے روزوں کی
مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ
بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ۔
٭…پوپ ایلف گال ہالینڈ کے سب سے بڑے پادری گزرے ہیں روزے کے متعلق اپنے
تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ
تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور
وزنی ہم آہنگی محسوس کی میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں
کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ ان میں وہ مریض
جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے
جائیں ۔میں نے شوگر' دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک
مہینہ تک روزہ رکھوائے۔ شوگر کے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ان کی شوگر
کنٹرول ہو گئی۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا سب سے
زیادہ افاقہ معدہ کے مریضوں کو ہوا۔
٭…فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت
لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ
غذائی متعفن اجزا(food particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول
کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص
طور معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔
٭…مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے
کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے روزہ دار
آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے روزہ دار
کو جسمانی کھینچاؤ اور ذہنی تناؤ سے سامنا نہیں پڑتا۔
٭…جرمنی'امریکہ 'انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں
تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں
چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک٬
کان٬ گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر
کے امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ
اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔
غرضیکہ روزہ انسانی صحت کیلئے انتہائی فائدہ مند ہے۔ روزہ شوگر لیول ٬کولیسٹرول
اور بلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اسٹریس و اعصابی اور ذہنی تناؤ ختم کر کے
بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتا ہے روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے
کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔ روزہ انسانی جسم سے
فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی
فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ
ہوتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلا مل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر
ہوتی ہیں روزہ موٹاپا اور پیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام
انہضام کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید بیسیوں امراض کا علاج بھی ہے ۔
روزہ اور احتیاطی تدابیر:۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مندرجہ بالا فوائد تبھی ممکن ہوسکتے ہیں جب ہم سحر
وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔ خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور
مرغن تلی ہوئی اشیا ء مثلا ًسموسے 'پکوڑے 'کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت
کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے
اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائد بھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ
مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دستر خوان پر دنیا جہان کی نعمتیں
اکٹھی کرنے کی بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے
اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین
بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا ۔افطار
میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال
کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں ۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر
عملدر آمد سے یقیناً ہم روزے کے جسمانی وروحانی فوائد حاصل کر سکیں گے۔
|
Disclaimer: Please consult your health physician regarding any treatment
of health issues. Information here is provided only for general health
education. |