سوچ اور رویے کی تخلیق

کسی بھی عمل کےسرزد ہونے کے لیے سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ رویہ کی بنیاد انسان کے عقائد ،جذبات اور اقدار پر مبنی ہے۔ کیا سوچ رویے کی محتاج ہے یا رویہ سوچ کے تابع۔۔۔؟ ایک انسان جب اس دنیا میں تشریف لاتا ہے تو اس کے عقائد اور اقدار کی تخلیق میں گردو نواح کے ماحول کا واضع ہاتھ ہوتا ہے۔ عام طور پر سوچ کو عمل میں بدلنے کے لیے عقائد جذبات اور اقدار کی کافی حد تک پیروی کرنا پڑتی ہے۔ جذبات اور اقدار کسی سوچ کو مثبت یا منفی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ہر معاشرے میں اچھے برے رجحانات پائے جاتے ہیں جن کی بنیاد وہ مثبت یا منفی روایات ہوتی ہیں جو گردو نواح کے ماحول کے ذریعے اذہان پر مسلط ہو جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک کثیر تعداد میں ایسے حضرات پائے جاتے ہیں جو خود کوعقل کل سمجھتے ہیں ِان حضرات کے ِاس رویے کے پیچھے اُس ماحول کا ہاتھ ہے جس کو ُان کے اردگرد پائے جانے والے حضرات نے بچپن میں اُن کے رویے کے کورے کاغذ پردانستہ یا غیر دانستہ طور پر لکھ ڈالا تھا۔ ۔ ہمارے اردگرد پائے جانے والے چند دانش مند، فصیح وبلیغ اور ہرفن مولا حضرات بھری محفل میں چیخ چیخ کراپنا علم دوسروں پر جھاڑتے ہیں اِن عالم فاضل حضرات کو اِس بات سے کیا غرض کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح ہو رہی ہے۔

(سفید کاغذ کو کالا کرنے والے ان حضرات میں دوست احباب ،عزیزواکارب ، اور معذرت کے ساتھ کسی حد تک والدین اور اساتذہ کرام بھی شامل ہیں) عام طور پر دوست احباب اپنی ناک اونچی کرنے کے لیے دانستہ طور پر عزتِ نفس پر حملہ کرتے ہیں جو کہ ایک انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے یہ غیر مہذب عمل کسی نفسیاتی مسئلے کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ عام طور پر والدین اور اساتذہ کرام غیر دانستہ طور پر بچوں میں منفی روایات کو جنم دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری قوم کے معماروں کو خاص تربییت مہیا کی جانی چاہیے والدین کو میڈیا کے ذریعے قائل کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسل میں اس بیماری کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔
Ahmed
About the Author: Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.