انسان خطا کا پتلا ہے

کہتے ہیں کہ انسان "خطا کا پتلا ہے" اور یہ بات سو فیصد درست بھی ہے انسان فرشتہ نہیں کہ خطاؤں سے پاک و مبّرا یا بالکل ہی معصوم ہو

عام انسان تو پھر عام انسان ہے خطائیں تو ولیوں اور نبیوں سے بھی سرزد ہوتی رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ان کی توبہ قبول بھی کی گئی ہے روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عاجزی و انکساری اور خشیت الہی کے سبب نا صرف ان کی توبہ قبول کی بلکہ ان کے درجات بھی بلند کئے ہیں انسانوں سے خطائیں سر زد ہونا عام سی بات ہے اس دنیا میں آئے روز کسی نہ کسی انسان سے دانستہ یا نادانستہ طور پر کوئی نہ کوئی خطا سرزد ہوتی رہتی ہے انسان سے خطا سرزد ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے

لیکن اپنی یا دوسروں کی خطا کو سر پر سوار کئے رکھنا اور ایسی خطائیں جو قابل معافی ہیں ان سے درگزر کرنے کی بجائے خطا کار کو بات پے بات برا بھلا کہنا یا بار بار اسے اس بات کا احساس دلانا کہ اس نے جو بھی کیا بہت برا کیا، یہ کیا کردیا، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ہم تو تمہیں بہت اچھا انسان سمجھتے تھے بھئی یہ تو تم نے بہت برا کیا، تم تو کبھی کوئی کام بغیر غلطی کے کر ہی نہیں سکتے، ہماری ہی غلطی تھی کہ ایک ناکارہ اور ناقابل اعتبار بندے پر بھروسہ کر کے ایک کام ذمہ لگایا تھا وہ بھی صحیح سے انجام نہ دے سکے، تمہیں تو کچھ کہنا بیکار ہے تم تو زندگی میں کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اس قسم کی باتیں کرنا اور کسی کی خطا کو بار بار دہرا کر وقتا" فوقتا" کسی کو ذلیل و رسوا کرنا خطا در خطا ہے
کسی کی غلطی کے ردعمل کے طور پر اس طرح کا طرز عمل اختیار کرنا بہت غلط ہے اس طرح کسی انسان کی شخصیت بہت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے اور یہ طرز عمل اچھے بھلے انسان کو احساس کمتری اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار کر سکتا ہے خود اعتمادی نہ ہو تو انسان کوئی کام بھی صحت کے ساتھ انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور معاشرے میں تنقید اور طعن و تشنیع کا شکار ہو کر خود کو تنہائی سے رسوائی اور پھر تباہی کی طرف لے جاتا ہے اور اس تباہی میں محض اس اکیلے کی غلطی نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ دوسروں کا روا رکھنے والا غلط رویہ ہے جو اس کے ساتھ رہتے بستے ہیں

جہاں خطا ہے وہاں معافی تلافی بھی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں پر توبہ چاہنے اور معافی چاہنے پر معاف فرما دینا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کے بندوں کو قابل معافی خطا کے لئے وہ سزائیں دیتے پھریں جنکا وہ سزاوار نہیں ہے

ہم ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی خطاؤں کو درگزر کیوں نہیں کرتے، کیوں ہمارے ظرف اخلاقیات سے عاری ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حسن اخلاق کی بنیاد پر ہی دنیا میں اسلام نے فروغ پایا ہے دوسروں کو تو کیا معاف کرنا ہے بعض اوقات چند حساس دل رکھنے والے انسان اگرچہ دنیا میں کم ہی اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ جن سے اگر نادانستہ بھی کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ خود کو بھی کبھی معاف نہیں کرتے اور خود کو سزا دینے کے لئے خود اذیتی کا شکار ہو کر مزید خطاؤں کے مرتکب ہو کر خطا در خطا کے عمل سے اپنی زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کردیتے ہیں جبکہ خود اذیتی بذات خود ایک بڑی خطا ہے اللہ کے بندوں یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ غلطی کا احساس ہو جانا ہی بذات خود خطا کی سزا ہے اور اس سزا سے چھٹکارا خود کو جسمانی و روحانی سزا دینا نہیں بلکہ آئندہ کے لئے اس خطا سے توبہ کر لینے میں ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف فرمانے والا اور اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے تو بندہ بندے کو معاف کرنے کا ظرف کیوں نہ پیدا کرے

خود اذیتی کا شکار ہونے کی بجائے اللہ کے حضور سچے دل سے آئندہ کے لئے سابقہ خطا کے ارتکاب سے توبہ کر لیں کہ اللہ کی رحمت سے اللہ کے ہاں اپنے بندوں کے لئے توبہ کا در ہر پل کھلا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا اپنے بندوں کی بھلائی چاہنے والا ہے

بہتر یہی ہے کہ آئندہ زندگی میں محتاط رویہ اختیار کریں اور کسی صورت رب کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کہ 'مایوسی کفر ہے' اور ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں کے وہ مایوسی کا شکار ہو کر اپنی زندگی ناکامی و نامرادی کے اندھیروں کی نظر کردے

اصل بات خطا کا سرزد ہونا نہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ خطا کیوں سرزد ہوئی اور خطا کرنے والے یا کسی کی خطا کو محسوس کرنے والے پر خطا سرزد ہونے کے بعد اس خطا کے ردّعمل کے طور پر ظاہر ہونے والے نتائج انسانی شخصیت پرکس طرح اثر انداز ہوتے ہیں

تقریباً ہر دوسرا انسان اپنے لئے یہ چاہتا ہے کہ خطا کر گزرنے کے بعد بھی دوسرے اس سے نرمی و رعایت کا رویہّ برتیں مگر اس کا انحصار تو خطا کی نوعیت پر ہے ہر خطا قابل معافی نہیں ہوتی جس طرح نیک عمل کی جزا ہے اسی طرح خطا کی سزا بھی ہے اور سزا اس لئے ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تاکہ وہ خطا کو دہرانے کی کوشش نہ کرے

اگر خطا کی سزا نہ ہو تو انسان خطا کو خطا ہی نہ سمجھے اور خطا در خطا کرتا ہی چلا جائے جو کہ کسی بھی طرح انسانیت یا انسانی معاشرت کے حق میں نہیں ہے جہاں تک خطا کی بابت نرمی و رعایت برتنے کا تعلق ہے تو چند ایک چھوٹی موٹی جانے انجانے سرزد ہوجانے والی کوتاہیوں، ‏غلطیوں یا خطاؤں پر تو اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور نرمی و رعایت یا درگزر سے کام لے کر ان خطاؤں کے لئے غلطی کرنے والے کو معاف کیا جا سکتا ہے

لیکن بڑے بڑے جرائم یا عادتاً ناحق ایسی خطائیں کر گزرنا کہ جو دوسروں کے لئے باعث ازار ہوں یا انتہائی اذیت ناک ہوں جو کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوں تو ایسی خطائیں کرنے والا انسان کسی قسم کی رعایت یا معافی کے قابل نہیں ہوتا

یوں تو دوسروں کے ناروا سلوک کو معاف کردینا، درگزر سے کام لینا یا پرداشت کرجانا بہت اچھی بات ہے بلکہ مذکورہ رجحانات کو اپنانے سے ممکن ہے کہ دوسرے کو خود ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ آپ کے حسن اخلاق کو دیکھتے ہوئے اپنے سابقہ رویے پر خود ہی پشیمان ہو کر آ‏ئندہ کے لئے خطا کی روش چھوڑ کر متضاد روش اختیار کر لے اور اس طرح آپ اپنے مثبت طرز عمل سے منفی طرز عمل میں تبدیلی لانے میں معاون ہوں اپنی اچھائی سے دوسرے کی برائی کا خاتمہ ایسے کرسکیں جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، جیسے مٹی تلے دبا گھٹن زدہ پیج ابر رحمت کی برسات سے زمین کا سینہ چیرتا ہے اور محبت کی طرح رنگ و خوشبو میں لپٹے حسین و دلکش پھولوں کی بہار سے اجڑے گلشن کو سجاتا سنوارتا اور مہکاتا ہے

کسی کی خطا کی سزا تجویز کرنے سے پہلے کم از کم ایک بار یہ ضرور سوچ لیں کہ 'انسان خطا کا پتلا ہے' اور ہم بھی انسان ہیں اگر دوسروں سے خطا سرزد ہوئی ہے تو کسی کمزور لمحے کی زد میں آکر خود ہم بھی ایسی ہی کسی خطا کے مرتکب ہو سکتے ہیں لہٰذا دانستہ و نا دانستہ سرزد ہونے والی خطاؤں کی طرح دیگر معاملات میں دوسروں کی بابت وہی طرز عمل اختیار کریں جیسا اپنے لئے چاہتے ہیں کہ اپنے اس طرز عمل سے کسی نا کسی حد تک تو ہم اپنے معاشرے میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کو کم کرسکتے ہیں اور مثبت رجحانات کو پروان چڑھانے میں معاون کردار ادا کر سکتے ہیں
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456943 views Pakistani Muslim
.. View More