ملک عزیز میں انتخابات کی
تیاریاں عروج پر ہیں اور سیاسی گہماگہمی اپنے آخری مراحل میں میں ہے۔قومی
جماعتوں کے لیڈران ایک دوسرے پر بہتان ترازی میں آگے جانے کی کوشش میں ہیں
اور روزانہ الیکٹرانک میڈیا خبروں کو سنسنی بنانے کے لئے دوسیرے چینل سے
بازی لے جانے کے چکر میں سیاستدانوں کوایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے شاندار
مواقع فراہم کر رہا ہے اور سیاسی رہنما ان مواقع کا بھر پور فائدہ اٹھارہے
ہیں اور عوام اس تفریح سے محضوظ ہو رہی ہے۔ سیاستدان ملک کو تبدیل کرنا
چاہتے ہیں یہ تو الیکشن کے بعد پتہ چلے گا کہ کون ملک و قوم کاخیرخواہ ہے
اور کون اسمبلیوں میں نیند کرنے کے لئے بیتاب ہیں۔عوامی جذبات اور احساسات
کا بھر پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے جذ بات میں مزید جوش و جنون مزید گرم ہو
رہا ہے اور عوام روز بروز اسی جوش کے چکر میں اپنا اپنا ہوش کھو رہی ہے
اپنی پارٹی رہنما کے ایک نعرے پر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں جس رہنما کا
پانچ سال چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتایہی ہماری قوم کی شروع سے بدقسمتی رہی
ہے ہم لوگ صرف جذبات سے سوچتے آئے ہیں کبھی دل اور دماغ کو سکون دے کے نہیں
سوچا کہ ہم نے کون سا راستہ متعین کرنا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے سیاستدان
ہمیں مختلف نظریات کا عادی بنا کے حکومتوں پر براجمان رہے اورط آج ہمارے
ملک کی حالت پہلے سے مزیدابتر ہوگئی ہے۔آج پاکستان کو تبدیل کرنے کا عزم لے
کر عوام کو خوچ فہمی میں مبتلا کرہے ہیں جس طرح پچھلی حکومت نے روٹی، پانی
اور کپڑے مہیا کیے ۔
جب ہم خود اپنا راستہ منتخب کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس پر صبر کریں
اور پھر رونا کس بات کا۔ ہم پھر نظام جمہوریت کو دوش دینے لگ جاتے ہیں۔
نظام جمہوریت ایک عالمی نظام ہے اور جمہوریت کے تحت دنیا کے کئی ممالک ترقی
کی طرف گامزن ہیں۔ ہماری جمہوریت تو ان سے کئی درجے اعلی ہے کیونک ہمارا
جمہوری نظام تو اﷲ کے دین کی حدود کے اندر ہے۔اور دین اسلام دنیا کا بہترین
نظام ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہم اپنے نطام کے
مطابق ہی نہیں چل رہے۔ ہم احتساب کرتے ہیں تو بس حریف کو قابو کرنے کے
لئے،غیر شفافیت ہماری پہچان ہے،میرٹ صرف زبان ذد عام ہے عمل کچھ نہیں
ہے،دھوکہ دہی ہمارا شعار ہے ۔ پھر ہم کہیں کہ ہمارا نطام ٹھیک نہیں ہے جب
تک ہم خود ٹھیک نہیں ہوں گے تو دنیا کا کوئی نظام نافذ کردو ہماری حالت یوں
رہے گی جیسے ہے۔
اﷲ تعالی کاوعدہ ہے رزق مہیا کرنا وہ تو ہمیں ہر حال میں مل رہا ہے اور ﷲ
تعالی نے ہمیں دشمنوں کے شرسے بھی ایٹمی طاقت بناکے محفوظ کر دیا ہے۔لیکن
ہم ایک قوم بننے کی بجائے مختلف فرقہ بندیوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ فرقہ بندی
صرف مذہبی نہیں ہے بلکہ سیاسی اور لسانی بھی فرقہ بندی ہے جس کی وجہ سے ہم
ایک دوسرے کو دیکھنا برداشت نہیں کرتے ۔ فرمان نبویﷺ کو ہم شاید بھول چکے
ہیں کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی اور کسی عجمی کو عربی پراورکسی کالے کو
گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں ہے‘‘۔ آپﷺ کا یہ فرمان
توپورے عالم کے اہل ایمان کے لئے ہے۔ قرآن پاک میں واضح ہے کہ’’بیشک مومن
آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ پھر ہم کہاں جارہے ہین ہم کیوں نہیں سوچتے ۔ ہم
ایک دوسرے پر ایک چھوٹی سی بات پہ بھی فتوے صادر فرمادیتے ہیں۔اقلیتوں کے
حقوق کا تحفظ بھی ہماری ذمہ داری ہے ہم کسی ایک کے گناہ کی سزا پوری قوم کو
کیوں دینے لگتے ہین اور بستیاں تک جلادیتے ہین پھر بھی ہمیں سکون نہیں ملتا۔
ہم آج پنجابی،سرایکی،بلوچ،پٹھان،سندھی اور مہاجر بن چکے ہیں۔کیا ہم ایک
نہیں ہوسکتے؟ اس کے لئے ہمیں جذبات کو کنٹرول کرنا ہوگا اور اپنے ذہن کو
کھولنا ہوگا اجتماعی سوچ پیدا کرنا ہوگی جو ہمارا روشن مستقبل متعین کرے
گی۔ہمیں اپنی پرانی روش ترک کرنا ہوگی پھر ہمیں کامیابی کا راستہ ملے گا۔
جو لوگ تقریر کر کے کہ رہے ہیں کہ’’تم عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتے
‘‘حالانکہ وہ یہی کچھ خود کر رہے ہوتے ہیں اور پچھلے ۶۶ سالوں سے ہمارے
ساتھ یہی ہوتا آیا ہے ہے۔
ایک بزرگ سے نئی آنے والی حکومت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب
دیا کہ’’ وہ ۶۶ سال سے پاکستان میں یہی دیکھ رہے ہیں کے جب کسی کی حکومت
آتی ہے تو مٹھایاں تقسیم ہوتی ہیں اور جب جاتی ہے تو مٹھایاں تقسیم ہوتی
ہیں اور عوام ہمیشہ موجودہ حکومت کو بُرا بھلا کہہ رہی ہوتی ہے‘‘۔جب تک
موروثی سیاست رہے گی تو عوام بھی اس طرح رہے گی اور ملک کے حالات بھی ایسے
رہیں گے۔ موروثی سیاست صرف خاندان کو سپورٹ کرتی ہے جس میں اقربا پروری اور
منافقت کو عروج ملتا ہے۔ موروثی سیاستدان تو حکمرانی کو نہیں چھوڑنا چاہتے
بلکہ مزید اپنے خاندانوں کے نئے چہرے لا رہے ہیں کیا یہ ملک صرف ان کے
خاندانوں کے لئے ہے؟ نہیں تو پھر عوام کو اپنا ووٹ صحیح ڈالنا ہوگا اوران
جاگیرداروں،وڈیروں،سرداروں،سرمایہ داروں سے جان چھڑانی ہوگی ۔ اگر ہم اس
الیکشن پر بھی صحیح قیادت منتخب نہ کر سکے تو تو اگلے پانچ سال مزید خطرناک
ہوں گے۔ پہلے بھی ملکی سلامتی کو داؤ پر لگایا گیا ہے اور مزید خطرہ بڑھ
جائیگا،ملک کی دولت کو جس طرح پہلے لوٹا گیا تو بھیک مانگنے سے بھی حالت
آگے چلی جائے گی۔عوام کو اپنے رہبر و رہنما اس انتخاب کے ذریعے منتخب کرنے
ہیں۔الیکشن ہمارے سنبھلنے کا وقت دے رہا ہے۔اور احتیاط سے کام لینا ہے تاکہ
یہ سودا کہیں مہنگا نہ پڑ جائے۔۔ |