ارضِ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے
جو دنیاکے تمام ممالک سے ممتاز ہے۔دنیاکے عظیم جمہوری ممالک میں یہ ملک
اپنی مثال آپ ہے لیکن کچھ دیمک اس کو خاک میں ملانے کے در پہ ہیں۔کچھ عرصے
سے یہ دیمک جن کے آستین ہزاروں بے گناہوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں، ان پر
تمام اقسام کی حکومتوں نے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی،اس کی وجہ آج تک
معلوم نہیں کہ آخر کیا اسباب ہیں جو امن و امان سے بڑھ کر قتل و غار ت گری
کا بازار گرم ہے۔ہمیں ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے اور ان تمام حالات و
واقعات سے نبرد آزما ہونے کے لئے دل کے خلوص کو مجتمع کرکے اور وطن سے محبت
کو پروان چڑھاتے ہوئے اقدامات کرنے ہونگے تاکہ یہاں کے عوام الناس کو سکھ ،چین
اور خوشیوں کی فراوانی فراہم کرنے میں مدد کی جاسکے۔یہ عوام ہی تو ہیں جو
آپ احباب کو رُتبے پر پہنچاتے ہیں،اعلیٰ اقتدار کے قابل بناتے ہیں ،توکیا
آپ کا فرض نہیں کہ ان کی داد رسی فوری کی جائے ناکہ ٹاک شوز میں شامل ہوکر
ادھر اُدھر کی باتیں کرکے وقت کا ضیاع کیاجائے۔ایک دوسرے پر الزامات کی
بوچھاڑ کرکے وقت کو دھکا ہی دیاجاتارہے۔آج شہرِ قائد کے حالات سمیت کوئٹہ
اور دیگر شہروں میں حالات اس قدر دگر گوں ہوچکے ہیں کہ عوام اپنے ہی شہروں
میں سفر کرتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔نشانہ وار قتل ایک ایسی بیماری میں شامل ہو
چکی ہے جس سے چھٹکارا دلانا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے مگر حکمران چاہے
صوبائی سطح کے ہوں یا وفاقی کوئی بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہاہے جس کی وجہ
سے روزآنہ شہرِ قائد میں دس سے پندرہ افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔اغواء
برائے تاوان ہو یا اغوا برائے سیاست ،یاپھر اغوا ء برائے عوام،ہر طرح کے
لوگ اغواء کئے جا رہے ہیں اور بہت ہی بے دردی سے کچھ روزبعد ان کی لاشیں
شہر کے کسی بھی حصے میں پھینک دیئے جاتے ہیں کیاوہ کسی ماں کے لال نہیں
ہوتے،کیا وہ کسی بیوی کا شوہر نہیں ہوتا،کیا وہ کسی بہن کا بھائی نہیں
ہوتا،اور سب سے بڑھ کر کیا وہ اس ملک کا شہری نہیں ہے کہ حکومتیں اس طرف سے
بالکل ہی نابلد ہوئے بیٹھے ہیں۔خدارا اس طرف توجۂ خاص دیجئے جہاں ہر صبح بے
گناہوں کا خونِ ناحق بہایاجارہاہے اور اس پر کوئی عملی اقدامات کرنے کو
تیار نہیں سوائے اس کے کہ مذمتی بیان داغ دیاجائے۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ
شاعرمنور صاحب نے ایسے ہی حالات کے لئے یہ شعر کہاہے،آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
وہ جو بازار کے کھلاڑی ہیں
تیرا ہر خواب بیچ ڈالیں گے
کل تو سُوکھے کو بیچ ڈالا تھا
اب کے سیلاب بیچ ڈالیں گے
آج ہمارے ملک کے سامنے دو بڑے اور اہم چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں سے اوپر
دہشت گردی کا ذکر ہو چکاہے، دوسری اہم بات فرقہ پرستی ہے۔جب سے ان دونوں
طاقتوں نے اپنا سر ابھارا ہے ملک میں انتشار اورانارکی سی پھیلی ہوئی
ہے۔فرقہ پرست اور متعصب طاقتیں ایک طبقۂ خاص کو جابجا کسی نہ کسی بہانے
نشانہ بناکر ان کے عرصۂ حیات کو تنگ کرنا اپنا شیوہ بناچکے ہیں۔یہی فرقہ
پرست طاقتیں کبھی پیغمبرِ اسلام کی فرضی تصویریں شائع کرکے تو کبھی مذہبی
مقامات کی بے حرمتی کرکے تو کبھی قرآن مقدس کے اوراق کو چاک کرکے ملک کے
پُر امن ماحول میں ایسا زہر گھولنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا کلیجہ
چھلنی ہوجاتاہے۔معتصب اور فرقہ پرست طاقتوں ہی نے تو ماضی قریب میں کئی
شہروں اور صوبوں کو قتل گاہ بناکر رکھ دیا۔ان طاقتوں کے خلاف آج تک کوئی
کاروائی نہیں ہو سکی جس کے نتیجے میں یہ طاقتیں بے لگام دندناتی پھر رہی
ہیں۔اگر یہی رویہ جاری رہا اور ہماری سرکار فرقہ پرست اور متعصب ذہنیت کے
حامل لوگوں کو شہ دیتی رہی تو چہ جائیکہ ملک ترقی کرے یہاں خوف و دہشت کا
ماحول ایسے ہی بنا رہے گا۔ملک میں امن،بھائی چارہ اور یگانگت کے ماحول کو
بحال رکھنے کے لئے حکومت کو انصاف کا دامن ہر حال میں تھامنا ہوگااور فرقہ
پرستی اور دہشت گردی جیسی لعنت کوجڑ سے اکھاڑناہوگا۔اگر ہماری حکومتیں اس
کام میں ناکام رہتی ہیں توبلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب
میں عوام اس کاجواب ضرور دے گی۔اسی طرح دہشت گردی نے ہمارے ملک کوبارود کے
ڈھیرپربٹھارکھاہے ،آئے دن کہیں نہ کہیں یہ طاقتیں اپنا کام انجام دے دیتی
ہیں اور ہماری حکومت صرف مذمتی بیان داغ کر اپنافرض اداکر دینے کا قضیہ
سناتی ہے۔ملک کاہرشہری اس سے خوف زدہ ہوکر خود کو غیر محفوظ سمجھنے
لگاہے۔ملک میں امن و سلامتی کا ماحول اسی وقت پیداہو سکتاہے جب ان طاقتوں
پر نکیل کسی جائے۔یہ تمام واقعات کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں جس پرمحض
رسمی بیان دے دیاجائے اور اسمبلیوں میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرلی جائے
اور بہادری کا ایوارڈ دے دیاجائے۔یا پھر لواحقین کو معاوضہ دے دیاجائے،اگر
یہی مسئلے کا حل ہوتاتوکب کا ملک امن و آشتی کا گہوارہ بن چکاہوتا۔راقم کی
رائے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اور خاص طور سے وزارتِ داخلہ کو ان
معاملات سے نپٹنے کے لئے طاقتور میکانزم تیارکرناپڑے گا۔وزارتِ داخلہ کو یہ
بھی دیکھنا ہوگاکہ کیا تشدد سے ملک کو نجات دلائی جا سکتی ہے یا نہیں۔اسی
طرح ملک کے دانشوروں سے بات کرنی ہوگی،یہ سمجھنااورسمجھاناہوگاکہ مسئلے کا
حل کس طرح نکالاجاسکتاہے۔گمراہ لوگوں کو ہماری مشینری کی ناانصافیوں کے
شکار سے کس طرح نکالاجاسکتاہے۔اور عوام کو زندگی جینے کا حق کس طرح دیاجائے
۔حکومت کو عوام کے جائز مطالبات ماننے چاہیئں اور اپنے معاشرے کو تشدد سے
پاک بناناچاہیئے۔
تاریخ اس با ت کی شاہدہے کہ ملک میں جب جب دہشت گردی یافرقہ وارانہ فساد
ہوئے ہیں اس کا خمیازہ ملک کو ہی بھگتنا پڑا ہے ،اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ
حکومت اور انتظامیہ ایسے موقعوں پرشرپسندوں کی طرف سے چشم پوشی کرلیتی ہے
اور جب سب کچھ لُٹ پُٹ جاتاہے توسرکاری مشنریاں حرکت میں آتی ہیں اورچند
گھنٹوں میں یہ اعلان بھی کر دیتی ہیں کہ حالات قابو میں ہیں۔ایسا کب تک
چلتا رہے گا۔کیا اس ملک کے عوام ترقی کے زینے طے نہیں کر سکتے۔دیگر قومیں
ترقی کر سکتی ہیں،وہ زندگی خوش و خرم گزار سکتی ہیں توہم کیوں نہیں،ہمارے
ملک میں ترقی ایک بیماری کیوں بن گئی ہے ،عوام و خواص سبھی اس طرح کی باتیں
کرنے لگے ہیں کہ ہماری بھی ترقی ہونی چاہیئے ہمارے یہاں بھی امن و امان
ہوناچاہیئے۔ہماری عوام کیوں احساسِ کمتری میں مبتلاہے اس طرح کی باتوں سے
ایسا محسوس ہونے لگتاہے کہ کیاواقعی ہم پسماندہ ہیں،اس لئے
دانشوران،سیاستدان،اور قومی و سماجی رہنماؤں کو چاہیئے کہ وہ ترقی کے بارے
میں الگ الگ سوچناختم کریں،کیوں کہ کثیر المذاہب لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں تو
ان کی ترقی کا خیال بھی ایک ہونا چاہیئے اور عوام کی ترقی کے لئے کام کرنا
چاہیئے،اگر ایسا نہیں ہے تو بھائی چارہ اور انسانی قدروں کا زوال لازمی
ہے۔اس لئے حکومتیں ترقی کے لئے کسی ایک طبقے کو مخصوص نہ کریں،بلکہ عوام
اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کی بات کریں تاکہ قوموں کے درمیان
محبت،ہمدردی اور اخوت برقرار رہے۔ |