آئی ایم ایف کے نشتر سے دم توڑتی معیشت کی ”جراحت“ کیا اسے نئی زندگی سے پائے گی ؟

اے چارہ گر تیری چارہ گری کو سلام
آئی ایم ایف کے نشتر سے دم توڑتی معیشت کی ”جراحت“ کیا اسے نئی زندگی سے پائے گی ؟

اللہ رب العزت بڑا رحیم و کریم اور اپنی مخلوقات سے انتہائی محبت کرنے والا خالق و مالک ہے یہی وجہ ہے کہ اس رحمن و رحیم نے جہاں اپنی تمام تر تخلیقات میں مخلوقات کو افضلیت وفوقیت اور تمام مخلوقات میں انسان کو” اشرف“ مقام عطا کرنے کے ساتھ زندگی و موت کو اپنے دست غیب و قدرت میں رکھتے ہوئے انسان کو تسخیر کائنات کی آگہی اور ہر مشکل سے نجات و بیماری کے علاج کا علم عطا کیا اور اس علم کو انسان نے رحمن و رحیم کی رضا اور اس کی مخلوقات کی فلاح کیلئے استعمال کیا تو امن و خوشحالی اور ترقی و کامیابی نے اس کے قدم چومے مگر ابلیسی وسوسے کے تحت انسان نے جب بھی اطاعت ِالٰہی اور رضائے الٰہی کو فراموش کرکے اپنی ذات و قبیلے کے فوائد کو ترجیحات کا تعین بنایا تو ظلم و استحصال اور تباہی و بد امنی کا باعث بنا اور انسان کی یہی مفادپرستی دنیا میں جنگ و جدل ‘ تباہی و بربادی ‘ بھوک و مفلسی ‘ غربت و جہالت اور جرائم و بدامنی کی وجہ اور دہشتگردی کی بنیاد ہے ۔

اللہ کے دیئے ہوئے علم کے سہارے انسان نے دوسرے انسان کو عوارض و بیماریوں سے نجات دلانے کیلئے جس سلسلے کا آغاز کیا وہ” مسیحائی“ کہلایا اور طب میں انسان کو موذی امراض سے نجات دلانے کیلئے جراحت بھی ایک عمل ہے جس میں انسان کے فائدے کیلئے اس کے جسم پر ”نشتر “ کا استعمال کیا جاتا ہے جو انسان کو وقتی تکلیف سے دوچار تو ضرور کرتا ہے مگر زندگی کےلئے خطرے کا باعث بننے والی” وجہ“ کو جسم سے علیحدہ کرکے زندگی کو محفوظ بنانے کا باعث بنتا ہے ۔ اسی طرح چائنیز طریقہ علاج (آکو پنکچر )میں سوئیوں کے ذریعے علاج ہوتا ہے جس میںانسان سوئیوں کی چبھن کو تکلیف سے نجات کیلئے برداشت کرتا ہے جبکہ ”حجامہ “ نامی طریقہ علاج میں بلیڈ سے کٹ لگاکرفاضل و گندے خون کا جسم سے اخراج انسان کو بہت سی جسمانی تکلیفوں اور بیماریوںسے نجات دلاتا ہے ۔

انصاف و مساوات سے انحراف اور ذاتی و گروہی مفادات کی تکمیل کی کوشش نے دنیا میں وسائل و قوت کے ارتکاز کو جنم دیا‘ دولت کے ساتھ طاقت و اختیار محدود طبقات کے ہاتھوں یرغمال ہوئے جبکہ دنیا کی اکثریت” اقلیت “کے ”جبر“ کا شکار بننے لگی اور ولت ‘ طاقت و اختیار والوں نے اقتدار و حکمرانی کا مزہ لوٹنے کیلئے اپنے ہی جیسے انسانوں کو عوام کہہ کر محقور و مجبور بناڈالا اور اپنے مفادات کیلئے عوام کی امنگوں و مستقبل کے ساتھ خود عوام کو بھی قربان کرنے لگے اور ظلم کے اس نظام کیخلاف اٹھنے والی آواز کو غداری و بغاوت قرار دیکرکچل دینے کی حکمرانوں اور ا ن کے رفقاءو شرکاءکی عادت نے دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کو جنم دیا مگر افسوس کہ انقلابی تحریکیں بھی دولتمندوںاور استحصالیوں کے ہاتھوں یرغمال ٹہریں اور انقلابی تحریک قربانیاں دینے تک تو نظریاتی ‘ غریب اور عوام دوست و محب وطن طبقات کے سہارے چلی مگر ہر کامیابی کا ثمر و فوائد دولتمند اور استحصالی طبقات نے پائے کیونکہ ہر انقلاب کی کامیابی دکھائی دینے اور دکھائی نہ دینے والے اقتدار سے مشروط ہے !

سابقہ حکمرانوں نے مشرف کو تمام تر خرابی وپریشانیوں اور بحرانوں کا ذمہ دار ٹہراکر اپنی آئینی مدت ِحکمرانی کے پانچ سال انتہائی کامیابی سے پورے کئے گوکہ ان پانچ سالوں میں عوام نے دہشتگردوں کے ہاتھوں جتنی مارکھائی ‘ قاتلوں کے ہاتھوں جتنا خون بہایا ‘غربت کے ہاتھوں جتنی خودکشیاں کیں ان کی تاریخ میں اس سے قبل کے کسی دور حکومت میں کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ اسی پانچ سالہ مدت میں کتنے نوجوان بیروزگاری سے مجبور ہوکر جرائم کی جانب راغب ہوئے اس کا ریکارڈ مرتب کرنا بھی ممکن نہیں ہے ۔ قومی مسائل کو مشرف کا تحفہ قرار دینے والے حکمران‘ اصلاح و تعمیر ونو کے نام پر دنیا بھر سے امداد و قرضہ جات لیکر عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ بس اب منزل قریب ہے اور تھکا دینے والا سفر ختم ہونے والا ہے مگر حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل ‘ قومی انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل کے باوجود عوام کا سفر ختم نہیں ہوا کیونکہ قوم کے ہرفرد اور آنے والی نسلوں تک کو قرض کے بار کا شکار کرنے والی حکومت کی کامیاب مقتدر آئینی مدت میں مشرف کے شروع کئے منصوبوں تک کی تکمیل نہیں کی گئی نئے منصوبے کیا خاک مکمل کئے جاتے البتہ عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی برادری سے بھیک ‘ خیرات اور قرض مانگنے کی عادت کا شکار حکمرانوں نے قوم کے مظلوم و محروم طبقات اور غریب وبیروگار افرادکو روزگار فراہم کرنے یا انہیں ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے ’ ’ وسیلہ حق “ اور ”بینظیر انکم سپورٹ “ اسکیم کے ذریعے مالی معاونت کرکے ان کے اندر کی خودداری وانا کا خون کیااور بڑے پیمانے پر قوم کو بھکاری بنانے کا اس قدر کامیاب انتظام کیا کہ ان اسکیموں سے صرف غریبوں ‘ بیواؤں ‘ یتیموں ‘ بیروگاروں اور معذورں نے ہی نہیں بلکہ وزیروں و مشیروں اور پارٹی عہدیداران و کارکنان نے بھی بھرپور استفادہ حاصل کیا ۔

انتخابات سے قبل کشکول توڑدینے ‘ ڈرون حملے رکوانے ‘ مذاکرات و اقدامات کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ کردینے ‘ ادارو ں کو مضبوط بنانے ‘ جمہوری رویوں کو فروغ دینے ‘چند ماہ میں قوم کو توانائی بحران سے نجات دلانے اور پاکستان عوام کو خوشحال بنانے کے دعووں اور وعدوں پر عوامی اعتبار کے نتیجے میں عوامی اعتماد سے اقتدار میں آنے والے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) نے اقتدار پاتے ہی جن قابل پالیسی سازوں کا انتخاب کیا ۔ انہوں نے وزارتوں کا حلف اٹھانے کے بعد سیاسی روایت کی اطاعت کرتے ہوئے تمام مسائل کو سابقہ حکمرانوں کی بداعمالیاں قرار دیتے ہوئے اپنے اعمال و افعال کے ذریعے ثابت کردیا کہ میاں صاحب کے تمام دعوے اور وعدے ”انتخابات “ تک ہی محدود تھے اقتدار کے بعد ان وعدوں کی تکمیل سےان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے نتیجتاً ڈرون حملے اور ان میں ہلاکتیں مسلسل جاری ہیں مگر انہیں روکنا تو درکنار ان پر اتنا بھی احتجاج نہیں کیا جارہا جتنا پیپلز پارٹی حکومت کیا کرتی تھی جبکہ میڈیا کی آزادی کا راگ الاپنے والوں نے میڈیا کو بھی ایسی ”گیدڑ سنگھی “ سنادی ہے جس کی خوشبو حق و سچ کا پرچار کرنے کے دعویداروں کی زبان کو ”رطب اللسان “بناچکی ہے اور وہ موجودہ حکومت پر اس طرح تنقید کرتا دکھائی نہیں دے رہا جو آزاد میڈیا کا خاصہ رہا ہے ۔دہشتگردی کا دائرہ کار وسیع ہوتا جارہا ہے اور کراچی کے بعد دہشتگردوں کا نشانہ بننے والے کوئٹہ کے عوام کے ساتھ زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی ‘نانگا پربت بیس کیمپ میں غیر ملکی سیاح اور لاہور کے علاقے ”انارکلی “ میں فوڈاسٹریٹ پر طعام تناول فرماتے لوگ بھی دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں اور نئی حکومت کی سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے باجود دہشتگردی کے خاتمے کو اپنی ترجیح بناکر اس پر تمام تر قوت و وسائل سے عمل پیرا ہونے کی بجائے مشرف کو غدار ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادینے کی کوشش اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ حکومت ملک و قوم کو دہشتگردوں اور دہشتگردی سے نجات دلانے کے اپنے وعدے کی تکمیل میں بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔ توانائی بحران سے نجات کا وعدہ فراموش کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی روایت اپناکر اٹھارھویں ترمیم کے تحت ”بجلی پیداوار“ کو صوبائی معاملہ قرار دینے کے ساتھ اس مسئلے کے حل کیلئے سالوں کے سفر کا عندیہ دیکر حکمران و وزیر پانی و بجلی اس حوالے سے اپنی گلو خلاصی کراچکے ہیں اور عوام تا حال لوڈشیڈنگ کا بھیانک عذا ب بھگتنے پر مجبور ہیں جبکہ کاروبارو صنعتوں کی بندش بیروزگاری کی شرح میں کمی کی پالیسی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور ذرعی پیداوار میں کمی مہنگائی روکنے میںحارج ہے جو یقینا قومی خوشحالی کے وعدے کی فراموشی کیلئے بہترین جواز فراہم کررہی ہے ۔

قومی بجٹ میں نئے ٹیکس کے نفاذاور اس کی فوری وصولی کے ساتھ بجلی و پٹرول کی قیمتوں میںاضافے نے عوام کو موجودہ حکومت کی ”آئینی مدت“ کے پیپلز پارٹی حکومت کے دورِااقتدارسے بھی زیادہ تکلیف دہ ہونے کا” سندیس “دیا ہی تھا کہ کشکول توڑدینے اور اداروں کو مضبوط بنانے کے دعویداروں نے نجکاری ‘ نئے ٹیکسوں کے نفاذاور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی شرائط پر آئی ایم ایف سے5کروڑ 30لاکھ ڈالر قرض کا معاہدہ کرکے قوم کو مستقبل کے حوالے سے بالکل ہی مایوس کردیا ہے گوکہ آئی ایم ایف سے قرض معاہدے کی گونج و ارتعاش کی لہروں کو کنٹرول کرنے کیلئے میاں نواز شریف نے اسی وقت میں دورہ ¿ چائنا اور کاشغر تا گوادر(پاک چین راہداری ) ‘کراچی تا پشاور بلٹ ٹرین ‘نیلم جہلم پراجیکٹ اور توانائی کے شعبوں میں” خوبصورت“ پاک چین سمجھوتوں کے ساتھ پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کے ”پتے “بڑی کامیابی سے کھیلے ہیںاور میڈیا و تجزیہ نگاروں کو کئی مختلف سمتوں میں بانٹ دیا ہے مگر اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاک چین سمجھوتوں کی افادیت جس طرح نیک نیتی اور وقت پر تکمیل سے مشروط ہے اسی طرح آئی ایم ایف کا قرض بھی درست پالیسی ‘ دیانتدارانہ استعمال ‘ محاصل کی وصولی اور قرض کی بروقت ادائیگی سے قوم کیلئے مفید ثابت ہوسکتا ہے بصورت دیگرقرض کے باعث سامراج کے سامنے سرجھکائی پاکستانی قوم کو یہ نیا قرض” سجدہ ریز“ ہونے پر مجبور کردے گا جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ قرض کا درست استعمال ہماری روایت میں شامل نہیں ہے اور ہمارا سسٹم ہمیں کمزور عوام پر نت نئے ٹےکس عائد کرنے کی رعایت تو ضرور دیتا ہے مگر طاقتور طبقات سے ٹیکس وصولی کی طاقت ہمیں نہیں بخشتا اسی لئے موجودہ حکومت نے بھی ذراعت پر ٹیکس لگانے سے معذوری کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور طبقات سے ٹیکس وصولی کی بجائے بجٹ میں نئے ٹیکس کا نفاذ ہی بہتر جانا اور اگر یہ روایت برقراررہی تو آئی ایم ایف کا نیا قرضہ بھی اکثریتی عوام کی بجائے اقلیتی حکمرانوں ‘ سرمایہ داروں ‘ جاگیرداروں ‘ زمینداروں ‘ بیوروکریسی اور طاقتور طبقات کی خوشحالی کاباعث بنے گا اور جس طرح کے ای ایس سی کی نجکاری ہوئی ہے اسی طرح مشروط قرض کے اگلی قسطوں کے حصول اور پچھلی اقساط کی ادائیگی کیلئے ریلوے سمیت دیگر کئی محکموں کی نجکاری عمل میں لائی جائے گی جبکہ مہنگائی نے تو قرض کے حصول سے قبل ہی ڈیرے ڈال کر عوام کو اشیائے ضروریات کی قوت خرید سے پہلے ہی محروم کردیا ہے ۔

وعدوں اور دعووں کے سہارے اقتدار میں آنے والے میاں نوازشریف کو اپنے سیاسی رفقاءسے بڑی توقعات وابستہ ہیں اور وہ یہ جان رہے ہیں کہ ” علی بابا “ کی اس ٹیم کا ہر فرد”مرجینا ”جتنا وفادار وہوشیار ہے اور یہ رفقاءعلی بابا کی مقبولیت کو دوام بخشنے کیلئے عوام کو خوشحال اور پاکستان کو پر امن و خوشحال بنانے کے قابل عمل منصوبے پیش کرنے کی اہلیت کے ساتھ ان منصوبوں پر دیانتداری سے عملدرآمد کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان مخصوص رفقاءپر مشتمل وفاقی کابینہ تشکیل دیکرمیاں صاحب بہت تیزی سے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ اسحاق ڈار کی صلاحیتوں پر انہیں اس قدر اعتماد ہے کہ قومی معیشت کی کشتی کو اسحاق ڈار کی تجویز کردہ سمت میں کھینچتے ہوئے انہوں نے پرانے قرضوں کی ادائیگی اور قومی ترقی کیلئے نئے قرض لینے کا فیصلہ بھی کرلیا کیونکہ وہ اسحق ڈار کو دم توڑتی قومی معیشت کا ”مسیحا “ جان رہے ہیں اور اسحا ق ڈار قومی معیشت کو ”بربادی “ کے موذی مرض سے نجات دلانے کیلئے ”جراحت“ کولازم قراردیکر ”آئی ایم ایف “ کے نشتر سے اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قوم کے چارہ گر کی اس چارہ گری کوسلام ضرور پیش کرتے ہیں مگر اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ ”جراحت“ کا عمل جہاں جان بچانے کا سبب بنتا ہے وہیں بسا اوقات دوران جراحت مریض آپریشن ٹیبل پرہی وقت سے قبل بھی زندگی کی بازی بھی ہارجاتا ہے ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147072 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More