نواز شریف بنام پرویز مشرف

نیلسن منڈیلا ۲۷ سال قید میں گزارنے کے بعد جب مسندِ اقتدار پر رونق افروز ہو ئے تو امریکہ کے صدر کلنٹن نے انہیں مشورہ دیاکہ اب تمہیں اپنے مخا لفین سے انتقام لینے کا بہترین مو قع ملا ہے۔نیلسن منڈیلا نے جواب دیا ’جنابِ صدر ! میں اب کسی کے نفرتوں کے جیل میں جانا نہیں چا ہتا۔اس کے بعد نیلسن منڈیلا نے غریب عوام کی فلاح و بہبود اور امن و آشتی کے لئے وہ کام کئے، جنہیں دنیا یاد رکھے گی ۔ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں امن کا نو بل انعام بھی دیا گیا۔

جناب نواز شریف نے بھی تقریبا آٹھ سال جلا وطنی میں گزارے اور قسمت کی دیوی اس پر مہربان رہی ‘ 1913کے عام انتخابات کے بعد وہ ایک دفعہ پھر و زیر اعظم بنے ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام نے ان کی پار ٹی کو اس امید پر ووٹ دئیے کہ وہ ان کے مسائل و مشکلات میں کمی لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرینگے۔جناب نواز شریف نے بھی انتخابی مہم کے دوران عوام کو بار بار یقین دہانی کروئی کہ اگر انہیں مو قعہ دیا گیا تو وہ فوری طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری اور مہنگائی کو کم کرنے کے لئے اقدامات کرینگے۔انہوں نے کشکول توڑنے اور ملک کو اپنے پا ؤں پر کھڑا کرنے کا دعوٰی بھی کیا تھا ۔مگر اقتدار میں آ نے کے بعد انہوں نے جو پہلا کام کیا وہ سابق صدر جنرل (ر) ریٹا ئرڈ پرویز مشرف کو پھا نسی کے پھندے تک پہنچانے کی راہ ہموار کرنا تھی۔ان پر آئین کے آ رٹیکل ۶ کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا اور وہ بھی 12اکتوبر 1999 کے اقدام پر نہیں بلکہ 3نومبر 2007کے اقدام پر۔

اس لئے کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کے اقدام پر اگر ان پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے تو اس میں مو جودہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور دیگر کئی پردہ نشینوں کے نام بھی آ جاتے ہیں ۔جبکہ نواز شریف کا ٹارگٹ صرف پرویز مشرف ہے۔ملک کے دیگر سیاستدان بھی اس معاملہ میں اس کا پورا پورا ساتھ دے رہے ہیں بلکہ تھپکی دے رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک جر نیل کو آ رٹیکل ۶ کے تحت لٹکا یا گیا تو مستقبل میں پھر کسی جرنیل کو یہ جراء ت نہ ہو گی کہ وہ سیا ستدانوں کی حکومت کو ختم کر سکے۔یوں ایک جرنیل کو غداری کا مرتکب قرار دینے اور سزا دینے کے نتیجہ مین ملک پر سیا ستدانوں کا قبضہ مستحکم ہو جائیگا۔پھر وہ اس ملک کے ساتھ جو جی میں آئے، کرتے پھریں انکا ہاتھ روکھنے والا کو ئی نہ ہو گا۔زرداری اور اس کے حواری ملک کو لو ٹتے رہیں یا نواز شریف بھیس بدل کر چور چور کا شور مچاکر ملک کو لو ٹتا رہے کسی سے کو ئی خوف یا ڈر نہیں ہو گا۔ورنہ کون ہے جس نے اس ملک کے ساتھ وفا کی ہے ؟1947سے لے کر آج تک جو بھی آیا ،اس کا جتنا بس چلا، ہاتھ مارا، اور ہمشہ ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی۔بے شک فوجی حکمرانوں سے بھی غلطیاں ہو ئی ہیں مگر سیاستدانوں نے اس ملک کی جھولی کو نسے پھو لوں سے بھر دی ہے؟1947سے 1958 تک سیاستدان ہی اس ملک میں چوہے بلی کا کھیل کھیلتے رہے۔

1972 سے 1977 تک ذوا لفقار علی بھٹو نے حکومت کی اور ’’ادھر تم ادھر ہم ‘‘ کا نعرا لگا کر آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ 1988 سے 1999 تک بینظیر اور نوازشریف باری باری بر سرِ اقتدار رہے اور ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا۔2008 سے 2013 تک زرداری اور اس کے اتحادیوں کی حکو مت رہی۔انہوں نے ملک کا کیا حال کر دیا، اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔قصہ مختصر، اس ملک کیساتھ سیا سدانوں نے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔فوجی حکمرانوں سے غلطیاں ضرور ہو ئی ہیں مگر انہوں
نے ملک کو لو ٹا نہیں ہے بلکہ کچھ دیا ہے مثلا سابق صدر ا یوب خان نے ملک کو تربیلہ ڈیم، منگلا ڈیم اور اس طرح کئی ایسی چیزیں دی ہیں جس سے ہم آج بھی مستفید ہو رہے ہیں۔جنرل ضیائا لحق نے روس جیسے سپر پاور کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔جنرل پر ویزمشرف نے پاکستان کو معا شی طور پر اپنے قدموں پر لا کھڑا کیا تھا۔بے شک ان فو جی حکمرانوں سے غلطیاں بھی ہو ئی ہیں مگر ایسا انہوں نے قصداٌ ہر گز نہیں کیا-

اگر جنرل پر ویز مشرف وطن کا غدار ہے کہ اس نے آ ئین تو ڑا ہے تو کیا وہ لوگ وطن کے غدار نہیں جنہوں نے حلف اٹھا کر آئین سے وفاداری اور ملکی ترقی و خو شحالی کا عہد تو کیا تھا مگر انہوں نے اس ملک کو دونوں ہا تھوں سے لو ٹا، سر ما یہ بیرونِ ملک لے گئے، چو روں اور ڈاکوؤں کی طرح اس ملک کو لوٹتے رہے اور آج حال یہ ہے کہ ہم کچکول ہا تھ میں لئے دنیا بھر میں خیرات مانگ رہے ہیں۔کل کی بات ہے نواز شریف کشکول توڑنے کی نوید سنا رہے تھے اور آج کشکول لئے آئی ایم ایف کی منتیں کر رہے ہیں ،چین سے خیرات مانگنے گئے ہیں،وہاں سے واپسی پر سعودی عرب خیرات مانگنے جا ئینگے اور امریکہ سے خیرات مانگنے کی تو کیا بات ہے ۔انہیں تو ہمارے حکمرانوں نے دل و جان سے اپنا آقا اور کفیل تسلیم کر رکھا ہے۔

کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ نواز شریف پرویز مشرف کو کھڈا کھودنے اور انتقامی سیاست کی بجائے اس ملک کے غریب عوام پر رحم کھا ئیں،جن کے پاس کھانے کو آٹا نہیں، پنکھا چلانے کو بجلی نہیں،پیاز خریدنے کو پیسہ نہیں،بہت مشکل سے تعلیم دلائے ہو ئے گر یجویٹ بیٹے کے لئے روزگار نہیں۔ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ نوازشریف ماضی کو بھلا کر مستقبل کی سو چے اور اﷲ تعالیٰ نے اسے تیسری بار وزیراعظم بننے کا جو  موقع فراہم کیا ہے،اسے ضائع کرنے کی بجا ئے اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہو ئے اﷲ کے بندوں کی بہتری کے لئے استعمال کرے۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 286272 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More