مصر کی آگ

مصر کی فوج نے ملک کی سیاسی تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر اپنے حامیوں پر مشتمل کٹھ پتلی حکومت قائم کردی ہے۔ عالم اسلام کی مایہ ناز اسلامی تحریک الاخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد مرسی نے ایک برس قبل صدارتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد عہدہ سنبھالا تھا۔ مغربی پریس اور ان کے دوست یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ڈاکٹر مرسی عوامی توقعات پر پورا نہیں اترسکے، جس کی وجہ سے لوگ ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، فوج نے تو ملک بچانے کے لیے مجبوراً مداخلت کی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی بتایا جائے ڈاکٹر مرسی کی برطرفی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکاءکی تعداد ان کے مخالفین کے مظاہروں سے زیادہ کیوں ہے؟ اگر لوگ مرسی سے بدظن تھے تو چند ہزار تنظیمی لوگوں کو چھوڑکر پورے مصر کو جشن منانا چاہیے تھالیکن ایسا نہیں ہوا، لاکھوں خواتین، بچے، نوجوان اور بوڑھے مرسی کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے ہیں، حالانکہ انہیں فوج کی جانب سے تشدد کا بھی خطرہ ہے۔ اخوان حکومت سے عوام تو مطمئن تھے، البتہ مسئلہ کسی اور کو تھا، انہی ”اوروں“ نے فوج سے مل کر اسلامی حکومت کو چلتا کردیا۔

الاخوان المسلمون کو عالم عرب کی اسلامی تحریکوں کی جان کہاجاتا ہے۔ یہ جماعت اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتی ہے۔ فرد اور معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومت کا قیام بھی اس کے نصب العین کا حصہ ہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو خطے کے بیش تر ملکوں کے حکمرانوں کو کھٹکتا ہے۔ شاید ہی کوئی عرب ملک ایسا ہو، جہاں اخوان کی فکر سے متاثر افراد نے کسی نہ کسی نام سے تنظیم قائم نہ کی ہو اور انہیں ریاستی جبر کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، آج بھی کئی عرب ممالک میں اخوان المسلمین سے تعلق ہونا ہی جیل جانے کے لیے کافی ہے۔ خود مصر میں جہاں اس جماعت کی بنیاد ڈالی گئی، یہ 1948ءسے سرکاری پابندیوں کی زد میں ہے۔ ہر ڈکٹیٹر اخوان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اس لیے کوئی بھی اس جماعت کو اپنے ملک میں سر اٹھانے کا موقع نہیں دیتا۔

الاخوان المسلمون ریاستی ظلم وجبر کے باوجود ہمیشہ عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہی ہے۔ اس جماعت نے کئی بار انتخابی عمل کا بھی حصہ بننے کی کوشش کی، حکمران اس کی عوامی مقبولیت سے خائف تھے، اس لیے اخوان کو مختلف حیلے بہانوں سے انتخابی عمل سے دور رکھا گیا۔ 2011ءکے آخر میں زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں مصر پر 30 برسوں سے قابض فوجی آمر حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ جس کے بعد عام انتخابات کا اعلان ہوا تو عوامی جوش وجذبے کے پیش نظر اخوان کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنا ممکن نہیں تھا۔ انتخابات ہوئے تو حسب توقع اخوان نے میدان مار لیا اوراخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے۔ بس یہی وہ مرحلہ تھا جس نے پورے خطے میں ”خطرے“ کی گھنٹی بجا دی۔ مخالفین جانتے تھے اگر اخوان کو فری ہینڈ دیا گیا تو وہ اپنے بہترین تنظیمی نیٹ ورک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنان کے ذریعے ایک مثالی حکومت قائم کردیں گے۔ اخوان کی اس کامیابی کا اثر خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑتا اور وہاں کے عوام بھی انگڑائیاں لینے لگتے، ہر طرف سے انقلاب، انقلاب کی صدائیں بلند ہوتیں اور کئی حکمرانوں کے لیے اپنے تخت بچانے مشکل ہوجاتے۔

دوسری طرف بعض عالمی قوتیں بھی اخوان سے خوف زدہ تھیں۔ انہیں معلوم تھا اخوان صرف مصر نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات کرتے ہیں، اگر ان کی حکومت زیادہ عرصہ قائم رہی تو عالمی فورموں پر مسلمانوں کی موثر آواز سامنے آجائے گی۔ چنانچہ اخوان حکومت کے خلاف عالمی قوتوں، خطے کے بعض حکمرانوں اور مصر میں موجود ان کے مہروں نے جو سازشیں کیں، ان کا اصل پس منظر یہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوامی خواہشات نہےں بلکہ عالمی مفادات کی تکمیل کے لیے مرسی حکومت کا دھڑن تختہ کیاگیا ہے۔

اخوان حکومت کوئی پہلی حکومت نہیں ہے جس کے ساتھ عالمی قوتوں نے ہاتھ کیا ہے، بلکہ دنیا میں ہر جگہ اسلامی جماعتوں کا راستہ روکا جاتا ہے۔ الجزائر میں بھی اسلامی جماعت نے 90 فیصد کے قریب ووٹ لے کر تاریخی فتح حاصل کی تھی لیکن فوج کے ذریعے ان کے مینڈیٹ کو کچل دیا گیا۔ حماس فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے مگر اسے کبھی بھی مکمل اقتدار نہےں سونپا گیا۔ خود پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو خفیہ ہاتھوں سے شکایت رہی ہے۔ ایک طرف تو مذہبی جماعتوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ کسی پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی بجائے جمہوری عمل کا حصہ بنیں، انتخابات میں حصہ لیں، لوگ ان کے نظریات سے متفق ہوںگے تو انہیں منتخب کرلیںگے۔ اب مسئلہ یہ ہے مذہبی جماعتیں انتخابی عمل کی طرف آتی ہیں تو ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو بندگلی میں دھکیلا جارہا ہے، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ یہ لوگ اسلامی حکومت کے قیام کے نظریے سے دستبردار ہوجائیں، جبکہ انتخابات کے ذریعے انہےں آگے آنے نہیں دیا جاتا، اب یہ کیا کریں؟

عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے رویے کی وجہ سے نوجوانوں میں طاقت کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تنظیمی اجلاسوں میں ڈنڈے کے استعمال کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ وہ لوگ جو اب بھی پرامن جمہوری طریقے سے اسلامی حکومت کے قیام کے حامی ہیں، ان کی آواز کمزور پڑتی جارہی ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہمیں جو نوجوان ہتھیار اٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں، ان میں بیش تر وہ ہیں جن کی آواز کو جمہوری ”آداب“ کے مطابق نہیں سنا گیا۔ تماشا دیکھیے ایک طرف تو مغرب اور اس کے ایجنٹ مسلم نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کررہے ہیں اور دوسری طرف خود مظلوم اور انصاف وجمہوریت کے علم بردار بھی بنے ہوئے ہیں۔

مصر کی صورت حال نازک ہے، فوج نے عوام کے جذبات کا خون کیا ہے، اب ہر طرف حقیقی احتجاج ہورہا ہے۔ لوگوں نے جمہوریت کا پھل دیکھ لیا، اخوان تو ہمیشہ پرامن رہے ہیں، انہوںنے کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا، مگر اس بار نوجوانوں نے جمہوریت سے مایوس ہوکر ہتھیار اٹھالیے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ سوال تو یہ بھی ہے کیا مصر میں بھڑکنے والی آگ سرحدپار نہیں جائے گی؟

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111011 views i am a working journalist ,.. View More