تحریر: مقدس صدیق (ایم اے اردو)
کسی قوم کی پہچان اپنی اخلاقی و تہذینی اور مذہبی اقدار کے تخفظ سے قائم ہے
اگر کوئی قوم اپنی تہذیب و روایات اور اقدار کا خود اپنے ہاتھوں گلا
گھونٹنے پر آمادہ ہو گئی ہو تواغیار کے گھناؤنے عزم ،ناپاک سازشیں اور خبث
باطن کی چالیں اس کو صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیتی ہیں اسی طرح اگر
کسی قوم کے دل میں اس کی اپنی تہذیب کے بارے میں نفرت کے جذبات پیدا کر دیے
جائیں تو ایسی قوم احساس کمتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کی غلامی پر راضی ہو
جاتی ہے۔یہود و ونصاری ہمارے ازل سے دشمن ہیں اور ابد تک دشمن ہی رہیں گے
کیو نکہ وہ ہمیشہ سے مسلمان قوم کو اپنی چکا چوند سے دماغی طور پر مرعوب
کرنے کی ناپاک چال چلتا آ رہا ہے اس نے نوجوان نسل کو اس قدر اپنا گرویدہ
بنا لیا ہے کہ وہ اپنی تہذیب سے نفرت کا اظہار کر تے ہوئے اغیار کی تہذیب
کو اپنے گلے کا طوق بنا کر فخر محسوس کر رہے ہے ا نہوں نے اس ازلی حقیقت کو
فراموش کر دیا ہے کہ جب کوئی قوم اسلامی تعلیمات سے اپنا رشتہ توڑ کر فحاشی
و عریانی،بے حیائی اور بے راہروی کی دہلیز پر اپنا سر نیاز خم کر دیتی ہے
توزندگی کی اقدار چھن جاتی ہیں ذلت و رسوائی اور غلامی کی زنجیریں اس کا
مقدر بن جاتی ہیں ہم ایک مسلم قوم ہیں ہمارے طور طریقے ،رہن سہن ،رسم و
رواج اور نصب الالعین اسلام کے مطابق ہونا چاہیے کیونکہ اگر ہم اسلامی
تعلیمات کے مطابق نہیں ہوں گے تو ہم اپنی انفرادیت کھو بیٹھیں گے مغربی
تقلید سے بیزار اقبال نگر کے تاجدار فرماتے ہیں
تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں
جہا ں تک مغربی تہذیب و تمدن اور معاشرت کی بات ہے اقبال کو اس کے بعض
عناصر سے سخت اختلاف ہے کیونکہ وہ ہندستان کے لوگوں کے لیے سخت ضرر رساں
خیال کرتے ہیں یہاں پر ان حالات و واقعات کی طرف اشارہ از حد ضروری ہے جب ا
ہلیا ن بر صغیر پر مغربی تہذیب کے اثرات مختلف انداز میں مرتب ہو نا شروع
ہو چکے تھے تو اقبالؒ کے زمانے میں اس وقت برصغیر میں تین طرح سے ردعمل
دیکھنے میں آیاایک وہ طبقہ تھا خود کو آزاد خیال ظاہر کرنے کے لئے اندھا
دھند انگریزوں کی نقالی میں مشغول تھا انہیں اپنی تہذہب سے نفرت ہو رہی تھی
کیونکہ اسے اپنے ارد گرد غربت و افلاس کا دورودررہ دکھائی دیتا تھا دوسرا
وہ طبقہ تھا جس نے اپنی مشرقی تہذیب و تمدن کو جوں کا توں قائم رکھا تیسرا
طبقہ وہ تھا جو مشرق و مغرب دونوں الگ نقطہ نظر سے دیکھتا تھا اقبال بھانپ
چکے تھے کہ مشرقی قوم مغرب کی نقالی کرنا شروع ہو گئی ہے اور ہندستان کے
لوگ جن میں ہندو ،مسلم اور سکھ سبھی شامل ہیں بلا امتیاز انہوں نے اندھا
دھند مغربی معاشرے کے طور طریقوں کو اپنانا شروع کر دیاہے ۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے مشرق اور مغرب کے علوم اور تاریخ کا عمیق نظروں
سے مطالعہ کیا جس سے وہ اقوام کے عروج و زوال کے اسباب سے آگاہ ہوئے اور اس
کے علاوہ وہ یورپ میں قیام کے دوران اپنی آنکھوں سے مغربی تہذیب و تمدن کو
بنظر غائر بھی دیکھ چکے تھے۔ جس کی بدولت وہ دونوں تہذیبوں کے مثبت اور
منفی پہلوؤں کی نس نس رگ و پے سے بخوبی آگاہ ہو چکے تھے چنانچہ فرماتے ہیں
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صبا
وہ اس ابدی حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ جب ایک قوم دوسری قوم کی تہذیب و
معاشرت ،اخلاق اور مذہب پر غالب آ جاتی ہے تو پھر مغلوب قوم کے لیے ان کی
غلامی کی زنجیروں کو توڑنا نا ممکن ہو جاتا ہے تو ان کا کلیجہ اس اندیشے کے
مضطرب غم اور دکھ سے پھٹا جا رہا تھا کہ مغربی تہذیب تو مشرقی تہذیب کو نگل
رہی ہے جو نہ صرف اس کے اخلاق بلکہ اس کی مذہبیت پر بھی غالب آ جائے گی اور
جو عنقریب اس کی علیحدہ پہچان کو مٹا کر اس میں مدغم ہو جایئے گی اورپھر
مال و دولت کی کثرت سے وہ مادی لذات میں اتنا منہمک کر دیا کہ فقط عیش و
عشرت ہی ان کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے جس کے بطن سے ا خلاقی برائیوں
مے نوشی ،فحاشی وعریانی اوررقص و سرود جیسی لعنتوں نے جنم لیا ہے اس کے
علاوہ مذہبی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے وہ روحانی و اخلاقی اقدار مساوات ،بھائی
چارہ اور بے غرضی جیسی خصوصیات سے بے بہرہ ہو کر ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس
میں تباہی وبربادی اس کا مقدر بننے کو بالکل تیار کھڑی ہے اس کی وجہ سے
معاشرے میں توازن برقرار نہ رہ سکنے سے بگاڑ پیدا ہو چکا ہے ا قبال ایسی
زوال آمادہ تہذیب خود ذلت کے گھڑے میں گرتی ہے اور جس کسی تہذیب کی ساکھ
ایسی صورتحال سے دوچار ہو گی اس کا مقدر ناپائید ہونے کے سوا اور کچھ نہیں
ہو سکتا۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
دراصل ہندستان کے نادان لوگوں نے صرف ان اعمال کو اخذکیا جس کی چکا چوند نے
ان کی نگاہوں کو خیرہ کیا تھااور جس کا حقیقی ترقی کی روح سے کوئی واسطہ نہ
تھا اور وہ مغربی ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہو کر مرعوب ہو رہے ہیں
حالانکہ مغرب کی قوت چنگ و رباب میں تھی اور نہ دختران بے حجاب کے رقص و
سرود میں، نہ تو عریاں ساق و قطع موست میں تھی اور نہ ہی لباس کی خاص قطع و
برید میں ۔بلکہ مغرب کی ترقی کا راز حقیقتاً اس علم و ہنر اور سائنسی ترقی
میں کامیابی میں تھا جو قریبا تین سو سالوں کے درمیان ہوئی تھی اور جس نے
مغرب سے جہالت و تاریکی اور غربت و افلاس کا خاتمہ کیا تھا اورپھر انہوں نے
علوم و فنون، صنعت و حرفت،زراعت،میڈیکل اور انجینئرنگ کے میدان میں خوب
ترقی کر لی اس کے صنعت میں اطلاق کے نتیجے میں انہوں نے دنیاوی وسائل پیدا
کر کے اپنے لئے خوشحالی کا سامان پیدا کر لیا یہی تھا ۔یہی وہ تھاجس کی
تابناک کو دیکھ کر اہل مشرق کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔
آج ایک بار پھر تاریخ اسی دور ،واقعے اور اتحاس کو دہرا رہی ہے مشرقی قوم
مغرب کی نقالی میں جن عناصر کو اپنا رہی تھی وہ دراصل مغربی قوم کی زوال
یافتہ ،زوال پذیر معاشرت اور دین سے دوری کی وجہ سے اخلاقی اقدار کے زوال
کی علامتیں تھیں اور اس کا اپنانا آج بھی بد ستور قائم ہے ضرورت اس امر کی
ہے کہ مشرقی قوم مغربی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کرے اور اس کی بے دینی کے
نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرت کی نقالی کرنے سے اجتناب کرے اور ملک میں
ایسے اقدامات کئے جائیں جس کے زریعے سے بے پردگی اوربے حیائی و فحاشی کا
قلعہ قمع کیا جا سکے نوجوان نسل اور عوام کو غلط اور درست کا صحیح شعور عطا
کیا جائے۔ اور اس کے پاس قرآن کی شکل میں جو لائحہ عمل موجود ہے اس کے
مطابق اسلامی طرز معاشرت کو قائم کرنے کی طرف خاص توجہ دی جائے اور اس کی
تعلیمات پر مضبوطی سے کاربند رہ کر اپنے اندر اسلامی اقدار پیدا کرے وہ اس
لیے کہ صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جس میں ظاہری و باطنی دونوں دنیاؤں کی
فلاح کا سامان موجود ہے اور حقیقی ترقی اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ |