لال مسجد کو شاہ فیصل مسجد کے بننے تک انتہائی زیادہ
اہمیت حاصل تھی۔ اس مسجد کا انتظام شعبہ اوقاف کے پاس تھا۔ یہ مسجد سیاسی
اشرافیہ اور غیر ملکی سفیروں کی توجہ کا مرکز تھی۔ اس مسجد سے ملک بھر میں
اسلام پسندوں کو کئی طرح سے تعاون فراہم کیا جاتا رہا۔ جامعہ حفصہ اسلامی
دنیا کے بڑے اداروں میں سے ایک ادارہ تھا، جہاں طالبات کی تعداد چار ہزار
کے لگ بھگ تھی۔ 2005 کے زلزلے میں متاثرین کی بحالی کے لیے جامعہ حفصہ نے
غریب اور یتیم بچیوں کی تعلیم اور کفالت کا فریضہ انجام دیا۔ تین جولائی
2007 سے دس جولائی 2007 تک جو کچھ لال مسجد و جامعہ حفصہ میں ہوا، روح، دل
و دماغ اس سانحہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں، لیکن اس بات پر پوری قوم کا
اتفاق ہے کہ جو ظلم وہاں ہوا وہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہت سے جان سے
گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنادی
گئیں۔ اس سانحہ سے پورا ملک متاثر ہوا۔
اس واقعہ کے وقت عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ معصوم
شہریوں کا قتل خواہ عسکریت پسند کریں یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کریں،
قتل عمد کے ذیل میں آتا ہے، جس نے بھی اس واقعہ میں اعانت کی اسے قانون کا
سامنا پڑے گا۔ عدالت نے آرٹیکل 183 کے تحت حکم دیا کہ سیکورٹی فورسز اور
قانون نافذ کرنے والے ادارے معصوم بچوں اور طالبات کی جانوں کا تحفظ کریں۔
ارد گرد کے علاقوں کے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر غیر ضروری پابندیاں
آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت غیر قانونی ہیں۔ زخمی افراد کو طبی امداد کی
ضرورت ہے، خوراک کی بھی قلت ہے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فراہم کی
جائے۔ سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو لال مسجد و جامعہ حفصہ کی
حدود میں پڑی ہوئی لاشوں کو ہٹانے کی اجازت دی جائے۔ 13 جولائی 2007 کو چیف
کمشنر اسلام آباد نے بتایاتھا کہ کل 112افراد کی جانیں آپریشن میں ضائع
ہوئیں جن میں 10 کا تعلق فوج سے، ایک کا رینجر سے اور 9 سویلین تھے۔ 204
شہری، 41 فوجی اور 3 رینجراہلکار زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اگست
2007 کو حکومت کے بیان کے مطابق ام حسان کی نشان دہی پر جامعہ حفصہ میں
موجود طالبات کی تعداد 1770 اور خواتین اساتذہ کی تعداد 158 تھی۔ 1770
طالبات میں سے 1526 وہاں مقیم تھیں۔ جامعہ حفصہ کی ایک طالبہ نے بیان جمع
کروایا کہ واقعہ میں 400 طالبات کی جانیں ضائع ہوئیں ہیں، جن میں سے 250
طالبات آپریشن کے پہلے دن ماری گئیں۔ اس دن ایک ہزار سے تیرہ سو لاوارث
لڑکیاں جامعہ حفصہ میں موجود تھیں۔ ام حسان کے بیان کے مطابق بھی اس وقت
جامعہ حفصہ میں 1300 لاوارث لڑکیاں موجود تھیں جن کا کچھ پتا نہیں ہے۔ جب
کہ ڈی جی کا کہنا تھا کہ رجسٹر کے مطابق اس وقت صرف سترہ سو طالبات جامعہ
حفصہ میں موجود تھیں۔ تعداد میں فرق کے بعد عدالت نے حتمی رپورٹ جاری نہیں
کی۔ عدالت نے کہا کہ عدالت لال مسجد سے غائب ہونے والے طلبہ کے ورثاءکو
ہدایت کرتی ہے کہ وہ پولیس اسٹیشن آکر ایف آئی آر درج کروائیں۔
حکومت نے ایک بیان جمع کروایا تھا جس کے مطابق 662 مردوں نے خود کو حکام کے
حوالے کیا جن میں سے 604 کو رہا کردیا گیا جب کہ 57 جوڈیشنل حراست میں ہیں۔
خواتین کے بارے میں بتایا گیا کہ 470 خواتین نے خود کو حکام کے حوالے کیا
جن میں سے صرف تین کو زیر حراست رکھا گیا۔ جن کو ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔
70 لاشوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ مزید کہا گیا کہ واحد دستیاب شہادت ام
حسان کی نشان دہی پر جامعہ حفصہ سے حاصل کردہ رجسٹر ہے۔ عدالت نے ”جوائنٹ
انویسٹی گیشن ٹیم“ کو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم
دیا۔ لیگل ایڈ کمیٹی کے ایک ممبر نے سرکاری اداروں کی جانب سے گمشدہ افراد
کی تلاش اور لاشوں کی برآمدگی کی کوششوں پر اطمینان ظاہر نہیں کیا۔ لیگل
ایڈ کمپنی نے ہدایت کی کہ گمشدگان، ہلاک شدگان اور زیر حراست افراد کے
عزیزوں سے تعاون کریں، 9 اگست2007 کو ڈپٹی کمشنر آئی سی ٹی اسلام آباد نے
اپنے بیان میں کہا کہ 60 لاشوں میں سے 35 لاشوں کی شناخت ہوئی، ان میں سے
23 کو ان کے عزیزوں کے حوالے کردیا گیا، 61 افراد عدالت کے حکم سے ریمانڈ
کے تحت زیر حراست ہیں۔ 26 لاشوں کی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کی گئی
ہے۔ 17 اگست انویسٹی گیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اس وقت 61 افراد زیر
حراست ہیں۔ ان میں سے 22 کی رہائی کی سفارش جوائنٹ انویسٹی گیشن نے کی ،جب
کہ 39 افراد مختلف مقدمات میں ملوث ہیں۔
وفاق المدارس نے آئینی پٹیشن نمبر 56/2007 داخل کی، جس میں لال مسجد اور
جامعہ حفصہ میں مسلح افواج کی جانب سے کیے گئے آپریشن کی قانونی حیثیت سے
متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اس کے ساتھ زیر حراست افراد اور 103 لاشوں کے
بارے میں بیان بھی جمع کروایا۔ ان میں سے 87 لاشیں شناخت کے بعد قانونی
وارثوں کے حوالے کی گئیں۔ جب کہ ممبر لیگل کمیٹی نے نشاندہی کی کہ 87 لاشوں
میں سے صرف 75 قانونی ورثا کے حوالے کی گئیں۔ 12 لاشوں کی شناخت کو غلط
قرار دے کر مسترد کردیا۔جبکہ 28 لاشوں کی ابھی تک شناخت نہیں ہوئی۔ عدالت
نے حکم جاری کیا کہ پولیس ان تمام افراد کے ناموں کی تصدیق کرے جو آپریشن
میں معصوم ہونے کے باوجود مارے گئے۔ وفاقی حکومت ہر موت کے بدلے ایک دیت کی
ادائیگی معصوم ہلاک شدگان کے قانونی وارثوں کو ادا کرے۔
4 دسمبر 2012 کو سپریم کورٹ نے رائے دی کہ شکایت کنندگان اور ہلاک شدگان کے
ورثا کی جانب سے الزامات اور جوابی الزامات لگائے گئے ہیں لیکن ان میں سے
کوئی بھی اپنے الزامات کی تائید میں ٹھوس شہادت پیش نہیں کرسکا۔ عدالت نے
کہا کہ ایک کمیشن مقرر کیا جائے جو مندرجہ ذیل شرائط کی روشنی میں اس
معاملے کی تحقیقات کرے۔ سانحہ لال مسجد کے وقوع کے اسباب کیا تھے؟ اس واقعہ
میں کتنے افراد کی جانیں گئیں؟ کیا تمام لاشوں کی شناخت کرکے قانونی
ورثاءکے حوالے کردیا گیا ہے؟ کیا حکومت کی طرف سے قانونی ورثاءکو معاوضہ
دیا گیا ہے؟ کیا ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟ کیا سیکورٹی
ایجنسیوں کے افرادودیگر پر اس کی ذمہ داری عائد کرنا درست ہے؟ کیا کچھ
افراد اس واقعہ کے دوران غائب ہوئے؟ قومی اور بین الاقوامی روزنامہ اخبارات
پر زور دیا کہ وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر حقائق بیان کریں۔24 دسمبر
2012ءکو کمیشن نے شہادتیں لینا شروع کیں اور 22 مارچ تک 155 رضا کاران
شہادتیں، 6 عدد پٹیشنز پر مبنی گواہان اور 94 کمیشن شہادتیں ریکارڈ کی
گئیں۔ کمیشن کے سامنے تحریری بیانات اور ذاتی بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
شہادتیں ریکارڈ کروانے والوں میں علماءکرام، صحافی حضرات، سیاست دان اور
کئی افسران بھی شامل تھے۔
بعض شہادتوں کے مطابق لال مسجد اسلام آباد کے نفاذ کے لیے حکمرانوں کی
پالیسیوں پر تنقیدی رویہ رکھتی تھی۔ مولانا عبداللہ کے بعد ان کے بیٹے
مولانا عبدالعزیز بھی مغربی نظام پر شدید تنقید کرتے تھے۔ غازی عبدالرشید
امن کمیٹی پولیس اسٹیشن آف کو ہسار کے رکن تھے، انہوں نے القاسم فاﺅنڈیشن
قائم کی، گمشدہ افراد کے لیے آواز بلند کی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت
قائم ہوگی، پرویز مشرف2001 تک طالبان کی حمایت کرتے رہے جب امریکا نے
افغانستان پر حملہ کیا اس وقت وہ مخالف ہوگئے۔ غازی عبدالرشید نے پرویز
مشرف کی مخالفت شروع کردی۔
مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں طالبان کا سفارت خانہ
موجود تھا اب وہ کیسے ظالمان بن گئے۔ ہم قرآن و سنت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ جس
کے لیے ہماری پر امن جدوجہد جاری رہے گی۔ آپریشن کے دوران پرویز مشرف نے
اعلان کیا حکومت عسکریت پسند عبدالرشید غازی کو باہر نکلنے کا راستہ فراہم
نہیں کرے گی۔ پرویز مشرف نے الٹی میٹم دیا ”ہتھیار ڈال دو ورنہ مارے
جاﺅگے“۔ غازی عبدالرشید کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے ہتھیار ڈالے تو حکومت
انہیں قتل کروادے گی۔ حکومت نے اسلام آباد میں 80 مساجد اور مدارس کو ختم
کرنے کے نوٹس جاری کردیے تھے، ایک مسجد شہید بھی کردی تھی۔ جس کے بدلے
میںجامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرلیا۔ فروری 2007 کو
پولیس نے 125 طالبات کو گرفتار کرلیا۔ وفاق المدارس نے لائبریری پر قبضہ کو
اچھا نہیں سمجھا۔ 41 علماءکرام کا ایک وفد سرکاری انتظامیہ اور لال مسجد
انتظامیہ سے ملا اور مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کا مشورہ دیا۔ جید
علماءکرام کا وفد ایک بار پھر غازی برادران سے ملا۔ مذاکرات ہوئے، بات چیت
کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مولانا عبدالعزیز نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ
کا مطالبہ کردیا۔ غازی عبدالرشید نے وفاق المدارس کی کوششوں کی تعریف کی۔
ساتھ 6 شہید مساجد کی تعمیر کا مطالبہ بھی کیا۔ حکومت نے الزام لگایا کہ
مولانا عبدالعزیز ریاست میں ریاست بنارہے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز کا کہنا
تھا کہ ان کا ریاست کے اندر ریاست بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مولانا
عبدالعزیز نے اعلان کیا کہ عوام نفاذ شریعت میں ان کا ساتھ دیں۔
چودھری شجاعت حسین نے لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات شروع کیے جس پر مولانا
عبدالعزیز نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر
اس بات چیت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ دکانوں پر حملے یہی عناصر کررہے ہیں
تاکہ مذاکرات ناکام ہوجائیں۔ جامعہ حفصہ کی طالبات نے بیان دیا کہ ان کے
مدرسے کے خلاف آپریشن ہوا تو سخت مزاحمت کریں گے۔ سعودی سفیر سے ملاقات کے
بعد مولانا عبدالعزیز نے بیان دیا کہ ملک میں سعودی عرب جیسا نظام ہی قابل
قبول ہوگا۔ لال مسجد انتظامیہ نے ایک مساج سینٹر سے سات چینیوں کو حراست
میں لے لیا۔ حکومت نے لال مسجد انتظامیہ کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ مولانا
عبدالعزیز کو باہر نکلتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے پہلے غازی عبدالرشید
مسجد و مدرسے کا تمام کنٹرول وفاق المدارس کے حوالے کرنے پر رضا مند ہوگئے
تھے لیکن اس گرفتاری کے بعد دستبردار ہوگئے۔ چودھری شجاعت نے پیش کش کی کہ
غازی عبدالرشید ہتھیار پھینک دیں ان کو کسی ریسٹ ہاﺅس میں بند رکھا جائے گا
لیکن انہوں نے تسلیم نہ کیا۔ گیارہ جید علماءکرام کے ایک وفد نے وزیراعظم
چودھری شجاعت سے ملاقات کی اور لال مسجد میں موجود تمام لوگوں کے لیے معافی
کا اعلان کا مطالبہ کیا۔ لال مسجد انتظامیہ کی سرگرمیوں کی وجہ سے وفاق
المدارس نے جامعہ فریدیہ کا الحاق ختم کردیا۔ ساتھ دینی رہنماﺅں نے حکومت
کو خبردا ر کیا کہ لال مسجد کا محاصرہ پر امن کیا جائے ورنہ ملک میں خانہ
جنگ چھڑ جائے گی۔ |