خدا اور روزے دار میں کوئی دوری نہیں۔

ہمارے شہر میں یکم رمضان کو بارش ہوئی تھی سو موسم بہت خوشگوار تھا اور خدا کے نیک بندوں کا روزہ تھا۔ لیکن عین دوپہر کے وقت گلی میں یکدم شور اٹھا۔لوگوں کے اونچا اونچا بولنےاور آپس میں لڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے گھر سے باہر نکل کر دیکھا کہ کچھ آدمی عورتیں ایک دوسرے پر لاٹھیاں برسا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو بری بری گالیاں دے رہے ہیں۔ عورتیں اور مرد زخمی ہو کر نیچے گر رہے ہیں اور معصوم بچے رو رہے ہیں۔ محلےاور گلی والے چھڑانے جاتے ہیں تو وہ بھی زخمی ہو کر پیچھے ہٹ آتے ہیں۔ حتی کہ ایک گھنٹے کی مار کٹائی کے بعد اور محلے والوں کے بیچ بچاوَ سے یہ جنگ ختم ہوئی۔ اُدھر دوسرے طرف سہانے موسم میں ایک درخت کے نیچے کچھ آوارہ لوگ جوا کھیل رہے تھے۔اسی طرح کچھ دکاندار چیزیں مہنگی کر کے بیچ رہے تھے اور کچھ دودھ بیچنے والے دودھ میں پانی ملا رہے تھے۔ عدالتوں میں لوگ جھوٹی گواہیاں دے رہے تھے اور رشوت خور اہلکار رشوت لے رہے تھے۔ میں نے اپنے پیر سے پوچھا کہ سرکار یہ سب مسلمان ہیں، ایسا کیوں کر رہے ہیں جبکہ سنا ہے کہ ماہ رمضان میں شیطان قید کر دیا جاتا ہے۔ پیر صاحب نے کہا کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ِان لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تھا سو ان کا شیطان کھلا تھا۔ ۔۔اگر وہ روزہ رکھتے تو ان کا شیطان قید ہو جاتا اور وہ ایسے برے کام نہیں کرتے۔ شیطان تو ان لوگوں کا قید ہوتا ہے جو روزہ رکھتے ہیں۔ میرے پیر و مرشد نے فرمایا کہ روزے کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان جب تک بھوکا ہوتا ہے، اس کے ذہن میں کوئی خیال نہیں آتا ماسوائے دو روٹی کے۔ اور جب وہ روٹی کھا لیتا ہے اور اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو پھر اس کو سیاست اور دوسرے شیطانی خیالات آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے روزہ فرض کیا گیا ہے تاکہ لوگ متقی و پرہیز گار بنیں اور تزکیہء نفس کریں۔ پیر و مرشد نے مزید بتلایا کہ انسان میں حیوانیت اور درندگی پائی جاتی ہے اور روزہ انسان کی حیوانیت اور درندگی کم کر کے انسان کو صحیح انسان بناتا ہے۔ سو روزےدار انسان نہ کسی سے لڑتا ہے، نہ گلہ و خوشامد کرتا، اور نہ ہی جھوٹ بولتا اور نہ ہی گالیاں بکتا ہے۔اسی طرح روزے دار انسان نہ جھوٹی گواہی دیتا ہے اور نہ رشوت لیتا ہے۔ وہ اشیائے ضرورت میں نہ تو ملاوٹ کرتا ہے اور نہ ہی انہیں مہنگا کر کے بیچتا ہے۔ پیر و مرشد نے مزید سمجھایا کہ اگر بھوک نہ ہو تو کھانے کا کوئی مزہ نہیں آتا چاہے سامنے من پسند سے من پسند کھانا ہی کیوں نہ پڑا ہو۔اگر محنت مشقت کی تکلیف نہ اٹھائی ہو تو آرام کی کیا خوشی۔ اگر روزے نہ رکھے ہوں تو عید کی خوشی کیا ہو گی؟ اسی طرح اگر نماز نہ پڑھیں اور ذکرو اذکار نہ کریں تو روح کو کوئی خوشی نہ ہو گی ۔اور اگر نبیوں رسولوں کے بتائےہوئے کام نہ کیے تو ان کے ساتھ کیسے ملیں گے اور جنت میں کیسے جائیں گے؟

میں نے کہا کہ حضور،جو شخص روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو وہ غریبوں،مسکینوں کو کھانا کھلائے اور خیرات کرے تو ٹھیک نہیں ہے؟ پیر نے کہا، ہاں ٹھیک ہے۔صدقہ خیرات اور نیکی بھلائی کرنے والاخدا کی راہ میں ہوتا ہے اور جہنم سے دور ہوتا ہے۔اور روزہ رکھنے والا ایسا ہوتا ہے جس نے خدا کو پالیا ہو اور اس کا دیدار کر رہا ہو۔ اور ہر برائی اور ہر خواہش کو چھوڑ کر خدا کا بن کر رہ گیا ہو۔ اس لیے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کی جزا ہوں۔ یعنی جس نے روزہ رکھا وہ صحیح انسان بن گیا اور اس نے خدا کو پالیا۔ روزے دار خدا کا ہوتا ہے اور خدا روزے دار کا۔اسی لیے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا ہے کہ افطاری کے وقت جو دعا بھی روزہ دار مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے۔
 
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 51992 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More