پاکستان - زرعی ٹیکس اور بے چارہ شوکت ترین
(M. Furqan Khan, Karachi)
بلاخر وزیراعظم کے مشیر برائے امور خزانہ شوکت ترین نے اقبال جرم کر لیا ہے کہ
زراعت کو منافع بخش بنائے بغیر زرعی ٹیکس عائد نہیں کیا جاسکتا اس بات کا انکشاف
انہوں نے ہفتے کے روز لاہور پریس کلب میں فیپ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر کیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مملکت خداداد پاکستان میں زرعی ٹیکس اور وہ بھی وڈیروں
جاگیرداروں کے رہتے ہوئے اور وہ بھی ان کے سیاست میں رہتے ہوئے ممکن ہے۔
پاکستان کی سیاست ہو یا افسر شاہی، افواج پاکستان ہوں یا خدام پاکستان سب کے تانے
بانے اور ڈانڈے اگر دیکھنے ہوں تو سب کی تحقیق کر گزرو سب کا تعلق وہیں سے نکلے گا
جہاں جاگیرداروں اور وڈیروں کے گھر ہونگے۔ بہت سے پردہ نشینوں کے بارے میں ہمیں پتہ
بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی جاگیردار گھرانوں سے تعلق رکھتے ہونگے مگر وہ رکھتے ہیں۔
اور ملک کی بدنصیبی اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جاگیردار اور زراعت سے وابستہ
ایک بڑا طبقہ زراعت کے سبب بے پناہ روپیہ پیسا بنانے پر لگا پڑا ہے اور اگر ٹیکس
لگے تو ان پر لگے گا کسی کمی کمین یا مزارعے پر تھوڑا ہی لگے گا مگر کب اور کیسے
لگے گا یہ ایک لاحاصل سوال ہے جس کا جواب نا میرے پاس ہے اور نا کسی اور کے پاس۔
یہ بے چارہ شوکت ترین ایک بینکر سمجھ رہا تھا کہ وہ مشیر خزانہ ہے تو اسکے مشورے سے
خزانے کے متعلق فیصلے اور کام ہونے ہیں مگر اس کو اپنی اوقات اب پتہ چل گئی ہوگی
اور چونکہ ہماری قوم سے ہی تعلق ہے شوکت ترین کا چنانچہ بے غیرتی کے سبب اپنے
اختیارات اور اپنے فیصلوں پر عمل نہ ہو سکنے کے نتیجے میں استعفی جیسی غیرت کا
مظاہرہ کیسے کر سکے گا۔ ہاں ایک بات اسکے اختیار میں ضرور ہوگی کہ جاگیرداروں اور
وڈیروں کو چھوڑ کر عوام پر جتنا سیلز ٹیکس لگا سکتے ہو لگا گزرا اور یہ تو ہوتا
رہتا ہے اور مزید بھی ہو جائے گا۔ |