دو دن پہلےمیرئے ایک دوست کے
صابزادئے شکیل بہت عرصے بعدایک کام کے سلسلے میں میرئے گھر آئے تو خیریت کے
ساتھ ساتھ دوسری باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ شکیل 1980 میں کراچی میں پیدا
ہوا تھا۔ میں شکیل کو بتانے لگا کہ میری اور اُسکے والد کی دوستی بہت پرانی
ہے ،ہم دونوں ہی کراچی میں پلے بڑھے ہیں۔ پھر میں نے اُس سے کراچی کا ذکر
شروع کردیا اور کہنا شروع کیا کہ کراچی روشنیوں اورامن کا شہر تھا، کراچی
بڑاغریب پرور شہر تھا، یہاں ہر ایک کو روزگا ر کی آسانیاں تھیں، کراچی رات
کو بھی جاگتا تھا، اگر آپ کو رات کو گرم کھانا کھانے کا دل چاہے تو رات کے
تین بجے گرما گرم روٹی اور نہاری مل جاتی تھی۔چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت
کراچی کے کسی بھی علاقے میں جہاں آپکا دل چاہے یا کوئی کام ہو آپ جاسکتے
تھے۔ ایک ہی محلے میں مختلف زبانیں اور مختلف عقائدکے لوگ امن وامان سے
رہتے تھے، ایک دوسرئے کی خوشی اور غم میں رشتہ داروں کی طرح شریک ہوتےتھے۔
ابھی میں کراچی کے بارئے اور بھی کچھ کہنا چاہتا تھا کہ شکیل کے صبر کا
پیمانہ لبریز ہوگیا اور مجھ سے احتجاج کے انداز میں کہنے لگا انکل شاید آپ
مجھے مائی کلاچی کے زمانے کی تاریخ سنا رہے ہیں جس کو آپ کراچی کہتے ہیں
اور جس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں، میں تو اٹھارہ ملین کی آبادی کےاس شہر "لاوارث
کراچی" میں رہتا ہوں اوراگر آج ان خوبیوں میں سےجو آپ نے بیان کی ہیں ایک
بھی موجود ہو تو بتادیں۔ میں آج گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کوئی
مجھے لوٹ نہ لے، کوئی ٹارگیٹ کلر مجھے اپنا نشانہ نہ بنالے، کسی بازار میں
کوئی خودکش حملہ آور نہ آجائے، کسی مسجد میں نمازکےلیے جاتاہوں تو بم
دھماکے کا خوف رہتا ہے، کسی بس میں سفر کرتا ہوں تو خوف رہتا ہے کہ اس کا
گیس کا سلنڈر نہ پھٹ جائے، کسی ایسے علاقے میں نہیں جاتا جہاں دوسری زبان
بولنے والے رہتے ہوں، ڈرتا ہوں مجھے میری زبان کی بنیاد پر نہ مار دیں، اور
کسی دوسرئے عقیدئے والے کو اپنے عقیدہ کا پتہ نہیں ہونے دیتا کہ کہیں وہ
مجھ کو مارکر جنتی نہ ہوجائے۔ آج میرئے اس شہر "لاوارث کراچی" کا حال یہ ہے
کہ جس کی جب مرضی چاہے چند غنڈوں سے ہوائی فائرنگ کرواکر بازار بند کرادیتا
ہے، آپ رات کو گرم کھانا کھانے کی بات کرتے ہیں یہاں کبھی کبھی دن میں بھی
آٹا نہیں ملتا۔ ہرطرف موت کا رقص ہے، ہر آنکھ اشک بار، ہر دل غم زدہ ہے،
مرنے والے کو نہیں پتہ اسے کیوں مارا گیا، اب تودرندوں سے نہیں انسانوں سے
خوف آتا ہے۔ یہ شہر جس کے ماضی کو آپ دودھ اور شہد کی بہتی نہروں سے تشبیہ
د ئے رہے ہیں آج اس میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، شہر کا کوئی ایسا گھر
نہیں جس کے مکین راستوں میں لیٹروں اور گھروں میں ڈاکوں سے نہ لٹے ہوں، یا
پھر کوئی غیر فطری موت کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ اور اگر خوقسمتی سے ایسا نہ
ہوا ہوتو اُنکے عزیزوں اور دوست احباب میں ایسے ضرور موجود ہونگے۔
ابھی میں شکیل کی باتوں پر غور ہی کررہا تھا کہ وہ پھر مجھ سےمخاطب ہوا اور
کہنے لگاآپ جس کراچی کی بات کررہے ہیں اُس میں آپ جب بھی قبرستان گے ہونگے
تو آپکو قبرستان کا ایک بڑا حصہ خالی ملا ہوگا مگر اب میرئے شہر"لاوارث
کراچی" میں قبرستان آباد ہوگئے بلکہ کم پڑ گے ہیں، کپڑئے میں لٹھے کا
کاروبار سب سے زیادہ ہورہاہے، گورکنوں کے گھر خوشحالی آگئی ہے، مردہ خانے
کم پڑ گئے ہیں،گھر ویران اور سستے مگر قبروں کی قیمتیں چار گنا ہو گئی ہیں۔
ویسے تو پورا شہر ہی ایک آفت زدہ شہر بنا ہوا ہے جہاں موت کا رقص ہر روز
ہورہا ہے۔ ابلیں بھی حیران اور پریشان ہوگا کہ یہ کون ہیں جو میرا کام مجھ
سے زیادہ کررہے ہیں۔میں اِسی آفت زدہ شہر "لاوارث کراچی" کے صرف ایک علاقہ
لیاری کے بارئے میں آپکو بتاتا ہوں جہاں آج حکومت کی کوئی عملداری نہیں ہے۔
لیاری کراچی کا ایک بہت پرانا اور بدنصیب وہ علاقہ ہے جہاں اکژیت میں غریب
لوگ رہتے ہیں۔ لیاری کے 11علاقے آگرہ تاج کالونی، بہار کالونی ، رانگیواڑہ،
سنگولین، علامہ اقبال کالونی، چاکیواڑہ، شاہ بیگ لین، دریا آباد، نوا آباد،
کھڈا میمن، بغدادی ہیں۔ آپ ان میں سے کسی علاقے میں بھی چلے جایں آپکو ہر
طرف غربت، جہالت اور لاچاری دیکھنے کو ملے گی۔ ویسے تو پورے پاکستان کا ہی
کچھ نہیں بدلا بلکہ پاکستان پیچھے چلا گیا مگر آج جو لیاری کا حال ہے اُس
پر ہر پاکستانی کو فکر ہے۔لیاری میں جرائم پیشہ عناصرتو ہمیشہ سے ہی رہے
ہیں مگر آج جیسی صورتحال کبھی نہ تھی۔ سندھ کےسابق صوبائی وزیرداخلہ
ذوالفقار مرزا نے لیاری پر جو کمال مہربانی کیا آج لیاری میں رہنے والے اُس
کی بھرپور قیمت ادا کررہے ہیں۔رحمان ڈکیت جیسے لوگ ذوالفقار مرزا کی ہی
پیداوار ہیں اور گینگ واربھی ان ہی کی مہربانی ہے۔ جب سے سندھ میں مئی 2013
کے انتخابات کے بعد حکومت قائم ہوئی ہے، پورئے شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور
لیاری میں گینگ وار بڑھ گیں ہیں۔ یوں تو لیاری میں رہنے والا ہر شخص ہی
پریشان ہے مگر اس مرتبہ بڑھتے ہوئےتشدد کا سب سے زیادہ شکار کچھی برادری کے
لوگ ہوئے ہیں۔ ہزاروں پریشان حال لوگ اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی
بچانے کےلیےنہ صرف دوسرئے علاقوں میں چلے گے ہیں بلکہ سینکڑوں ایسے ہیں جو
یا تو شہر چھوڑ کرچلے گئے ہیں یا جارہے ہیں۔ کچھی برادری کے بدین میں 450
اور بھنبور میں 150 افراد موجود ہیں جو لیاری سے نقل مکانی کرکے وہاں پہنچے
ہیں، ان میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ان کے
گھروں پر حملے ہوئے ہیں اور حملہ آور لوگوں کے گھروں کو بھی مسمار کررہے
ہیں۔ لیاری سے سینکڑوں افراد کا دوسرئے شہروں کو چلاجانا اس بات کی نشاندہی
ہے کہ اُن مظلوموں کا اب اس شہر میں کوئی وارث نہیں، اور اگر اس رسم کو
ابھی نہ روکا گیا تو آج لیاری تو کل کسی دوسرئے علاقے کی باری ہوگی۔ یہ کہہ
کر شکیل جانے کےلیے کھڑا ہوا اور مجھےکہنے لگا انکل یہ تو صرف کراچی کے ایک
علاقے کی صورتحال ہے ، باقی کراچی کا حال چاہے وہ اورنگی ہویا پٹھان کالونی،
ملیر ہو یا لانڈہی سب کی صورتحال لیاری سے ملتی جلتی ہی ہے ، اس لیےآپ اسے
کراچی کہیں مگر جب لوگ اپنا شہر چھوڑنے پر مجبور ہونگے تو میں آپکے کراچی
کو "لاوارث کراچی" کہونگا۔
مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سپریم کورٹ نےقائم علی شاہ کی
حکومت کو نا اہل قرار دیاتھا، اگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہوتی
تو شاید سندھ میں گورنر راج آجاتا۔ بدنصیبی سے سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی
پانچ سالہ بری کارگردگی کے باوجود دوبارہ سندھ میں برسراقتدار ہے اورقائم
علی شاہ ہی وزیراعلی ہیں۔ قائم علی شاہ کی گذشتہ 5سال میں جو کارکردگی رہی
ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ سندھ کے بڑے شہروں کے لئے کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ
نہیں بنایا۔ امن و امان کی صورتحال بدترین رہی۔ اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے
کراچی سر فہرست ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر صرف 2012 میں 2300 افراد کو ٹارگٹ
کِلنگ کا نشانہ بنایا گیا، کرپشن عام رہی۔ رشوت لے کر نوکریاں دینے کا رواج
عام رہا۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اسکا وہ برا حال ہے کہ یہ شہر جو
کبھی امن کا گہواراہ تھا آج لاقانونیت اور لاشوں کا شہر بن چکا ہے۔ قائم
علی شاہ کےپانچ سالہ دور میں کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ سے پانچ
ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان اس شہر میں
عام بات تھی اور اب بھی ہے۔ سرکاری اور فوجی املاک پر حملے ، فرقہ وارانہ
نفرت ، بے روز گاری اور مہنگائی اس حکومت کے تحفے تھے جو اب بھی جاری ہیں ۔
کراچی کے ان حالات کی ذمیدار نہ صرف پیپلز پارٹی کی حکومت ہے بلکہ وہ تمام
سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتیں ذمیدارہیں جو اس شہر کی سیاست میں شامل ہیں۔
ان میں ایم کیوایم پر سب سے زیادہ ذمیداری ہے، کچھ حلقوں کی طرف سے کہا گیا
ہے کہ لیاری کی بدامنی میں ایم کیوایم بھی ذمیدار ہے مگر ایم کیوایم اس سے
انکاری ہے، برحال نہ صرف ایم کیوایم بلکہ جماعت اسلامی، اے این پی، تحریک
انصاف اور باقی دوسری جماعتوں کی ذمیداریاں کم نہیں ہیں۔ نواز شریف اورقائم
علی شاہ کو کراچی چھوڑ کر بدین جانے والوں کا خیال جب آیا جب ملکی اور غیر
ملکی میڈیا میں یہ خبر سرفہرست بن گی۔ لاقانونیت کا شکار یہ شہر جب تک
بدحالی کا شکار رہے گا جب تک صاحب اقتدار اس شہر کو سیاست سے بالاتر ہوکر
اس کا علاج نہیں کرینگے، کڑوی گولیاں نگلیں پڑینگی تب ہی علاج ہوگا۔ وہ
سریلے ترانے جو یہ کہتے تھے کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی پتہ نہیں کس نے کہے
تھے۔اب بھی مرکزمیں موجود مسلم لیگ ن اور سندھ میں موجود پیپلزپارٹی نے اس
شہر کے لیے کچھ نہ کیا تو پھر اس شہرپر دہشت گردوں، ٹارگیٹ کلرز، بھتہ
خوروں، اسٹریٹ کرمنلز، ڈاکوں اورڈرگ مافیا کا راج ہوگا۔ پھر صرف لیاری نہیں
پوری کراچی میں گینگ وار ہونگیں اور کراچی کا کوئی شہری محفوظ نہیں ہوگا،
اللہ نہ کرئے اگر ایساکچھ ہوا تو پھر اس شہرکو کراچی نہیں بلکہ "لاوارث
کراچی" کہنا بہتر ہوگا۔ |