زرداری حکومت کے وقت زر
باباچالیس چور اور کشکول توڑنے کے فلک شگاف نعرے عوام کی چیخیں نکلوا رہے
ہیں۔آئی ایم ایف سے سود پر قرضہ حاصل کر لیا گیا ہے ایک تو اﷲ اور اس کے
رسولﷺ سے جنگ جو پہلے سے جاری تھی اور اب بھی ہمارے سرمایہ دار وزیرخزانہ
نے اس سود کی جنگ کو مزید تسلسل دے دیا ہے اور عوام کو خوشخبری یہ سنائی ہے
کہ یہ قرضہ آپ کا قرض چکانے کے لئے لیا گیا ہے ۔قوم تو پہلے ہی اس سودی آئی
ایم ایف کے نرغے میں تھی اور اب ڈار صاحب بھی ڈرا رہے ہیں۔ڈار صاحب دو
مرتبہ پہلے بھی اس وزارت پر اہلیت دکھا چکے ہیں ان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ
پہلے والا کام تیسری مرتبہ لے رہے ہیں۔اسحٰق ڈار صاحب قرض لینے سے پہلے
عوام کو خوشخبری سنا رہے تھے کہ قرضہ لیں گے اورآئی ایم ایف سے اپنی شرطیں
بھی منوائیں گے اب ان شرایط کا عوام کو پتہ نہیں ہے کہ کون سی عوامی شرطیں
تھیں جو ڈار صاحب بڑے فخر سے فرما رہے تھے لیکن اتنا معلوم ہوا کہ آئی ایم
ایف کی شرائط کو تسلیم کرکے عوام کی لاڈلی ’بجلی‘کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان
کردیا گیا ہے وہ بجلی جو بیس بیس گھنٹے غائب رہتی ہے جو اب کسی کام کے نہیں
ر ہی ۔ٹیکس بڑھایا تب بھی یہی توانائی بحران کو حل کرنے کے لئے اب یہ سود
لیا جارہا ہے یہ بھی اسی مسئلے کے لئے لیکن نہ ہی کوئے لوڈ شیڈنگ میں فرق
ہورہا ہے اور نہ کوئی مستقبل میں اچھی امید نظر آرہی ہے۔معاشی ماہرین کے
مطابق اب پاکستان کا ہر پیدا ہونے ولا بچہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض
ہوگا یہ سمجھیں ان حکمرانوں کی سزا آنے والے بچوں پر بھی نافذالعمل ہوگی۔
اب یہ دیکھیں صبح سے شام تک ہمیں کتنے بھیکاری ملتے ہوں گے لیکن جب وہ بھی
بھیک مانگتے ہیں تو ان کو چہروں پر شرم عیاں ہوتی ہے خدا کا غضب یہ ہے کہ
ہمارے حکمران قرضے کی صورت میں یہ بھیک مانگ کے بالکل ہشاش بشاش نظر آرہے
ہوتے ہیں ا ن کے چہروں سے خوشیاں ’پھوٹ‘ رہی ہوتی ہیں۔اگر یہ کچھ کرنا تھا
تو عوام کو جھوٹ بول کے ’جہاز‘ کیوں بنائے رکھا۔قرض لینے کے بعد ڈار صاحب
یہ کہتے ہیں کہ اسکا بوجھ عام عوام پر نہیں ہوگا تو بھائی کوئی ان سے پوچھے
یہ کون ادا کرے گا؟ صاحب نے جس طرح بجٹ میں حاجیوں پرٹیکس لگا کے کہا یہ
ٹیکس حاجیوں پر نہیں ہے بلکہ ٹور آپریٹرز پرہے اسے ڈھٹائی ہی کہیں گے ۔دراصل
اہمارے حکمران جیسے ہی اقتدار حاصل کرتے ہیں تو اس وقت میکاولی کے فلسفے کو
ضرور یاد کر کے پارلیمنٹ میں حاضر ہوتے ہیں۔یہ میکا ولی اطالوی مفکر تھا یہ
پندھرویں صدی کا مشہور مفکر گزرا ہے اس نے اپنے فلسفے میں اخلاقیات کو
سیاست سے الگ کر دیاتھا۔میکاولی کہتا ہے کہ ’’ریاست کا انصاف وہی ہے جس میں
حکمران کا فائدہ ہو‘‘۔یہ سمجھیں میکاولی نے حکمران کے لئے جھوٹ ،فریب،دھوکہ
اور منافقت کو جائز قراردیا ہے۔بطور طالبعلم سیاسیات جب ہم نے میکاولی کے
نظریات اورافکار پڑھے تو ہمیں یوں لگا کہ ہمارے سیاستدان ان پر مکمل عبور
رکھتے ہیں کیونکہ نہ ہی کسی کو اﷲ کا خوف اور نہ کسی کے اندر انسانیت ہے۔ہر
روز لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی حضرت
عمرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے
تو عمرؓ ذمہ دار ہونگے بطور مسلمان یہ کچھ توسوچیں کہ یہ جمع ہونے والا مال
قبر میں سانپ اور بچھو بن کر آئے گا۔
اب ڈار صاحب اور ان کے رفقاء باربار عوام کوصبر کی تلقین کر رہے ہیں آخری
حکومت نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور عوام بیچاری نے ذلیل ہو کے یہ صبر والا
کام ’ثواب‘ کی نیت سے کرلیا اور کر بھی کیا سکتی ہے۔عرب قوم کی طرح ابھی تک
بیدار بھی نہیں ہوئی کہ ان حکمرانوں کے درودیوار ہلا دے لیکن اب امیدیں اس
طرف جارہی ہیں ۔عمران خان صاحب نے نوجوانوں کو ساتھ ملایا لیکن الیکشن کے
بعد ان کے ایک وزیراعلیٰ صاحب نے بھی شہباز شریف کے نقش قدم پر چلنے کا
ارادہ کیا ۔پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ صاحب سچ کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں
کشکول چھوٹا ڈیڑھ فٹ چوڑا تھا اور اب ڈیڑھ میٹر چوڑا ہے۔لگتا ہے کہ اسحٰق
دار صاحب نے یہ اسپیشل کشکول پچھلے پانچ سالوں میں تیار کروا رہے تھے جو اب
نکالا گیا اور اس کے لئے کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔اب جس ٹائم بھی ٹیلیویژن پر
وزیرخزانہ صاحب تشریف فرما ہوتے ہیں تو ایک خوف سا طاری ہوجاتا ہے ۔ڈار
صاحب سے بس یہی التجا ہے کے اب قوم مزید صبر سے عاری ہوچکی ہے اسے دکھوں
اور خودکشیوں پہ مجبور نہ کیا جائے اور جو قرض لیا ہے اس کا صحیح استعمال
کیا جائے اور ملک کو اس آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکالنے کے لئے ایسے
اقدامات کئے جائیں جس سے ملک مزید دیوالیہ ہونے سے بھی بچ جائے اور ملک کی
معیشت بھی مضبوط ہوجائے۔ |