جِنّات کا سا حوصلہ درکار ہے جناب

مہنگے کپڑے، شاندار گاڑیاں اور ہر وقت مَکّھی کی طرح منڈلانے والے خوشامدی ہی نہیں، لیڈر کی اور بھی بہت سی نشانیاں ہوا کرتی ہیں۔ اور یہ بات ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا کیونکہ اب ہم میں لیڈر تو رہے نہیں، صرف نشانیاں رہ گئی ہیں!

انتخابی نتائج نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کی ترجیحات یکسر تبدیل کردی ہیں۔ کل تک شریف برادران میں زمانے بھر کی خامیاں، خرابیاں اور بُرائیاں پائی جات تھیں۔ اور تقریباً اِتنی ہی تعداد اُنہیں مطعون کرنے والوں کی بھی تھی! وہ زمانہ ہوا ہوچکا ہے۔ اپ ڈیٹ یہ ہے کہ بہت سے لِکھنے اور بولنے والوں کی نظر میں اب میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے بڑی ہستیاں پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتیں۔ وقت کے ساتھ اپنا لہجہ بدلنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر جناب! ایک رب کی عبادت کرنے والے اُسی کی قدرت کے ایک مظہر یعنی سُورج کو چڑھتی حالت میں پُوجنے سے باز نہیں آتے۔ جس طرح سیاسی جماعتیں اقتدار کی ٹرین میں ریزرویشن کے لیے بے تاب رہتی ہین بالکل اُسی طرح بہت سے اخباری لِکھاری بھی چاہتے ہیں کہ شاہ کے مصاحبین میں شُمار ہوں اور اِتراتے پھریں! تحریر کا لہجہ بدلتا جارہا ہے۔ ممکن ہے آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ لہجہ بدلنے اور بندر کی طرح قلابازی کھانے میں تو بہت فرق ہوتا ہے۔ اِن دونوں معاملات کو خلط ملط تو نہ کیا جائے!

آمدم برسرِ مطلب۔ تہمینہ دولتانہ نے لوڈ شیڈنگ کے جِن کو یہ کہتے ہوئے ڈرایا ہے اُسے بوتل میں بند کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس بھی ایک جِن ہے جس کا نام شہباز شریف ہے! اِس بات کا لوڈ شیڈنگ کے جِن نے بُرا مانا ہو تو مانا ہو، شہباز شریف نے ذرا بھی بُرا نہ مانتے ہوئے جتادیا کہ اب وہ سیاست سیکھ گئے ہیں! اخبار نویسوں نے جب تہمینہ دولتانہ کے بیان کی طرف توجہ دِلائی تو شہباز شریف نے خود کو جِن تسلیم کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ بُھوت ہرگز نہیں ہیں!

ہم سمجھ نہیں پائے کہ چھوٹے میاں صاحب کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ خود کو بُھوت قرار نہ دیں! ہوسکتا ہے اُن کے ذہن میں یہ بات رہی ہو کہ جِن تو اللہ کے کلام میں بھی مذکور ہیں اِس لیے لوگ اُنہیں کِسی نہ کِسی طرح قبول کرلیتے ہیں، بُھوتوں کو قبول نہیں کرتے کیونکہ وہ چمٹ جاتے ہیں! اور شاید شہباز شریف نے یہ بھی سوچا ہو کہ خود کو بُھوت یعنی ghost سمجھنے سے گریز ہی بہتر ہے کیونکہ ریاستی مشینری میں پہلے ہی اچھے خاصے ghosts موجود ہیں جو سرکاری وسائل شیرِ مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں! یہی سبب ہے کہ سرکاری دفاتر کا ماحول خاصا ghostly دِکھائی دیتا ہے! کہیں کہیں تو اِتنے اُلّو بول رہے ہوتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے شاید سِفلی عُلوم والوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں! عوام کا پسندیدہ شغل اب یہ رہ گیا ہے کہ قومی وسائل شیرِ مادر کی طرح پینے والوں کو دم بخود ہوکر دیکھیں اور دِل مسوس کر رہ جائیں۔

ہوسکتا ہے شہباز شریف نے خود کو بُھوت قرار دینے سے اِس لیے بھی گریز کیا ہو کہ مصاحبین بننے کے خواہش مند بھوت بن کر اُن سے چمٹنے سے گریز کریں! آج کل لوگ مصاحبین کی صف میں شامل ہونے کے لیے اُتاولے ہوئے جارہے ہیں اور وہی دَھکّم پیل نظر آرہی ہے جو لنگر کی تقسیم کے وقت مزارات پر دِکھائی دیا کرتی ہے!

ایک زمانے سے ایوان ہائے اقتدار بُھوت بنگلوں کی سی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اِن کے مکین ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ آئیں بھی کیسے؟ اِن کے اطوار خاصے مافوق البشر قسم کے ہوتے ہیں۔ آسیب زدہ عمارتوں کے باسیوں کی طرح ایوان ہائے اقتدار کی مخلوق بھی عوام تک آنا پسند نہیں کرتی اور یہ بات بھی وہ سخت ناپسند کرتی ہے کہ عوام اُس تک پہنچیں!

حالات کی چَکّی میں پِسے ہوئے عوام کی حالت تو یہ ہے کہ ایوانِ صدر یا وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے سے گزرنا ہو تو تیزی پکڑتے ہیں۔ اور وہ تیز نہ بھی ہوں تو سیکیورٹی والے تیزی سے گزرنے پر مجبور کردیتے ہیں! اقتداری بُھوت بنگلوں کے مکین اگر اِنسانوں میں آنا، اُن کے دُکھ درد جاننا اور اُن کے مسائل حل کرنا صرف ناپسند نہیں بلکہ اپنی شان میں گُستاخی تصور کرتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ روش بھی مفادِ عامہ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اختیار کی گئی ہو۔ اقتدار کی ٹرین میں سوار ہونے والوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر عوام کے دِل مزید کُڑھیں گے۔ عوام کو تکلیف سے بچانے کے لیے اگر اہلِ اقتدار اُن سے دور رہتے ہیں تو یہ کچھ زیادہ قابلِ مذمت بات نہیں۔ اچھا ہوا کہ تہمینہ دولتانہ نے ہمیں بتادیا کہ جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے اُنہیں جِن سمجھ کر اُن سے دور رہا جائے۔

مسلم لیگ (ن) مرکز میں تیسرا حکومتی سفر شروع کرچکی ہے۔ اِس بار واقعی جِنّاتی نوعیت کے چیلنج درپیش ہیں۔ پہاڑ کا سا حوصلہ درکار ہے۔ دس بارہ برس میں جس آوے کو مزید محنت اور انہماک سے مزید بگاڑا گیا ہے اُسے سنوارنا اِنسانوں کے بس کی بات نہیں۔ ایسے میں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جو خود کو جِنّات سمجھ کر کام کریں۔

اگر شہباز شریف نے تہمینہ دولتانہ کی بات کا بھرم رکھتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کے جِن کو بوتل میں بند کرلیا تو سمجھ لیجیے قوم کی نَیّا پار لگادی۔ پھر جو چاہیں گے، قوم دے گی۔ لوڈ شیڈنگ کے جِن کا بوتل میں بند ہو جانا مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت سے دروازے خاصی آسانی سے کھول دے گا۔ شہباز شریف ایک زمانے سے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے جِنّاتی نوعیت کے کام کرتے آئے ہیں۔ مخالفین میں تنقید کرنے کا تو حوصلہ تھا مگر اِتنی ہمت کِسی میں نہ تھی کہ کام کی بُنیاد پر اُنہیں جِنّات کے زُمرے میں داخل کرتا۔ ایسا جِنّاتی حوصلہ تو تہمینہ دولتانہ ہی میں ہوسکتا تھا!

مارچ میں ختم ہونے والا جمہوری دور بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچھ کم جِنّاتی نہ تھا۔ جو کچھ اُس دور میں ہوا وہ اگر ختم کرنا ہے تو اِنسانوں جیسے دِکھائی دینے والے حکمرانوں کو جِنّاتی صِفات کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت حکمرانی کے انداز کی رُو سے جِنّاتی تھا مگر نتائج پر نظر ڈالیے تو بُھوت بن کر ڈراتا ہے! ذرا سا یاد کیجیے تو خُون خشک ہونے لگتا ہے۔ قوم کی رگوں میں ویسے ہی خُون کم رہ گیا ہے۔ ایسے میں نئی حکومت کی طرف سے ایسا کچھ نہں ہونا چاہیے جو بُھوت بن کر قوم کو ڈرائے۔ پہاڑ جیسے چیلنجز جِنّات کا سا حوصلہ چاہتے ہیں۔ توانائی کا بحران کسی بھی سیاسی جماعت کی تمام صلاحیتوں کو نچوڑ لینے کے لیے کافی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ جِنّاتی مسائل کے سامنے وہ بھی جِنّاتی قسم کے عزائم کے ساتھ سینہ سِپر ہے۔ قوم نہیں چاہتی کہ جِن کے ذکر سے شروع ہونے والا جمہوری دور فنشنگ لائن تک پہنچتے پہنچتے بُھوت بن کر ڈرانے لگے۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483346 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More