پاکستانی قوم خوابوں کی دنیا میں
رہنا چاہتی ہے اور خوابوں سے ہی سیراب ہوتی نظر آتی ہے اس قوم کومیں قوم
نہیں بلکہ لوگوں کا ایک ہجوم کہوں گا ،جس نے سیاسی جماعتوں کے وعدے اور
حسین سپنوں میں آکر اس امید سے انتخابات میں حصہ لیا تھا کہ الیکشن کے بعد
ان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے ،ملک میں امن و امان کی فضا قائم ہو جائے
گی،دہشت گردی کی فضا دم توڑ جائے گی ،ٹارگٹ کلنگ بند ہو جائے گی ،مسخ شدہ
لاشیں ملنے کا اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ تھم جائے گا ،لوڈشیڈنگ ختم
اور گیس کے بحران کا نشاں نہیں رہے گا،ہر طرف شادمانی کے نغمے گونجیں گے ،مہنگائی
کے جن کو بند کر دیا جائے گا ،انصاف ان کی دہلیز پر دستک دے رہا ہوگا،دودھ
اور شہد کی نہریں بہیں گی ملک میں تبدیلی کی ایک لہر چلے گی جواس قوم کے
دکھوں کو،پریشانیوں کو دور بہا کر لے جائے گی لیکن؟
کیا ہوا؟کچھ نہیں ؟سب خواب چکنا چور ہو گئے ،سب وعدے جھوٹے نکلے،ان کے حسین
سپنوں کا خون ہو گیا ،سب جوں کا توں ہے ،آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے
پہلے تھے بلکہ اس سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں ،دہشت گردی کی فضا اسی طرح
موجود ہے ،ٹارگٹ کلر سر بازار موت تقسیم کرتے پھر رہے ہیں،لوڈ شیڈنگ پر تا
حال قابو نہیں پایا گیا ،مہنگائی کا جن غریب عوام کو زہریلے سانپ کی طرح ڈس
رہا ہے ،غریب قوم کی گردن آئی ۔ایم ۔ ایف کے شکنجے میں جکڑی جا نے والی ہے
،سبسڈی کا خواب دیکھنے والی قوم پر ٹیکسوں کی مد میں اضافہ ہو چکا ہے
،تنخواہیں کم اور مہنگائی زیادہ ہو چکی ہے اب کیا ہوگا؟؟
کچھ نہیں ہوگا یہ قوم پھر نئے خواب سجائے گی ،کیونکہ پاکستانی قوم کا ہجوم
حقیقت سے نظریں چراتا ہے اور شتر مرغ کی طرح سر چھپا کر ،آنکھیں بند کر کے
سمجھتا ہے کہ اس نے تکالیف سے پردہ کر لیا ہے لیکن پھر جب مصائب آ گھیرتے
ہیں تو پھر بھی ہاتھ نہیں ہلاتے ،کچھ جدو جہد نہیں کرتے
خدا نے اس قوم کی حالت آجتک نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا
اس قوم کی میں کیا بات کروں جو خود اپنے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنا پسند
کرتی ہو اس لئے اس قوم کی کبھی کوئی وحیدہ شاہ سر عام تذلیل کرتی نظر آتی
ہے تو کبھی کوئی شریفوں کی صاحبزادی اپنے نوکروں سے بیکری ملازم کی سربازار
درگت بناتی دکھائی دیتی ہے ،تو کبھی اس قوم کی نمائندہ ایم ۔پی۔اے بس ہوسٹس
کو بھرے مجمعے میں تھپڑ مارتی ہے اور کبھی کوئی گیلانی خاندان طاقت کے نشے
میں کسی معصوم ملازم کو زندگی کی قید سے بھی آزاد کرادیتا ہے ۔
میں اس قوم کے بارے کیا لکھوں !جو ترقی کی خواہش مند تو ہو، پر اپنے اندر
بے حسی کو سموئے ہوئے ہو،جس قوم میں طبقاتی تفریق بڑھتی چلی جا رہی ہو،نفرت
کے بازاروں میں نفرت سر بازار بانٹی جا رہی ہو ،لوگ خوشی کو ترسے ہوئے ہوں
لیکن خود کسی کے لبوں پر مسکراہٹ کا رقص نہ دیکھ سکتے ہوں ،حسد و بغض جس
قوم میں بھرے ہوئے ہوں وہ قوم کیونکر آگے بڑھ سکتی ہے ؟
اگر اس قوم نے خود کو تبدیل نہیں کیا توبے حس لوگوں کا یہ ہجوم وحیدہ شاہ
کے سربازار تھپڑ بھی کھاتا رہے گا،شریف ذادیوں سے مار بھی پڑتی رہے گی،قوم
کے نمائندے ہی اس ہجوم کی سر عام تذلیل کرتے رہیں گے،اور طاقت کے نشے میں
غریب کا گلا گھونٹا جاتا رہے گا ۔
اس لئے پہلے خود کا محاسبہ کرو،خود کو تبدیل کرو،پھر اپنے ارد گرد معاشرے
کو تبدیل کرو،محنت سے آگے بڑھو پھر ترقی وکامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
لیکن اگر موجودہ حالات کی بات کی جائے تو زرداری صاحب نے اس ہجوم کے ساتھ
کئے گئے وعدوں کے بارے میں یہی کہا کہ یہ کوئی قرآن حدیث تو ہوتے نہیں جو
پورے کئے جائیں،میاں نواز شریف صاحب بھی ان وعدوں کو جوش خطابت کا نام دیتے
نظر آرہے ہیں ،عمران خان الیکشن کے بعد بھی یہی دہائی دے رہے ہیں کہ
دھاندلی ہوئی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے کہ یہ الیکشن فیئر
نہیں ہوں گے اس الیکشن کے نتیجے میں ایک بدترین جمہوریت نما آمریت قائم ہو
جائے گی۔
قارئین!اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ پر ترقی کی راہیں کھلیں تو آپ کو ایک قوم
بننا ہوگا ،اپنے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینی ہو گی ،نفرتوں
کو مٹا کر محبتوں کے دیئے جلانے ہیں ۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ! آمین |