تیس کا عشرہ ریاست جموں کشمیر
کیلئے سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا حامل رہااگر کہا جائے کہ ریاست جموں کشمیر
کی پیچیدہ و مشکل ترین صورتحال کی ابتداء اسی عشرے میں ہوئی تو قطعی غلط نہ
ہو گاکیوں کہ اس سے پہلے صدیوں سے ریاستی عوام کاظلم جبر اور ناانصافی سے
سامنا رہا جسے یہ تقدیر کا لکھا سمجھ کر خامشی سے سہتے رہے لیکن اب انمیں
ایک اہم تبدیلی نظر آئی وہ یہ کہ اب یہاں کے عوام میں رد عمل کی جھلک
دکھائی دینے لگی تھی۔۔۔اب انکے ازہیان میں سوال پیدا ہونے لگے کہ اگر ایسا
ہے تو ،،،کیوں ہے؟؟؟؟ریاست جموں کشمیر میں عوامی رد عمل کی لہر ایک رفتار
سے آگے بڑھتی رہی جو ہر اعتبار سے ایک عوامی جمہوری تحریک تھی ۔بیسویں صدی
کے کشمیر اور آج اکیسویں صدی کے کشمیر میں زمین آسماں کا فرق آچلا ہے اور
اس تاریخی فرق کا نقطہٗ آغاز انہیں دس برسوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
29 اپریل 1931ء عید کا دن تھا میونسپل کمیٹی باغ جموں میں نماز عید کے
بعدامام منشی محمد اسحاق صاحب نے خطبہ پڑھنا شروع کیاہی تھا کہ ایک ڈوگرہ
سب انسپکٹر بابو کھیم چند جسے ڈی آئی جی پولیس چوہدری رام چند کی ہدائت پر
بھیجا گیا تھاآگے بڑھا اور انتہائی غیر مہذب لہجے میں خطبہ بند کرنیکا حکم
دیا۔حکام کیمطابق یہ خطبہ کی آڑ میں لوگوں کو حکومت وقت کیخلاف بھڑکایا
جارہا تھا ۔دوسری جانب اسی سال مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست میں تین سیاسی
تنظیموں کے قیام کی منظوری دی جنمیں 1۔کشمیری پنڈت کانفرنس 2۔ہندو سبھا
3۔سکھ شرومتی خالصہ دربار۔اسطرح تمام غیر مسلموں کو نمائندگی اور تنظیم
سازی کا حق دیدیا گیا لیکن مسلمان جو ریاست کی ایک غالب اکثریت تھے کو اس
حق سے محروم رکھا گیا جس نے نفرت میں مذید اضافہ کیا۔ابھی قرآن پاک کی بے
حرمتی کا واقعہ بھی نیا تھا کہ13جولائی1931کو سنٹرل جیل سرینگرکا سانحہ
رونما ہو گیا جسنے ریاست کی تاریخ اور تحریک پر گہرے نقش چھوڑے ۔تاریخ
کشمیر کا تو رخ بدل کے رکھ دیااس روز مسلح ڈوگرہ فورسز نے نہتے کشمیری عوام
پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے بائیس نوجوان شہید اور کئی زخمی ہو گئے اس
واقعہ کے بارے میں شیخ عبداﷲ آتش چنار میں لکھتے ہیں :
13جولائی 1931کو جب میرے انتہائی کم فاصلے پر میرے ہموطنوں پر فائرنگ ہوئی
اور میں نے محسوس کیا کہ ہر گولی نے میری چھاتی میں سوراخ کر دیا ہو اس
فائرنگ کے بعد ہی میری سیاسی زندگی کا آغاز ہوا ۔اس فائرنگ سے بائیس جوان
شہید اور بے شمار لوگ زخمی ہوئے ۔میں ایک زخمی کو سنبھال رہا تھا کہ اس نے
دم توڑتی آواز میں کہا ! عبداﷲ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا اب آپ کی باری
ہے ،،،،،
شیخ عبداﷲ اور اس جوان کی گفتگوایک ایسا تاریخی سچ ہے جو صدیوں سے کشمیری
عوام کاکسی آصیب کی طرح پیچھا کر رہا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اس دیس کے عوام
نے ہر دور میں لازوال قربانیاں دیں ۔کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے بس انکی بد
قسمتی یہ رہی کہ ہر دور میں انکی قیادت انہیں دھوکہ دیتی رہی اور ہر بار
چھوٹے چھوٹے زاتی اور فروہی قسم کے مفادات کی خاطر انہیں بیچ چوراہے میں
تنہا چھوڑ دیتے رہے ۔ویری بیڈ لک ؛
نامور سکالر جوزف کاربل نے اس پر یوں تبصرہ کیا!
یہ 1931کا سال تھا جب کشمیری عوام کے زہنوں میں پکنے والا یہ لاواہ اچانک
پھٹ پڑا دلوں کا غبار شعلہ جوالہ کی شکل اختیار کر گیا ۔اس واقع کیبعد کئی
ایسے نام منظر پر آئے جنہوں نے آگے چل کر ریاستی تاریخ میں اہم کردار ادا
کیا مثلاً شیخ محمد عبداﷲ وغیرہ،،،
اس واقعہ کا پس منظر کچھ یوں ہیکہ انگریز فوج کا ایک میجر چھٹیاں گزارنے
کشمیر آیا اسکے ساتھ اسکا عبدالقدیر نام کا ایک ملازم بھی تھا ۔جلد ہی یہاں
کے عام لوگوں سے جسکے مراسم پیدا ہو گئے۔وہ انکے اجتماعات میں ایک تسلسل سے
شریک ہوتااسنے محسوس کیا کہ یہاں کے لوگوں کیساتھ بہت جبر ہو رہا ہے۔21جون
کو درگاہ حضرت شاہمدان کے احاطہ میں ایک اجتماع منعقد ہوا جسمیں وہ بھی
شریک تھا۔جلسہ کے اختتام پر جب لوگ منتشر ہونے لگے تب وہ لوگوں کے ہجوم کو
ایک طرف کرتے راستہ بناتے ہوئے ایک چبوترے پر آپہنچا ۔اسنے مسلمانوں پر
ہونیوالے ظلم وجبر کی مذمت کی اور مہاراجہ کو عوام کا قاتل کہا ۔دوسرے روز
اسے ایک ہاؤس بوٹ سے گرفتار کر کہ اس پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیاگیا۔
13جولائی کو سنٹرل جیل سرینگر میں مقدمہ کی سماعت مقرر ہوئی۔وہاں ہزاروں کی
تعداد میں لوگوں کا ہجوم امڈ آیا اور لوگ اس مقدمہ کی کھلے عام سماعت کا
مطالبہ کرتے رہے ۔اسی کشمش میں نماز کا وقت ہوگیا اورمجمے سے ایک نوجوان
جیل کی چھت پر چڑھ کر آزان دینے لگاتو اتنے میں حکام نے فائر کھول دیا جسکے
نتیجہ میں وہ جوان زمین پر گر گیا ۔۔۔اس کے گرتے ہی ایک اور نوجوان آگے بڑا
اور اسنے آزان ہاں سے شروع کی جہاں پہلے کو گولی لگنے سے رکی تھی ۔۔۔عجیب
منظر تھا مجمع کے جوش میں اضافہ ہوتا رہا اور ایک کے بعد ایک نوجوان آگے
آتا اور آزان دیتے ہوئے شہید ہوتا رہا یہاں تک کہ بائیس جوان ازان دیتے
ہوئے شہید کر دئیے گئے جو کہ ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا منفرد و انوکھا
تاریخی واقع ہے جسے قیامت تک یاد رکھا جائیگا ۔۔اور اس واقعے کیبعد سے آج
تک ہر سال پورہ دنیا میں موجود کشمیری ان عظیم شہداء کو خراج عقیدت پیش
کرنا نہیں بھولتے ۔۔۔۔
اسی شام چوہدری غلام عباس ،قاضی گوہر رحمن ، مستری یعقوب علی اور شیخ عبداﷲ
سمیت کئی اہم لوگوں کو گرفتار لر لیا گیا۔جسکے خلاف زبر دست ہڑتال کی گئی
۔جو بیس روز تک جاری رہی۔پورا سرینگر بند رہا اور شہر کو فوج کے حوالے کر
دیا گیا۔راجہ نے مسٹر ویکفیلڈکو تبدیل کر کے راجہ ہری کرشن کو وزارت سونپ
دی جسنے مسلمان نمائندوں کو مذاکرات کی دعوت دی۔مذاکرات کے نتیجہ میں
قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی اور مسلم نمائندوں کو مہاراجہ کو اپنے مطالبات
پیش کرنیکی اجازت دی گئی۔ایک مسلم وفدنے اگست 1931کو مہاراجہ سے ملاقات کی
اور ایک یاداشت پیش کی لیکن اس نے اس وفد کیساتھ توہین آمیز سلوک کیاجس سے
لوگوں میں مزید نفرت پیدا ہوئی۔بہر حال بعد ازاں راجہ نے جسٹس ہائی کورٹ سر
برجردلال سمیت تین ججوں پر مشتمل کمیشن قائم کیا ۔مسلمانوں نے اس کمیشن کا
بائیکاٹ کیا۔اور جموں میں ایک بڑے احتجاجی جلسہ میں اس کمیشن کی رپورت کو
نظر آتش کیا گیا۔حکومت نے اسے نظر انداز کر کے مڈلٹن نام سے ایک دوسرا
تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا علان کیا۔اسکے بعد علامہ اقبال کی کوششوں سے
ریاستی عوام کے ازالہ کیلئے12اگست 1931کو گلنسی کمیشن کا قیام عمل میں
آیا۔اس کمیشن میں کشمیر سے خواجہ غلام احمد اور پنڈت پریم بزاز اور جموں سے
چوہدری غلام عباس اور لوک ناتھ شرما دو مسلم اور دو غیر مسلم ممبران شامل
تھے۔اپریل 1932میں اس کمیشن نے اپنی رپورٹ مہاراجہ کو پیش کی جسکی روشنی
میں مہاراجہ نے پرجا سبھا کے نام سے عوام کو قانون ساز اسمبلی منتخب کرنے
کا حق دیدیا ۔اس فیصلے نے ریاست کے سیاسی ماحول میں ایک نئی روح پھونکی اور
اب ریاست جموں کشمیر بھر کے مسلمان یہ سوچنے لگے کہ ہمیں ایک منظم و مربوط
طریقہ سے انتخاب میں جانا چاہیے جسکے لئے ضروری ہے کہ ہماری کوئی سیاسی
جماعت ہوجسکا ایک دستورو منشور ہو اور وہ صحیح معنوں میں عوام کے حقوق کا
تحفظ کر سکے۔چنانچہ ملک بھر میں اہم رہنماؤں نے اس ضمن میں صلاح مشورے شروع
کر دئیے جو جلد ایک منظم سیاسی پارٹی کے قیام پر منتج ہوئے۔ |