ذرائع ابلاغ کے حوالے سے جب بھی
بات کی جاتی ہے تو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پاکستانی الیکڑونک میڈیا کے
بعض ٹاک شوز میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسے ایشوز پر بلا
تکان مباحث کئے جاتے ہیں جس سے عوام میں بے چینی اور بے یقینی کی فضا قائم
ہو۔گو کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے بیرونی ملک میڈیا تمسخر
اڑاتا رہا ہے کہ اگر کسی چینل کی سٹیلائٹ وین کسی چوک سے اچانک گھوم جائے
اور اس کے عقب میں دوسرے چینل کی سٹیلائٹ وین ہو تو وہ بھی اُس کے تعاقب
میں لگ جاتی ہے۔ بریکنگ نیوز کی اس جنگ میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اس
کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں۔لوگوں کی عام عادت ہے کہ کوئی بات کہیں سے اڑتی
ہوئی سُنی اور اُسے ، بغیر تحقیق کئے آگے پھیلانا شروع کردیا۔ قرآن کریم اس
سے بڑی سختی سے روکتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ"جس بات کا تمہیں یقینی طور پر علم
نہ ہو اس کے پیچھے مت لگو ، یاد رکھو تم سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے خود
اپنے کانوں سے ایسا سنا تھا ، کیا اپنی آنکھوں سے ایسا دیکھا تھا اور یہ
بھی پوچھا جائے جائے گا کہ تم نے سمجھ سوچ کر اس کی تحقیق کرلی تھی اور کود
تماہرے اپنے دل نے تو اس کے اندر کطھ نہیں ملادیا تھا۔"(سورۃ بنی اسرائیل
۱۷؍۳۶)۔حکم خداوندی کہ ہر بات کو اچھی طرح سے سنو ، ہر چیز کو اچھی طرح سے
دیکھو ، پھر جو کچھ سنو اور دیکھو اس پر خوب غور و فکر کرو۔ اپنی عقل سے
کام لو اور اس کے بعد کسی نتیجے پر پہنچو جو لوگ اپنی عقل و خرد سے کام
نہیں لیتے اور آنکھیں بند کرکے دوسروں کے پیچھے چلتے رہتے ہیں وہ انسان
نہیں حیوان ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے۔سورۃال اعراف ۷؍۱۷۹ میں ایسے افراد
کے بارے میں واضح فرمایا گیا کہ"ان کے دل تو ہوتے ہیں لیکن ان سے سمجھنے
سوچنے کاکام نہیں لیتے ، آنکھیں ہوتی ہیں لیکن ان سے دیکھنے کا کام نہیں
لیتے ، کان ہوتے ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ یہ انسان نہیں ،
حیوان ہوتے ہیں ، بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ گم کردہ۔ اس لئے کہ یہ عقل و
خرد کے باوجود انجان بنے رہتے ہیں۔"قرآن آداب معاشرت میں ایسے عوامل سے
سختی روکتا ہے جس سے معاشر ے میں انتشار پھیلے۔ اﷲ تعالی کا حکم ہے کہ "لوگوں
کی باتوں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو"( سوۃ یوسف۱۲؍۴۹)۔جو بات سامنے آئے اس پر
غور و فکر کرو ۔ اچھی باتوں کا محض سُن چھوڑنا کچھ فائدہ نہیں دیتا ، اصل
فائدہ اُن پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔ا س موقع پر ضرورت اس بات کی ہے ہم اُن
باتوں کو کماحقہ آگے پہنچائیں ، جن کی تصدیق ہوچکی ہو۔دیکھنے میں یہی آیا
ہے کہ الیکڑونک میڈیا میں کسی سیاسی شخصیت کے حوالے سے جب کوئی سنسنی پیدا
کی جاتی ہے تو اُص خبر کو اس طریقے سے مزین کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا صرف
تصویر کا ایک ہی رخ دیکھتا ہے اور ایسے دیکھنے کے بعد اپنی رائے قائم
کرلیتا ہے۔حقائق اور شواہد کے بغیر خبروں کی ترسیل سے اس شخص کو تو وقتی
فائدہ پہنچ سکتا ہے جو اُسے آگے پھیلا رہا ہے لیکن اس کی اس حرکت سے معاشرے
میں اصلاح کے بجائے فساد کا خطرہ بہ اتم رہتا ہے۔مغرب زدہ ماحول میں آزادی
اظہار رائے میں کسی بھی شخص کیلئے اپنی حدود سے آگے بڑھ جانا ، ایسی نفرتوں
کو جنم دیتا ہے جس کا مدوا جلد ممکن نہیں ہو پاتا۔ میڈیا میں ایسی لاتعداد
مثالیں مل جاتیں ہیں جس کی وجہ سے مملکت میں کروڑوں عوام میں بے چینی اور
بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی ۔ میڈیا کا ایک رخ یہ بھی تھا کہ ان کی جانب
سے سنسنی پیدا کئے جانے کے سبب دوسری جنگ عظیم اور پاک ، بھارت کی جنگیں
ہوئیں۔کیا ہم اس بات کا انکار کرسکتے ہیں کہ پاکستان ایک جانب جنگ ہار رہا
تھا اور اس کے مسلح فوجی ہتھیار پھینک رہے تھے اور میڈیا دوسری جانب عوام
کو یہ خبر پہنچا رہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی افواج کو
کامیابی اور بھارت کو ناکامی ملی ہے۔یہی میڈیا تھا جس نے بتایا کہ بھٹو نے
ادِھر ہم ادُھر تم کا ایسا نعرہ لگایا کہ آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا کہ یہ
نعرہ درست بھی تھا کہ نہیں۔سیاچن پر بھارتی قبضے اور کشمیر پر پاکستانی
فوجی جوانوں سمیت افغان ، روس جنگ میں میڈیا کا کردار کسی سے مخفی نہیں
ہے۔بلا تحقیق اور شواہد کے اطلاعات کی غیر مصدقہ خبروں کی وجہ سے ہم اپنے
احساس ذمے داری سے محروم ہیں۔یہ بھی کوئی پرانی بات نہیں کہ سوات میں جعلی
کوڑے مارنے والی ایک ویڈیو کی وجہ سے پورے سوات میں ہبیت ناک آپریشن کیا
گیا۔ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد جنوبی وزیر ستان پر آپریشن کی خبریں بھی
ہمارا میڈیا پھیلاتا رہا ۔ میمو گیٹ اسکینڈل سے لیکر ایبٹ آباد آپریشن پر
جس طرح کی قیاس آرائیاں کیں جاتی رہیں اس نے سچ کا چہرہ چھپا دیا کہ میڈیا
کی کس بات پر یقین کیا جائے۔سچ اور شواہد کے ساتھ خبروں کو ذمے داری سے آگے
بڑھانا ، ایک بہت بڑی امانت ہوتی ہے ، جس سے ہمارا میڈیا ابھی کافی دور ہے۔
بعض اینکرز پرسن اور بغض ِ معاویہ میں سیاسی مخالفت میں ہم اتنا آگے بڑھ
جاتے ہیں کہ سیاسی مخالفین اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کیلئے قرآن کریم کا
سہارا لیتے ہوئے ایسے سر پر اٹھا لیتے ہیں۔میڈیا میں زرد صحافت کرنے والے
نام نہاد صحافیوں کی کمی نہیں ہے ، لیکن ایک جانب اگر ہم یہ دیکھیں کہ
الیکڑونک چینل میں ایسے پروگراموں کی میزبانی چند نا پسندیدہ اینکرز کے
حوالے کردی جاتی ہے جنھیں صحافت کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔یہ صرف الزامات
اور سنسنی پیدا کرنے میں مہارت کے سبب اپنی قیمت بڑھانے کے لئے تمام اخلاقی
حدود کو پھلانگ جاتے ہیں اور ہم آئے دن یہ تماشہ دیکھتے ہیں کہ جس نے ان کی
قیمت زیادہ لگائی وہ اس چینل میں چلے جاتا ہے اور اس کا طرز عمل مزید متشدد
اور غیر یقینی بے بنیاد خبروں کو لچھے دار اور بے بنیاد بنا کر سیاسی
جماعتوں اور بعض قلمکاروں کے درمیان جنگ و جدل کا ایساسماں پیدا کردیتے ہیں
کہ عوام میں اس کا تاثر کبھی مثبت کیلئے نہیں کہلایا جاسکتا۔پیشہ وارنہ
مہارت کی کمی اور معلومات کی رسائی میں بھیڑ چال کی روش کی وجہ سے پاکستانی
میڈیا ابھی تک اپنی غیر ذمے داری کے خول سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں
ہوسکا۔ہمیں ان تمام روش پر اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ
میڈیا اپنا احتساب کبھی خود نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی سچائی کے
پَر جلتے ہیں۔میڈیا میں خود احتسابی کا عمل زیرو ہے۔ ہم آج تک نہیں دیکھ
سکے کہ میڈیا نے اپنے کسی صحافی ہاتھی کے کرپشن کی کوئی داستان نشر کی
ہو،پلاٹ ، پرمٹ اور خفیہ فنڈز سے ہاتھ منہ دھونے والے ایسے کتنے صحافیوں کے
نام منظر عام پر آچکے ہیں لیکن کبھی کسی ادارے نے ان پر کوئی ایکشن نہیں
لیا ۔ہمیں کسی کا گریبان چاک کرنے کے بجائے جھانکنا ہوگا کہ اس میں کتنے
سوراخ ہیں۔دامن میں لگے چھنٹوں کو رکیک الزامات کی صحافت سے مزید داغدار
کرنے کے بجائے اپنی برائیوں پر پہلے نظر رکھ کر دوسروں کی اچھائیوں کو تلاش
کرنا ہوگا ۔ منفی صحافت(افواہ سازی) ایک ایسا بھیانک جرم ہے جس کی سزا بڑی
عبرت ناک ہے کہ ا یسے افراد سے معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور اگر افواہ
سازی کرنے والے اپنی روش سے باز نہیں آتے تو سخت سے سخت اقدام کو اپنایا
جاسکتا ہے۔ |