کراچی کا المیہ!کیا نوے کی دہائی واپس آگئی ہے؟

روشنیوں کا شہر کراچی دو دن میں سولہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں ہفتہ سے لیکر اتوار کی شب تک چوبیس گھنٹوں میں سولہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔اور یہ واقعات کسی اندھی دہشت گردی کا نہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہوئے ہیں۔ان میں پانج مقتولین کا تعلق مہاجر قومی موومنٹ سے ہے،دو کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ایک کا تعلق اے این پی سے ہے۔ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے افھہام و تفھیم اور ڈائیلاگ کے بجائے ایک بار پھر اسلحہ کی زبان استعمال کرنا شروع کی ہے۔
یہ سارے واقعات سے نوے کی دہائی کی یاد تازہ ہوگئی ہے جب مہاجر قومی موومنٹ حقیقی نے الگ گروپ بنا کر سیاسی سرگرمیاں شروع کی۔اس سے شہر میں ایک کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی۔آگے چلنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ چونکہ مہاجر قومی موومنٹ حقیقی سیاسی طور سے بہت معروف نہیں ہے اور الطاف گروپ کی مخالف جماعت ہے تو اس سے عام طور سے لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شائد یہ کوئی مجبور و مظلوم گروہ ہے جس پر الطاف گروپ نے ظلم ڈھائے ہیں تو اس غلط فہمی کو دور کرلیا جائے کہ یہ کوئی مجبور یا مظلوم گروہ ہے بلکہ متحدہ اور حقیقی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جہاں متحدہ کا زور ہے وہاں وہ شیر ہیں اور جہاں حقیقی کا زور ہے وہاں حقیقی والے شیر ہیں۔عوامی مسائل سے دونوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔حقیقی والوں کو بھی جہاں موقع ملتا ہے وہ متحدہ کے کارکنوں کا قتل عام کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔اور یہی حال متحدہ کا ہے۔
بہر حال اب ہم اپنی بات کا سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہیں نوے کی دہائی میں حقیقی کی انٹری کے بعد شہر میں کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی اور شہر دو واضح حصوں میں تقسیم ہوگیا کچھ علاقوں پر متحدہ والے تھے اور کچھ علاقوں میں حقیقی والے تھے۔حقیقی کے واضح اکثریت والے علاقوں میں لیاقت آباد چار نمبر لیاقت آباد نو نمبر،ملیر،لانڈھی،شاہ فیصل کالونی،لائینز ایریا وغیرہ شامل تھے۔شہر میں ایک عجیب صورتحال ہوتی تھی۔جگہ جگہ دونوں تنظیموں کے مسلح کارکنان پہرہ دیتے تھے۔اجنبی لوگوں کو دن دہاڑے روک کر تلاشی لی جاتی تھی اور زرا سے شک کی بنیاد ہر ان کو قتل کردیا جاتا تھا۔
اس دوران کراچی میں آپریشن شروع کردیا گیا۔اور اس آپریشن میں فوج اور پولیس کی معاونت کے لیے ایجنسیوں نے حقیقی گروپ کو استعمال کیا اور شہر میں جب کہیں بھی محاصرہ ہوتا تھا تو اس میں فورسز کے ساتھ حقیقی کے کارکنان بھی نقاب ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔اور بعض جگہ تو یہ واقعات بھی ہوئے کہ ایک ہی محلے والوں نے دوسروں کی مخبری کی اور نقاب لگا کر یا بکتر بند میں بیٹھ کر شانخت پریڈ کی گئی اس سلسلے میں ایک صاحب اپنا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ محاصرے کے دوران پولیس اور فوج کے لوگ ہمارے گھر میں آئے ان کے ساتھ ایک سادہ لباس والا نقاب پوش بھی تھا میں اس کو غور سے دیکھ رہا تھا اس نے کہا َ َ کیا دیکھ رہا؟ کیا مجھےپہچاننے کی کوشش کررہا ہے؟ میں کتنی دفعہ تیرے ساتھ یہاں ہوٹل پر چائے پی کر گیا ہوں َََ َ یہ صورتحال تھی۔
اب دو دن سے جاری کشیدگی کے باعث لوگوں میں یہ تشویش پھیل گئی ہے کہ کیا نوے کی دہائی والا دور واپس آگیا ہے۔؟ کیا کراچی ایک بار پھر یرغمال بنا دیا جائے گا؟ اور کیا لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے؟ دیکھیں یہ سارے مرنے والے چاہے متحدہ کے ہوں یا حقیقی کے یا کسی اور جماعت کے بہر حال انسان ہیں۔مسلمان ہیں۔یہ بھی کسی کے پیارے ہیں۔یہ بھی کسی کا سہاگ ہیں،کسی ماں کا لعل ہیں۔کسی معصوم کے باپ ہیں۔کسی بہن کا سہارا ہیں۔خدارا یہ آگ اور خون کا کھیل بند کیا جائے۔یہ انا پرستی،شخصیت پرستی کی سیاست چھوڑ کر،تشدد کی سیاست چھوڑ کر افہام و تفھیم کا راستہ اپنائیں۔اس حوالے سے ہم متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے یہ اپیل کریں کے گے کہ آپ پوری دنیا میں امن و محبت کا درس دیتے ہیں،بھائی چارے کو پسند کرتے ہیں،تو پھر کیا وجہ ہے کہ حقیقی والوں کو رندہ درگاہ کیا ہوا ہے۔؟ آفاق احمد کا وجود آپ سے برداشت کیوں نہیں ہوتا؟ کیا حقیقی میں کراچی والے،اردو بولنے والے نہیں ہیں؟
اور ہماری دوسری تمام جماعتوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ کراچی منی پاکستان ہے۔یہاں پاکستان کی ہر قوم کا فرد بستا ہے۔اس منی پاکستان کے امن کو تباہ نہ کریں۔صبر و تحمل سے کام لیں۔یہاں اگر آگ و خون کا کھیل جاری رہا تو اس کے شعلے سب سے پہلے سندہ میں پھیلیں گے اور اس کے بعد پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔اس لیے زرا ہوش کے ناخن لیں اور اس شہر کے امن کو تباہ نہ کریں
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520150 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More