وکلاءکی باہمی چپقلش، قیادت کہاں ہے؟
لاہور ہائی کورٹ بار کے الیکشن ہر سال فروری کے مہینے میں ہوتے ہیں۔جب سے
وکلاءتحریک شروع ہوئی تھی اس وقت سے آخری الیکشن تک وکلاءتحریک سے ہمدردی رکھنے
والی وکلاءقیادت کا ہی انتخاب کیا جاتا رہا۔ ہائی کورٹ بار کے آخری الیکشن میں
تحریک کے مخالف دھڑے کو کوئی امیدوار تک میسر نہ آسکا کیونکہ انہیں علم تھا کہ
الیکشن بالکل ےیطرفہ ہوں گے اور پروفیشنل گروپ ( حامد خان گروپ) کی جانب سے جو بھی
امیدوار الیکشن لڑے گا وہی جیتے گا چنانچہ جب پروفیشنل گروپ کی طرف سے لاہور ہائی
کورٹ کے سابق جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کا نام سامنے آیا تو تمام چھوٹے بڑے گروپوں نے
ان کی حمایت کی اور واقعتاً صدر کے عہدے کی حد تک یکطرفہ الیکشن سامنے آیا اور یم
اے شاہد صدیقی کو اکثریت کے ووٹ مل گئے اور وہ صدر بن گئے۔ اپنی الیکشن مہم میں
جناب ایم اے شاہد صدیقی نے کئی مرتبہ برملا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے عہد
صدارت میں کوئی سرکاری عہدہ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔یہ بات انہیں اس لئے کرنا پڑی
کیونکہ اس سے پہلے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر جو پروفیشنل گروپ کے ہی
امیدوار تھے، ہائی کورٹ کے جسٹس کا عہدہ قبول کرنے کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہے تھے،
وہ تو بھلا ہو سابق جنرل سیکرٹری لاہور بار لطیف سراءکا کہ انہوں نے لاہور بار میں
منظور قادر کی موجودگی میں ایک قرار داد پیش کردی کہ جب تک وکلاءتحریک جاری ہے کسی
کو کوئی سرکاری عہدہ، بھلے وہ ہائی کورٹ کے جج کا ہی کیوں نہ ہو، قبول نہیں کرنا
چاہئے جس کی وجہ سے منظور قادر کی صدارت کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور وہ جسٹس بننے
سے محروم رہ گئے۔ ان کو بھی جسٹس اسی لئے بنایا جا رہا تھا تاکہ وکلاءتحریک کا زور
توڑا جا سکے۔ بہرحال جب جسٹس (ر)ایم ١ے شاہد صدیقی کو بطور صدر لاہور ہائی کورٹ بار
منتخب کیا گیا تو سارے وکلاءکو یقین تھا کہ وہ اپنے عہدے کا ایک سال پورا کریں گے،
لیکن ان کی امیدوں اور آرزؤں کا قتل عام کیا گیا اور ایم شاہد صدیقی صاحب نے تمام
وعدوں اور دعووں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بطور جسٹس سپریم کورٹ اپنے عہدہ کا حلف
لے لیا۔ یہیں سے معاملات خراب ہونا شروع ہوئے اور خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے
ہیں۔ وکلاءکی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اس خراب صورتحال کی بہت بڑی ذمہ داری ایم اے
شاہد صدیقی صاحب پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اتنی عجلت میں سپریم کورٹ چلے گئے کہ نہ
تو جاتے ہوئے بار کو اعتماد میں لیا، نہ کوئی الوداعی خطاب کیا، یہاں تک کہ
ایگزیکٹو کمیٹی تک کا اعلان نہ کیا گیا۔ یوں لگتا تھا کہ انہوں نے صرف بار کے پلیٹ
فارم کو اپنے ذاتی مستقبل کے لئے استعمال کیا، وکلاءکے کندھوں پر سوار ہوئے اور
اگلی منزل کی جانب چھلانگ لگادی!
جب صدیقی صاحب سپریم کورٹ کوچ کرگئے تو عدلیہ بحالی وکلاءتحریک کی مخالف قوتیں نہ
صرف متحرک ہوگئیں بلکہ متحد بھی ہوگئیں۔ انہوں نے اس موقع کو قیمتی جانتے ہوئے اس
سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا سوچا اور اس پر کماحقہ عمل بھی کیا۔ عدلیہ بحالی تحریک
کی بدولت پوری دنیا میں وکلاءکی عزت و توقیر میں جو اضافہ ہوا تھا وہ چند دنوں کی
آپس کی چپقلش اور باہم دست و گریبان ہونے سے یکلخت ختم ہوگیا، وکلاءکا آپس کا
معاملہ عدالت تک بھی پہنچا اور جگ ہنسائی کی وجہ بھی بنا۔ وکلاءتحریک کے مخالفین کو
تو پہلے ہی موقع کی تلاش تھی، اس بار انہوں نے نائب صدر منور اقبال گوندل کے کندھوں
پر رکھ کر بندوقیں بلکہ کلاشنکوفیں چلا دیں! شروع شروع میں لاہور کے وکلاءکی اکثریت
منور اقبال گوندل کے ساتھ تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ منور اقبال گوندل لوئر مڈل
کلاس سے تعلق رکھتا ہے اور وکلاءکے حقیقی مسائل سے آگاہ بھی ہے اور اگر قدرت نے اسے
موقع دے دیا ہے تو اسے بطور صدر ”برداشت“ کر لےنے میں کوئی حرج نہیں، دوسری طرف سے
وہ لوگ تھے جو بظاہر پروفیشنل گروپ(حامد خان گروپ) سے تعلق رکھتے تھے لیکن حقیقتاً
ان میں سے اکثریت صدارت کے امیدوار کے طور پر پر تول رہی تھی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے
کہ یہ الیکشن ایک ”حلوہ“ قسم کا الیکشن ہے یعنی اس الیکشن میں خرچہ انتہائی معمولی
ہوگا اس لئے ہر ایک کے منہ میں پانی آرہا تھا۔ ایک طرف منور اقبال گوندل اور ان کے
حامی بار کی سابقہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا حوالہ دے رہے تھے کہ اس میں صرف ایک بار
ضمنی الیکشن ہوا ہے اور 10/11 بار الیکشن کی بجائے نائب صدر نے صدارت سنبھال لی تھی،
تو دوسری طرف سے ہائی کورٹ بار رولز کے حوالے دئیے جارہے ہیں۔ چنانچہ لاہور کے
وکلاءنے جب دیکھا کہ منور گوندل کے پیچھے تحریک کے بدترین مخالفین جمع ہوگئے ہیں تو
انہوں نے منور گوندل کی حمایت سے ہاتھ کھینچھ لئے۔ لطیف کھوسہ کے ساتھ پی سی میں
ہونے والے سلوک کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ وکلاءکے لئے جگ ہنسائی کا باعث بننے
والی صورتحال کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اگر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے رولز کو مدنظر
رکھا جائے تو اس میں بڑا کلیئر ہے کہ اگر صدر کسی وجہ سے چلا جائے تو نائب صدر اس
وقت تک بطور صدر کام کرتارہے گا جب تک کہ نئے الیکشن نہ ہوجائیں۔ اسی موڑ پر
وکلاءقیادت کا اصل امتحان شروع ہوا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اعتزاز احسن اور علی
احمد کرد بھی صرف تماشہ دیکھنے والوں میں شامل ہیں اور انہوں نے بھی بار کے اندر
تصفیہ کرانے کو چنداں اہمیت نہیں دی۔ حامد خان، خود تو اس میں تقریباً پارٹی بنے
ہوئے تھے اور منور اقبال گوندل کا حمایتی گروپ ان کے شدید ترین مخالفین میں شمار
ہوتا ہے، لیکن اعتزاز احسن اور علی احمد کرد اس میں ثالث کا کردار ادا کرسکتے تھے
لیکن اس سارے منظر میں وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ واقفان حال تو یہاں تک کہتے ہیں
کہ چونکہ منور اقبال گوندل اس وقت لطیف کھوسہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اور لطیف
کھوسہ اور اعتزاز احسن دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور حال ہی میں اعتزاز احسن
نے صدر زرداری سے نہ صرف ملاقات کی ہے بلکہ ان کی سنٹرل کمیٹی کی رکنیت بھی بحال
کردی گئی ہے، چنانچہ اعتزاز احسن یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ منور اقبال گوندل غلطی پر
ہیں اور کھلونا بنے ہوئے ہیں، وہ کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کریں گے جس سے دوبارہ
پیپلز پارٹی کے اندر ان کے خلاف شکوک و شبہات یا مخالفانہ نظریات جنم لیں ۔
وکلاءقیادت سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اتنی بڑی تحریک کامیابی سے
چلانے کے باوجود اپنے گھر کے معاملے کو نہیں سنبھال سکیں گے اور باہم دست وگریبان
ہوں گے اور معاملات کو عدالت میں لے جانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ عدالت نے بھی
اپنی آبزرویشن میں یہ کہا کہ جہاں رولز موجود ہوں وہاں روایات اور رسوم کی کوئی
اہمیت نہیں ہوتی اور رولز کے مطابق الیکشن دوبارہ ہونے چاہئیں، عدالت نے ریفرنڈم کی
تجویز بھی دی، لیکن چونکہ ہائی کورٹ کو بار کے معاملات میں دخل اندازی کا دائرہ
اختیار حاصل نہیں ہے اس لئے رٹ خارج کردی گئی۔
اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ منور گوندل، سیکرٹری مقتدر اختر اور ان کے پیچھے موجود
کھوسہ اور اتحادی گروپوں کے علاوہ پوری بار نے دوبارہ الیکشن کی حمایت کی۔یہاں
پروفیشنل گروپ کی تعریف کی جانی چاہئے کہ انہوں نے اس الیکشن میں اپنا کوئی امیدوار
کھڑا نہیں کیا بلکہ متفقہ امیدوار جسٹس (ر)ناصرہ جاوید اقبال کو عہدہ صدارت کے لئے
نامزد کیا گیا اور ان کو کاسٹ ہونے والے اکثریتی ووٹوں کی بناءپر صدر منتخب کرلیا
گیا۔ دوسرا گروپ اس الیکشن کوسرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کررہا ہے۔ بار کا
مستقبل کیا ہوگا؟ وکلاءقیادت کو ضرور سوچنا چاہئے اور مثبت کردار بھی ادا کرنا
چاہئے۔ علی احمد کرد کو فوری طور پر لاہور پہنچ کر، اعتزاز اور دیگر قیادت سے
مشاورت کرکے کوئی حل نکالنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ وکلاءآپس میں بر سر پےکار رہیں اور
پردے کے پیچھے رہنے والی قوتیں، جو اس وقت متحد بھی ہیں اور زور آور بھی، کو کھل
کھیلنے کا موقع ملتا رہے، اگر ایسا ہوتا رہا تو وکلاءکی عزت تو خاک میں ملے گی ہی،
قوم آئندہ ان پر اعتماد بھی نہیں کرے گی....! |