بھارت کی پاکستان کے ساتھ نفرت
کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع کبھی
ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارتی حکومت وقتاً فوقتاً خودساختہ کھیل رچا کر
بھی پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ہفتے کے روز بھارتی افسر
نے خود اپنی حکومت کو ہی بے نقاب کر دیا ہے۔بھارتی وزارت داخلہ کے سابق
نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور
ممبئی حملے خود بھارت کی حکومت نے خود کرائے اور ان کا الزام پاکستان پر
لگا دیا۔بھارتی افسر نے ”عشرت جہاں“ جعلی مقابلہ کیس میں عدالت میں جمع
کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم
میں شامل ستیش ورما نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی کے
دہشت گرد حملے طے شدہ تھے جن کا مقصد انسداد دہشت گردی قوانین کو سخت بنانے
کے لیے جواز پیدا کرنا تھا۔ 13 دسمبر2001 کو پارلیمنٹ پر حملہ عسکریت پسند
تنظیموں کی روک تھام کے قانون پوٹا اور ممبئی پر دہشت گردی یو اے پی اے
قانون میں ترامیم کے لیے کرائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ پر
حملے کے کیس میں کشمیری شہری افضل گورو جبکہ ممبئی حملوں کے الزام میں
پاکستانی شہری محمد عامر اجمل قصاب کو بھارت سزائے موت دے چکا ہے۔ یہ امر
قابل ذکر ہے کہ ایک اعلی بھارتی افسر ستیش ورمانے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی
حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قوانین کو سخت بنانے کے لیے پارلیمنٹ اور
ممبئی میں خود حملے کرائے اور الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔ ان انکشافات
نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔بھارتی میڈیا کی طرف سے براہ راست ستیش ورما
سے رابطہ کی کوشش کی گئی تو اس نے اس بارے میں کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔
بھارتی افسر کے انکشاف کے بعد متعدد پاکستانی رہنماﺅں نے بھارت کی شدید
مذمت کی ہے۔امیر جماعت اسلامی منور حسن نے کہا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ کے
سابق افسر ستیش ورما نے ممبئی اور بھارتی پارلیمنٹ پر حملوں کے بارے میں
انکشاف کر کے بھارت کے مکروہ اور بھیانک چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے، گھر کے
بھیدی نے لنکا ڈھا کر پوری دنیا کے سامنے بھارت کی پاکستان دشمنی اور
دہشتگردی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ بھارت کی پاکستان دشمنی اور اس کو دنیا میں
بدنام کرنے کی سازش ظاہر ہونے کے بعد بھارت کے خلاف اجمل قصاب کے قتل کے
خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنا چاہیے۔ امرناتھ یاترا، مقبوضہ
کشمیر میں ہندوﺅں کے قتل عام، سمجھوتہ ایکسپریس میں سیکڑوں پاکستانیوں کو
زندہ جلانے سے لے کر ممبئی اور پارلیمنٹ پر حملوں تک تمام واقعات میں بھارت
اور انتہا پسند ہندوﺅں کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آچکے ہیں۔
ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور گروپ بھارت کو ہندو سٹیٹ بنانے کے لیے اقلیتوں
کو چن چن کر قتل کر رہے ہیں۔ مساجد، گردواروں اور چرچ جلانے کے واقعات اکثر
سامنے آتے رہتے ہیں۔ مسلم کش فسادات آئے روز کا معمول ہیں۔مولانا سمیع الحق،
حمید گل، یحییٰ مجاہد، حافظ سیف اللہ منصور، عبدالغفار روپڑی، مولانا نعیم
بادشاہ، مولانا ابوالہاشم اور خالد ولید نے کہا ہے پاکستانی حکمرانوں کو
چاہیے کہ وہ کسی قسم کے بھارتی و امریکی دباﺅ کا شکار نہ ہوں اور بھارتی
دہشت گردی کے حوالہ سے بھارت سرکار کا بھیانک چہر ہ دنیا کو دکھانے میں کسی
قسم کی مصلحت پسندی سے کام نہ لیا جائے۔ ممبئی حملوں کے حوالہ سے انڈیا
سمیت دیگر بیرونی قوتوں کے دباﺅ پر جن افرادکو گرفتار کیا گیا ہے انہیں فی
الفور رہا کیا جائے۔ ستیش ورما کے انکشاف سے بھارت سے یکطرفہ دوستی کی
پینگیں بڑھانے اور پاکستانی دریاﺅں پر ڈیموں کی تعمیر پر خاموشی اختیار کر
کے اپنی ہی دریاﺅں سے پیدا کردہ بجلی خریدنے کی کوششیں کرنے والوں کی
آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ محمد
ظفر الحق نے کہا ہے کہ اس بات کی اپنی اہمیت ہے کہ سابق واقعات کے بارے
محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا پڑوسی ملک کسی حد تک بھی جاسکتا
ہے۔ بھارت کے وزارت داخلہ کے ایک افسر کے بیان سے پارلیمنٹ اور ممبئی حملے
کے حوالے سے ایک تیسرا پہلو سامنے آیا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر
الزامات کی کون سی سوچ کارفرما ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنے داخلی معاملات کو
درست کرنے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور ممبئی حملوں کے
بارے میں ایک بھارتی افسر کے انکشافات پر سردست پاکستان ردعمل ظاہر کرنے کا
ارادہ نہیں رکھتا۔ ایک مستند ذریعہ کے مطابق مذکورہ انکشافات کے بارے میں
پاکستان کو نئی دہلی میں اپنے ہائی کمیشن کی جامع رپورٹ اور بھارتی حکومت
کے ردعمل کا انتظار ہے جس کے بعد ہی اس بارے میں کوئی لائحہ عمل بنایا جائے
گا۔ تاہم بھارتی افسر کے انکشافات درست ہونے کی صورت میں بھی پاکستان
جارحانہ طرز عمل اختیار نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان میں نئی حکومت قائم
ہونے کے بعد دہلی اور اسلام آباد کے درمیان سرد مہری میں خاصی کمی آئی ہے۔
دونوں ملک مذاکراتی عمل کی بحالی پر بھی آمادہ ہو گئے ہیں اور رواں سال
دونوں وزرائے اعظم کے درمیان دو سے زیادہ ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ایک ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر کے ان سنسنی
خیز انکشافات کے بعد پاکستان کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیناچاہیے، لیکن
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایسا کرے گا؟ یاد رہے کہ ان دونوں مواقع پر
پاکستان اور بھارت جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ریٹائرڈ انٹیلی جنس آفیسرساتیش
راﺅ نے اپنے ایک عدالتی بیان میں انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں حملے
بھارتی حکومت نے خود کرائے تھے اور اس کا مقصد سخت انسداد دہشت گردی قوانین
کو منظور کرانے کے لیے پارلیمنٹ پر دباﺅ بڑھانا تھا، لیکن سوال پیدا ہوتا
ہے کہ کس قیمت پر؟ یہ سنسنی خیز انکشاف ایسے وقت پر آیا ہے جب وزیر اعظم
نواز شریف بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں، تاہم بھارت مذاکرات
کی بحالی کو جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی حوالگی سے مشروط کر
رہا ہے۔ اب پاکستان، ساتیش کے بیان کی مشترکہ تفتیش کا مطالبہ کر سکتا ہے،
یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھایا جانا چاہیے، بدقسمتی سے بین
الاقوامی محاذ پر ہم اب تک بہت کمزور رہے ہیں۔ اس سے پہلے سانحہ سمجھوتہ
ایکسپریس کا الزام بھی پاکستان پر لگایا جاتا رہا۔
بعد ازاں ایک بھارتی ریٹائرڈ فوجی افسر نے بیان دیا کہ پاکستان اس کیس میں
ملوث نہیں ہے اور یہ بھی بھارتی انٹیلی جنس کا کام تھا، پاکستانی دفتر
خارجہ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور اس کا ردعمل آنے کی توقع ہے۔ مذکورہ
سانحات نے نہ صرف پاکستان، بھارت تعلقات کو ہلاکر رکھ دیاتھا بلکہ بھارت کے
عام شہریوں میں بھی پاکستان اور پاکستانیوںکے بارے میں غلط تاثر پیدا
ہوا۔بھارت کا دورہ کرنے والے پاکستانیوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنایا
گیا، اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا تصور بھی خراب ہوا، کیا پاکستان اب
دنیا سے کہے گا کہ اسے بے گناہ قرار دیا جائے اور مذکورہ واقعات کی
غیرجاندارانہ تحقیقات کرائی جائے۔ بھارت کو اگر اپنے افسر کے بیان کو قبول
کرنے میں پریشانی ہو سکتی ہے، تاہم اسے مذاکرات بحال کرنے کے لیے کم از کم
اپنی شرائط پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔اب کیا پاکستانی اجمل قصاب اور کشمیری
افضل گورو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے والی بھارتی سپریم کورٹ، انٹیلی
جنسن افسر کے اعترافی بیان کا ازخود نوٹس لے گی؟ بھارت کو اپنی سیاست کا
بھی ازسرنو جائزہ لینا چاہیے، وہ پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام
لگاتا ہے، لیکن اگر اس حوالے سے بھارت کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو بھارتی
انتہاءپسندی میں ہم سے کہیں آگے ہے، وہاں تو مسلمانوں کے خلاف نفرت کو
انتخابات جیتنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔کیا پاکستان میں کبھی کسی اقلیت
کے ساتھ اس قسم کا ریہ برتا گیا جیسا کہ بھارت مسلمانوں کے ساتھ برتتا ہے۔ |