ملک میں بجلی و گیس چوروں کی پکڑ دھکڑ شروع

پاکستان ایک عرصے سے بجلی و گیس کے بحران سے دوچار ہے۔ ایک دن میں دس بارہ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے اور گیس کی قلت سے ملک کی بے شمار صنعتیں دم توڑ چکی ہیں۔اس بحران کی ایک بڑی وجہ ملک میں بجلی و گیس چوری ہے۔ملک سے ہر سال اربوں روپے کی گیس اور بجلی چوری کی جاتی ہے، جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بجلی چوری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2010کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 23ویں نمبر پر تھا جبکہ 2011میں 131ممالک میں سے پاکستان 14ویں اور اب بجلی چوری کے حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ مگر اس چوری کی سزا کا سارا بوجھ عوام الناس پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداوار کا 40 فی صد ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے دوران ضائع ہو جاتا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ بجلی فراہم کرنے والے ادارے بجلی چوری، ضائع ہونے والی بجلی کا خسارہ عوام سے پورا کرتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا عذاب ان لوگوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جو اپنے بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ آئے دن بجلی کے نرخون میں اضافے نے عوام کے لیے بلوں کی ادائیگی بہت مشکل بنا دی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ بھی بجلی کی چوری کی بنیادی وجہ ہے۔ بجلی چوری کی مد میں پاکستان کے عوام کے خزانے سے383 ارب روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں، اس مد میں بجلی استعمال ہوتی ہے، بل نہیں دیے جاتے۔ بجلی کو چلانے کے لیے حکومت کے خزانے سے جو پیسے خرچ کیے جاتے ہیں وہ 383 ارب روپے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً 160 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران صارفین سے 120 ارب روپے کی وصولیاں نہیں کی جاسکیں 103 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی چوری بلوچستان میں ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان میں64 ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی۔ اس اعداد و شمار کے مطابق جتنی بجلی بلوچستان میں استعمال کی گئی اس کی تقریباً75% چوری کرلی گئی۔ کے پی کے میں فراہم کی جانے والی تقریباً 55% بجلی چوری کی جاتی ہے صوبہ سندھ پاکستان کا سب سے بڑا نادہندہ ہے۔ بجلی بلوں کی مد میں 50 ارب روپے کا قرضدار ہے۔اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 32ارب روپے سے زائد کی گیس چوری اور ضائع ہوئی ہے، جس سے گیس کمپنیوں کے نقصانات میں اضافہ ہورہا ہے۔ سال12-2011 کے دوران سوئی نادرن گیس کمپنی کے نقصانات ساڑھے11فی صد اور سوئی سدرن کے گیس نقصانات 8فی صد رہے ہیں۔ سال 12-2011 میں اوگرا کو 5ہزار 382شکایات موصول ہوئیں تھیں، جن میں سے 5ہزار ایک سو شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ گیس کے زیادہ بلوں پر 3کروڑ 46لاکھ روپے عوام کو واپس دلائے گئے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران گیس کمپنیوں نے 9ارب 60کروڑ روپے صارفین سے وصولی کی درخواست کی تاہم اوگرا نے نقصانات کی مد میں صارفین سے وصولی کی درخواست مسترد کردی۔

اس حوالے سے پاکستان کی موجودہ حکومت کافی متحرک نظر آرہی ہے۔ گزشتہ دنوں چینی صوبے گوانگ ڑو میں چائنہ سدرن پاور گرڈ کے دورے کے دوران وزیر اعظم میاں نوازشریف نے ملک میں تونائی چوری کے حوالے سے چین کا تعاون مانگتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو لائن لاسز اور بجلی چوری کو روکنے کے لیے چینی ماہرین کی معاونت کی ضرورت ہے۔اسی حوالے سے وزیراعظم کو بتایا گیا کہ فیکٹری مالکان مبینہ طور پر 270 ملین روپے کی گیس چوری کر رہے ہیں۔ سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کی طرف سے حال ہی میں شروع کیے گئے گیس چوری کے خلاف آپریشن کے دوران کمرشل ملوں اور فیکٹریوں پر متعدد چھاپے مارے گئے ہیں جس کے دوران بھاری مقدار میں گیس چوری کیسز سامنے آئے۔ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو دورہ فیصل آباد کے دوران ایک ٹیکسٹائل مل کا دورہ کرایا گیا جو گیس چوری میں ملوث تھی۔ اس مل پر جب چھاپہ مارا گیا تو یہ گیس چوری میں ملوث پائی گئی تو اسے مجموعی طور پر 11 بلین روپے کا جرمانہ کیا گیا۔ وزیراعظم کو متعلقہ حکام نے بتایا کہ اس مل کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کروایا جا چکا ہے اور اس ملز کی بیشتر مشینری کو قبضے میں لے کر سیل بھی کیا گیا۔

پیر کے روز وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بجلی اور گیس چوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا حکم دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ توانائی بحران متعلقہ اداروں کی کرپشن، لائن لاسز بجلی و گیس چوری اور سابقہ حکومتوں کی طرف سے توانائی بحران پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے حد سے بڑھ چکا ہے جس پر مختصر ٹائم فریم میں قابو پا کر صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں کی ملی بھگت کے بغیر بجلی اور گیس کی چوری ناممکن ہے لہٰذا بجلی اور گیس چوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا ہر حال میں آغاز ہو جانا چاہیے۔ بجلی چور اور گیس چور کسی بھی نرمی کے مستحق نہیں انہیں نشان عبرت بنا دیں گے۔ پورے ملک میں بجلی اور گیس چوری کرنے والوں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری رہے گا اور جو بھی ملوث پایا گیا ان سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی کیونکہ گیس اور بجلی چوری بھی کرپشن کے زمرے میں آتی ہے۔ ہماری حکومت کی اولین کوشش ہے کہ ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے اور اگر ہم بجلی چوروں اور گیس چوروں کو قابو کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ پانچ سے چھ گھنٹے تک لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ فیصل آباد سے پکڑی جانے والی ایک مل سے 27 کروڑ روپے سالانہ کی گیس چوری کا معاملہ دیکھنے کے لیے خود فیصل آباد آئے ہیں، توانائی بحران کی جو اہم وجہ ہے وہ کرپشن اور لائن لاسز ہیں اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جامع حکمت عملی اختیار کر چکی ہے۔ جہاں بھی بجلی چوری ہوتی ہے وہاں متعلقہ ادارے کے ذمہ داران اور ادارہ ملوث پایا جاتا ہے۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی وسائل لوٹنے والے بجلی وگیس چوروں کو قانون کی سخت گرفت میں لایا جائے گا اور ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ملک توانائی بحران سے دو چار ہے لیکن گیس اور بجلی چور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں جنہیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے ڈی سی او فیصل آباد کو ہدایت کی کہ وہ بجلی اور گیس کی چوری کی روک تھام کے لیے موثر آپریشن جاری رکھیں اور اس ضمن میں کسی قسم کے اثر و رسوخ کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ ان قومی مجرموں کے خلاف مقدمات کی بھرپور انداز میں پیروی کی جائے۔ توانائی بحران کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں جن کے لیے نئے پیداواری منصوبوں کے قیام کے علاوہ بجلی کے لائن لاسز پر قابو پانا اور چوری روکنا اولین ترجیح ہے۔واضح رہے کہ پیر کے روز فیصل آباد کی ایک مل پر چھاپا مارا جس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ سالانہ 27کروڑ روپے کی بجلی چوری کرتی ہے۔ ڈی سی اونجم احمد شاہ نے بتایا کہ فیصل آباد میں گیس چوری کے 6کیسز پکڑے ہیں جن میں 40کروڑ روپے سالانہ کی گیس چوری کا اندازہ ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700802 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.