ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاسگنجوی
، کتاب :کھرے سکے ،اردو اکیڈمی سندھ ،کراچی ،سال اشاعت 2009،صفحات 458،قیمت
300روپے
حیدرآباد سندھ میں مقیم ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کاسگنجوی کا شمار عالمی
شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیبوں ،دانش وروں اور ماہرین تعلیم میں ہوتا
ہے ۔انھوں نے تدریس ادب ،تحقیق ،تنقید ،تراجم ،تخلیق ادب اور عالمی کلاسیک
کے اختصاصی مطالعہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ اردو میں ان کی
تیس کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں جن کی بدولت اردو ادب کی ثروت میں
اضافہ ہوا ہے ۔اسلوبیاتی تنقید میں ان کی رائے کو مستند سمجھا جاتا ہے ۔ساختیات
،پس ساختیات ،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مباحث سے انھیں گہری دلچسپی ہے ۔اردو
زبان کے ارتقا اور اردو کی ادبی تحریکوں کے متعلق ان کے عالمانہ خیالات کی
اہمیت مسلمہ ہے ۔انھوں نے تحقیقی مقالات ،مکاتیب ،مخطوطات ،تدوین و ترتیب
اور متعدد بنیادی ماخذ تک رسائی کی راہ میں حائل دشواریوں کو دور کیا اور
اردو ادب کے طالب علموں کو نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کی راہ
دکھائی۔ان کی افسانہ نگاری ،انشائیہ نگاری اور ناول نگاری کے اعجاز سے اردو
ادب کو عالمی ادب کے برابر لانے کی مساعی میں پیش رفت ہوئی ۔وہ اپنی ذات
میں ایک انجمن ،دبستان ادب اور دائرۃالمعارف ہیں ۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا
سے بے نیاز پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں ۔ان کی علمی ،ادبی اورقومی خدمات
کا ایک عالم معترف ہے ۔
’’کھرے سکے ‘‘ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی کی نہایت اہم تصنیف ہے ۔اس
تصنیف میں مصنف کے اسلوب اور کتاب کے مشمولات کے بارے میں ابو سعاد ت جلیلی
،ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی ،سید محمد قاسم ،شبیر احمد انصاری ،پروفیسر ڈاکٹر
عزیز انصاری اور پروفیسر ڈاکٹر احمر رفاعی کی عالمانہ تحریریں شامل ہیں ۔کھرے
سکے کئی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل معرکہ آرا تصنیف ہے ۔اس کے مطالعہ
سے قاری اردو زبان و ادب کی ان عظیم اور ہفت اختر شخصیات سے متعارف ہوتا ہے
جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے مہیب سناٹوں کا خا تمہ ہوا اور سفاک ظلمتوں
کو کافورکرنے میں مدد ملی ۔ہماری محفل کے یہ آفتاب و ماہتاب ہمار ا بہت بڑا
قومی اثاثہ ہیں ۔فاضل مصنف نے جن ادیبوں کے اسلوب پر مضامین اس کتاب میں
شامل کیے ہیں ان کے نام حسب ذیل ہیں:
نسیم انجم ،ابولمعانی عصری ،قیصر سلیم ،نعیم صدیقی ،پروفیسر عزیز جبران
انصاری ،گلزار جاوید ،ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی ،بانو قدسیہ ،رئیس الدین طہور
جعفری ،جمیل عثمان ،منظر عارفی ،ثاقبہ رحیم الدین ،اکبر حمیدی،اے غفار پاشا
،پروفیسر ہارون الرشید ،سید محمد قاسم ،ضیا خان ضیا،ڈاکٹر خیال امروہوی ،ماہر
القادری ،شارق بلیاوی ،محسن بھوپالی ،خواجہ منظر حسن منظر ،صدیق فتح پوری ،جسارت
خیالی ،آغا گوہر ،پروفیسر وفا صدیقی ،عبید الرحمٰن عبد،حشمت یو سفی ،ڈاکٹر
محمد محسن ،مرزا عاصی اختر ،بہرام طارق ،سید نعمت اﷲ ،ڈاکٹر شفیع عقیل احمد
،شبیر احمد انصاری ،کلیم چغتائی،پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خان ،سید رفیق
عزیزی (علیگ )،پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی ، ڈاکٹر فرمان فتح
پوری ،مظہر خیری ،پروفیسر خالد وہاب ،طاہر سلطانی ،سید حسن ظہیر ،ڈاکٹر
رشید امجداور ممتاز رفیق شامل ہیں ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہمارے ساتھ المیہ یہ ہو رہا ہے کہ چربہ ساز
،سارق اور کفن دزد قماش کے لفاظ حشرات سخن نے گلشن ادب کوتاراج کرنے کی
ٹھان رکھی ہے ۔اس مسموم ماحول میں جن عظیم دانش وروں نے خون دل دے کے گلشن
ادب کو نکھارا ہے ان کے نام تاریخ ادب میں آب زر سے لکھے جائیں گے ۔ڈاکٹر
عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی نے ان عظیم اور باکمال تخلیق کاروں کو کھرے سکے
قرار دیاہے ۔یہ وہ کھرے سکے ہیں جنھوں نے اپنی فقید المثال تخلیقی
کامرانیوں کا اکناف عالم میں سکہ جما دیا ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کے
رگ سنگ میں اتر جانے والے ان ادیبوں کو قدرت کاملہ کی طرف سے ید بیضا کا
معجزہ دکھانے کی صلاحیت عطا کی گئی ۔اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے انھوں
اقلیم سخن کو مسخر کیا اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام کیا۔ان
کے بار احسان سے اہل علم و دانش کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔زمانہ مسلسل ترقی
کے مدارج طے کرتا چلا جا رہا ہے لیکن ان جیسا با کما ل اور لا زوال ادیب اب
کہا ں پیدا ہو گا ۔یہ کھر ے سکے یاد گار زمانہ ہیں ۔ جب تک دنیا باقی ہے ان
کے فرامین مستند رہیں گے اور ان کا اسلوب ہی سکہ ء رائج الوقت قرار دیا
جائے گا ۔انھیں لمحے نہیں صدیاں سنیں گی اس لیے ان کی باتوں کو محفوظ رکھنا
وقت کا اہم ترین تقاضا تھا جس سے ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کا سگنجوی بہ طریق
احسن عہدہ بر آ ہو ئے ہیں ۔کھرے سکے کی اشاعت سے ہمیں اپنی حقیقت ،تہذیبی
میراث اور اقدار و روایات کی تفہیم کے سلسلے میں ایک نشان راہ مل گیا ہے ۔جس
فنی مہارت ،استدلال ،تنقید و تحقیق ،تجزیات مطالعہ ، درد مندی،مطالعہء
احوال ،خلوص اور دیانت سے ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی نے ان اہم
شخصیات کے بارے میں اپنے عالمانہ خیالات کو زیب قرطاس کیا ہے اس کے اعجاز
سے ان کی تحریر کی ثقاہت میں بے پناہ اضافہ ہو ا ہے ۔اس اعتبار سے کھرے سکے
ان نابغہء روزگار ادیبوں پر کام کرنے والوں کے لیے ایک اہم ترین بنیادی
ماخذ کی صورت میں سامنے آئی ہے ۔اس کتاب نے اردو داں طبقے کو ادبی کہکشاں
کے ان تابندہ ستاروں سے متعارف کرایا ہے جن کی تابانیوں سے جہان علم و ادب
منور ہو گیا ۔یہ کھرے سکے ہماری عظیم تہذیبی میراث ہیں جنھوں نے ہمیں اقوام
عالم کی صف میں معزز و مفتخر کر دیا۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی ایک صاحب طرز ادیب ہیں ان کا اسلوب
پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے ۔کلاسیکی ادب او رمعاصر ادب
پاروں پر ان کی گہری نظر ہے ۔ایک وسیع المطالعہ ادیب کی حیثیت سے انھوں نے
عالمی ادب کے تراجم سے اردو زبان کا دامن نئے اسالیب سے مالا مال کر دیا ۔معاصر
ادیبوں کی اہم تصانیف پر ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی کے تجزیاتی
مطالعے کھرے سکے کا ایک اور اہم موضوع ہیں ۔اس کے تحت پروفیسر سید قاسم
جلال کی تصنیف ’’کھوج پرکھ ‘‘،ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی کی تصنیف ’’میری نظر
میں ‘‘،ڈاکٹر شمس جیلانی کی تصنیف ’’حرا سے روشنی ‘‘،ابو سعادت جلیلی کی
تصنیف ’’للو لال جی کوی ‘‘ اور پروفیسر شوکت واسطی کی تصنیف ’’المیہ حکیم
فسطاس ‘‘شامل ہیں۔ان کتابوں کے عمیق مطالعہ کے بعد لائق مصنف نے اپنا جو
ٹھوس عالمانہ تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے وہ ان کے تبحر علمی کی دلیل ہے ۔کتابوں
پر یہ تبصرے اپنے دامن میں فکر و نظر اور بصیرت کا ایک گنجینہ لیے ہوئے ہیں
۔یہ تبصرے قاری کو اس جانب مائل کرتے ہیں کہ وہ کتاب سے ناتہ جوڑیں اور بحر
علم کی غواصی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں ۔
’’کھرے سکے ‘‘اپنے دامن میں جو گل ہائے رنگ رنگ لیے ہوئے ہے ان کے اعجاز سے
قاری ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت سے آشنا ہوتا ہے ۔اس پر ایک
وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اس کتاب کی شخصیات ،کتابیات ،اسلوبیات
،تجزیات ،موضوعات اور خیالات کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔اس عالم میں مرحلہ ء
شوق ہے کہ طے ہونے میں ہی نہیں آتا۔مصنف کی گل افشانیء گفتار قاری کو اپنی
گرفت میں لے لیتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ پڑھ رہاہے وہ
تو پہلے سے اس کے نہاں خانہء دل میں موجود ہے ۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا
سگنجوی کی بات دل سے نکلتی ہے اور قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے ۔ایک
رجحان ساز ادیب کی حیثیت سے انھوں نے قارئین ادب کو کئی اہم مسائل کی جانب
متوجہ کیا ہے ۔ادب میں حرکت و حرارت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اس لیے ان کا
موقف یہ ہے کہ ایک نئی ادبی تحریک کی ضرورت پر غور کیا جائے ۔وہ قارئین ادب
کے دلوں کو ایک ولولہء تازہ دینے کے صدق دل سے متمنی ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کا سگنجوی کی تصنیف ’’کھرے سکے ‘‘ان کے چھ عشروں
پر محیط ادبی مطالعات کا ثمر ہے ۔اس کتاب کی اشاعت سے ادبی تاریخ کے کئی
اہم کردار اور واقعات محفوظ ہو گئے ہیں ۔یہ کتاب پاکستانی زبانوں کے ادب کے
بارے میں مفید معلومات سے لبریز ہے ۔جدید تنقید ،تیزی سے بدلتے ہوئے
معاشرتی تقاضوں ،میڈیا کی مجموعی صورت حال ،ادب کی اہمیت ،معنویت ،مقصدیت
اور افادیت کے متعلق انھوں نے جس خلوص سے لکھا ہے وہ ان کی حب الوطنی
،انسانی ہمدردی اور جذبہء انسانیت نوازی کا ثبوت ہے ۔ارض وطن ،اہل وطن اور
بنی نوع انساں کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنے والے اس نابغہء روزگار ادیب نے
گزشتہ چھ عشروں میں جو کچھ لکھا وہ تپاک جاں سے لکھا۔اس وقت وہ شدید علیل
بھی ہیں اور مزید کچھ لکھنا بھی ان کے لیے کٹھن مرحلہ ہے ۔وطن عزیز کے
مقتدر حلقوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ ایک سچا،کھرا اور وطن سے بے
پناہ محبت کرنے ولا پاکستانی دانش ور جس نے اپنی جوانی وطن کی خدمت میں صرف
کر دی ۔اپنی تصانیف سے قومی تشخص کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ،وطن
اور اہل وطن سے ٹوٹ کر محبت کی اور ہمیشہ گوشہ نشینی کی زندگی کو ترجیح دی
اب کس حال میں ہے ۔ایسے کھرے سکوں کو پہچاننا ہماری قومی ذمہ داری ہے ۔ان
کو سہل نہیں سمجھنا چاہیے انھوں نے جوکارہائے نمایا ں انجام دئیے ہیں وہ
تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہیں ۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کا سگنجوی نے جن
کھرے سکوں کی جانب توجہ دلائی ہے وہ بلا شبہ سب کے سب کھر ے سکے ہی ہیں
لیکن میں یہاں ایک اور بہت ہی کھرے سکے کا نام بھی اس فہر ست میں شامل کرنے
کی اجازت چاہوں گا ،جو نمود و نمائش سے بے نیاز ہے اور خاموشی سے پرورش لوح
و قلم میں ہمہ وقت مصروف ہے وہ نام ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کا سگنجوی کا
ہے ۔ |