وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف
نے پاکستان کے نجی شعبے میں لگنے والے پہلے باضابطہ پن بجلی گھر کا افتتاح
کیا ہے۔
چوراسی میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے اس پن بجلی گھر کو 40 ماہ کی
ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا ہے
بونگ سکیپ نامی اس پن بجلی گھر کو ایسے وقت میں نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جا
رہا ہے جب موجودہ حکومت کی تمام تر توجہ بجلی کا بحران ختم کرنے پر مرکوز
دکھائی دیتی ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بے ضابطگیوں کی شکایات سامنے آنے کے بعد حکومت نے
پانی و بجلی کے وفاقی سیکرٹری کو تبدیل کر دیا ہے اور اعلان کیا ہے چیئرمین
واپڈا کو بھی جلد تبدیل کر دیا جائے گا۔
بونگ سکیپ نامی یہ بجلی گھر ایک ایسی کمپنی نے تعمیر کیا ہے جو پاکستان میں
اس سے پہلے تھرمل بجلی گھر چلا رہی ہے۔
جبکو کے نام سے مشہور یہ کمپنی کسی حد تک متنازع بھی رہی جب نواز شریف ہی
کی حکومت کے ساتھ بجلی کے نرخ کے معاملے میں اس کا تنازع نوے کی دہائی میں
خبروں کی زینت بنتا رہا۔
پیر کو اس منصوبے کے افتتاح کے موقع پر پاکستان میں توانائی کے شعبے میں
سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ دار بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
ان میں سے بعض پاکستانی تھے اور اکثر غیر ملکی۔ وزیراعظم نواز شریف نے غیر
ملکی سرمایہ کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلاخوف و خطر توانائی کے
شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔
’آپ موجودہ حکومت کو اپنے ساتھ مکمل تعاون کرتا ہوا پائیں گے۔ حکومت آپ کی
تمام ضروریات کا خیال رکھے گی۔ سرمایہ کاروں کے ساتھ کاغذی کارروائی جلد از
جلد مکمل کرنے کے لیے ہم ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کی بھی کوشش کر رہے
ہیں‘۔
چند برس پہلے تک پانی کے زور پہ بننے والی بجلی کی مقدار، پاکستان میں
دستیاب کل بجلی کا ساٹھ فیصد تھی۔ آج کل حساب الٹ ہے۔ یعنی اب ساٹھ فیصد سے
زائد بجلی تیل اور گیس سے حاصل ہوتی ہے۔
اس صورت حال کا نتیجہ کیا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کسی ماہر کی ضرورت نہیں ہے۔
تیل اور گیس سے اگر بجلی کا ایک یونٹ 18 روپے میں پڑتا ہے تو پانی سے بننے
والی بجلی کی قیمت اس سے آدھی یا پھر اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔
انہی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے پن بجلی کو اہمیت دینے کا
فیصلہ کیا ہے اور پن بجلی کے کئی چھوٹے بڑے منصوبے سوچ بچار کے مراحل میں
ہیں۔
پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر سوچ بچار تو پچھلی حکومت اور اس سے پہلے
کی حکومتوں نے بھی کی لیکن، یہ سوچ عملی شکل اختیار نہیں کر سکی۔ سوائے
دریائے جہلم پر بننے والے اس چھوٹے پن بجلی گھر کے۔
اس بجلی گھر کے بارے میں توانائی کے شعبے کے ماہر بشیر لاکھانی کہتے ہیں کہ
اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بجلی گھر نیشنل گرڈ یا بجلی کے قومی
مواصلاتی نظام کے بہت قریب ہے۔
’اگر اس طرح کے نسبتاً چھوٹے بجلی گھر نیشنل گرڈ سے دور ہوں تو انھیں نیشنل
گرڈ تک لے جانے پر ہی اتنی رقم اٹھ جاتی ہے کہ ان میں سے بیشر منصوبے
ناقابل عمل رہتے ہیں۔ لیکن منگلا گرڈ سٹیشن سے قریب ہونے کے باعث اس کی
ٹرانسمیشن لائن کی لاگت بہت ہی کم ہو گی‘
اس بجلی گھر کا کامیابی سے مکمل ہونا ایک اور اہمیت کا حامل بھی ہے۔
ماضی میں تیل سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں میں سرمایہ لگانے والی کمپنی
کی جانب سے پن بجلی کے منصوبے میں سرمایہ لگانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان
میں پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ منافع بخش بھی
ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پن بجلی کے منصوبے اتنے ہی فائدہ مند ہیں
تو پھر پاکستان میں ان کا رواج کیوں زور نہیں پکڑ رہا؟
بشیر لاکھانی کی اس رائے سے بہت سے واقفان حال اتفاق کرتے ہیں۔
’میری بہت سوچی سمجھی اور تحقیق شدہ رائے ہے کہ پاکستان میں تیل مافیا پن
بجلی گھروں کی راہ میں
سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے نمائندے بیوروکریسی میں بیٹھے ہیں جو اس طرح کے
منصوبوں کو سرخ فیتے کا شکار کر دیتے ہیں‘۔
بشیر لاکھانی نے بتایا کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تیل سے
بجلی پیدا کرنا مہنگا سمجھا جاتا ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اس بات کو
یقینی بنایا جاتا ہے کہ ملک میں کل پیدا ہونے والی بجلی میں سے نصف پانی سے
بنائی جائے۔
پانی ہو، تیل یا گیس اور یا پھر کوئلہ۔ اصل مقصد ٹربائن نامی مشین کو چلانا
ہے جو بجلی بنانے کا اصل ہتھیار ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ پانی اسے تقریباً مفت
میں گھمائے گا، کوئلہ خریدنا پڑے گا، گیس اب کم ہو رہی ہے اور تیل بہت
مہنگا ہے۔ ایسے میں ماہرین کہتے ہیں کہ جتنی زیادہ یہ ٹربائنز پانی سے
گھومیں گی، بجلی اتنی ہی سستی بنے گی۔ |