الوداع ٹیلی گرام سروس

پتہ نہیں کیوں آج افطارکے بعدمجھے ٹیلی گرام کی یادکیوں آگئی،اور اس کی یادآتے ہی دل میں اس خواہش نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں کہ روزآنہ تمام ہی احباب سیاسیات، اسلامیات، اور دیگرپرمضامین لکھتے ہی رہتے ہیں توکیوں نہ راقم آج ٹیلی گرام (تار سروس )کے بارے میں کچھ تحریر کردے ۔اس تحریرسے یہ آگاہی بھی آج کی نسل کوہو جائے گی کہ پہلے ٹیلی گرام کی کیااہمیت تھی اور آج یہ ناپید کیوں ہے۔خیر آیئے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔

کیا زمانہ تھاجب ٹیلی گرام کے آنے سے لوگوں کے دل دہل جایاکرتے تھے کہ کیاانہونی ہوگئی ہے۔یہی ٹیلی گرام لوگوں کے دلوں کو خوش بھی کر دیتی تھی،کسی کی پیدائش ،کسی کی امتحان میں کامیابی یا ملازمت میں سلیکشن کی خوشخبری بھی دیتا تھا۔ب 163سال بعد اس سروس کو کہیں کہیں جزوی طورپر کہیں مکمل طورپراور انڈیامیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندکردیا گیاہے۔اخبارات کے مطابق ایک ادارے نے یہ بھی اعلان کیاتھاکہ یہ ٹیلی گرام سروس آخری باراتوار کی صبح آٹھ بجے سے رات نوبجے تک چلے گی۔س کے بعد بند کر دی جائے گی۔یوں ہند کے لوگوں نے اس میموریبل ٹائم کو اپنے دوستوں، رشتہ داروں،کو ریکارڈ ٹیلی گرام (تار) بھیجاتاکہ یہ ایک ریکاڑد کی صورت گناجائے۔1854ء میں عام لوگوں کے لئے یہ سروس شروع کر دی گئی تھی۔ملک کی آزادی کی جنگ لڑنے والے انقلابی برطانوی کمیونیکشن کو ٹھپ کرنے کے لئے اکثر ٹیلی گرام لائن کو کاٹ دیتے تھے یہی نہیں بعدمیں فوج کے جوانوں کواچھی یا بُری خبریں مثلاً چھٹیاں، ٹرانسفر، جوائننگ،جنگ، ایمرجنسی کی خبرٹیلی گرام کے ذریعہ ہی ملتی تھیں۔اس کے علاوہ فلموں میں بھی سلور اسکرین پر ڈاکیہ کے ادا کردہ ایک لفظ (تار آیاہے) سے ہی فلمی کہانیوں میں اتار چڑھاؤ شروع ہو جاتی تھی۔ہمارے یہاں تو اب شاید ہی اس سروس سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں بلکہ ہمارے یہاں تو اب ڈاک کا نظام بھی کافی ناگفتہ با ہوچکاہے اور لوگوں نے اس طرف بھی توجہ کم دی ہے اس کی اہم وجہ تو نئی نئی ایجادات ہیں جیسےE-mail، ایزی پیسہ، منی گرام وغیرہ وغیرہ ،ان سہولتوں کے ہوتے ہوئے لوگ ڈاک اور ٹیلی گرام سروس کی طرف کہاں دیکھتے ہیں کیونکہ یہ تمام ایجادات آپ کو اپنے احباب سے فوری رابطے کرانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔جب سے فون،موبائل فون،ایس ایم ایس اور انٹر نیٹ آیا ہے تار سروس کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔عوامی ٹیلی مواسلات کمپنی نے آمدنی میں زبردست گراوٹ اور نقصان کی وجہ سے تارسروس کوبندکرنے کافیصلہ کیا،اچھا ہی ہواکیونکہ کوئی بھی کمپنی نقصان برداشت نہیں کرسکتی اور عوام الناس پرانے کو چھوڑ کراس دور میں جدت کی طرف بھاگتے ہیں۔یہ بات ضرور توجہ طلب ہے کہ وہاں پرکام کرنے والے ملازمین کاکیاہوا۔کیا ان کو کسی اور محکمے میں ضم کیاگیایاپھر ان ملازمین کو بھی روتا بلکتا ان کے حال پرچھوڑ دیاگیا۔اکثر ملکوں میں تو یہ قیاس آرائی ہے کہ ان تمام ملازمین کو جوٹیلی گرام (تار) سروس سے جُڑے ہوئے تھے انہیں موبائل لیند لائن اور براڈبینڈخدمات میں بھیجاجائے گا۔ٹیلی گرام سروس کے ایک ملازم کاکہناہے کہ اُس دورمیں ’’ تار بابو ‘ ‘ کے عہدے کے لئے تعلیمی قابلیت صرف میٹرک فرسٹ ڈویژن تھی لیکن امتحان اور تحریری امتحان میں جو تیز دماغ کے ہوتے تھے انہیں ہی اس سروس کے لئے لیاجاتاتھا۔ تمام تار افسران کو’’ڈاٹ اور ڈیس ‘‘کے بارے میں اچھی معلومات ہوتی تھی جسے بعد میں ترجمہ کیاجاتاتھا۔

اردو لغت میں ٹیلی گراف یا ٹیلی گرام کے معنی ہیں’’دور خبر پہنچانے کا آلہ‘‘ ایک زمانہ تھاجب لاکھوں لوگوں کے لئے یہ پیغامات پہنچانے کا سب سے تیز رفتار ذریعہ تھالیکن آج اس کی اہمیت ختم ہوگئی ہے ۔ایک اخباری خبر کے ذریعے یہ بھی آگاہی ہوئی کہ پی ٹی سی ایل کے جنرل مینیجر نے لاہورمیں ہوئے نومبر بیس اور اکیس کانفرنس میں اپنے ٹیلی گراف (تار)سروس کو بند کرنے کا اعلان کر دیاتھا۔اور اس کی وجہ بھی یہی بتائی گئی تھی کہ کمپنی کو بہت نقصان ہو رہاہے جس کی وجہ سے یہ شعبہ بندکرناضروری ہے ۔ چونکہ پاکستان انٹرنیشنل ٹیلی گراف یونین (I.T.U)کا ممبر بھی ہے اس لئے انہیں بغیر اطلاع کے اپنی سروس بند نہیں کرسکتااور دوسری وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ پی ٹی سی ایل نے آگاہی اور انفارمیشن کے لئے آرمڈ فورسز، کورٹس، بینکس، نیشنل اور انٹر انیشنل انسٹی ٹیوشنز کو بھی اپنی سروس بند کرنے کے مطعلق لیٹر بھیج دیاہے کیونکہ اب بھی ہماری یہ اجنسیز سولجرز کو بلانے ، عدالت عملہ کورٹ آرڈرز کی وصولی کے لئے اسی سسٹم کو استعمال کر تے ہیں ۔

آج جدیدیت اور جدت کا دور دورہ ہے لہٰذا دنیابھرکے افراد تیز رفتار ی کی دوڑ میں شامل ہیں۔اور ہرکوئی یہی چاہتاہے کہ وہ اپنے احباب سے فوری رابطہ کر لے۔اپنے مراسلات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر فوری طور پر ٹرانسفر کر لے یوں ہر کوئی آج کل ای میل اور اسکائپ ، موبائل فون اور اسی طرح کے جدیدیت کا سہارا لینے میں سرگرداں ہیں۔نئی چیزیں اور دریافتیں زندگی کے میدان میں آچکی ہیں اور لوگ پرانے طریقۂ کار کو بھلا بیٹھے ہیں۔زندگی اور دنیا میں یہی کام جار ی و ساری ہے کہ لوگ پرانے کو بھول کر نئے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.