ہنر نہیں قدر کی کمی ہے۔۔۔

وطن عزیز پاکستان کو خدا نے بے شمار قدرتی خزانوں اور تحائف سے نوازا ہے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ترقی کی بیشتر منازل طے کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ، سب کچھ موجود ہے۔ اگر کچھ کمی ہے تو وہ صرف اور صرف ایمان کی کمی ہے۔ ہم بے ایمان ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنے فائدے اور نقصان میں فرق سمجھ نہیں آتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم توانائی و دیگر بحرانوں میں گھرے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس ہنر کی کمی نہیں ، قدر کی کمی ہے۔ ہمارے ملک کی عوام ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو موقع نہیں دیا جاتا، جس کی وجہ سے ہماری کوئی بھی نئی ایجاد مشہور ہونے سے پہلے ہی زوال اور خرابیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک کے بچے اور بوڑھے سب کے سب ذہین ہیں اور ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان کے ذہین نوجوان بچوں کی بات کی جائے تو بابر اقبال، ارفع کریم، سکندر محمود بلوچ اور ان جیسے متعدد دیگر وہ نام ہیں جنہوں نے آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کا نام روشن کیا اور کئی ریکارڈ بنائے۔ ارفع کریم اب اس دنیا میں نہیں رہی مگراس نے پاکستان کے لئے نہ صرف ریکارڈز بنائے بلکہ بین الاقوامی آئی ٹی کمپنی مائیکرو سوفٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کے لئے کام کیا۔ ان نوجوانوں کے علاوہ کئی اور نوجوان ہیں جنہوں نے ملک کے لئے کچھ نہ کچھ کیا مگر ایسے نوجوانوں کی میڈیا تک عدم رسائی کے باعث ہم ان سے انجان ہیں۔ ہمیں نوجوانوں میں چھپی خوبیاں تلاش کر کے انہیں ملکی مفاد میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں سے ہٹ کر بزرگ یا بڑوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر ثمر مبارک توانائی کے بحران کو ختم کرنے میں نہایت اہم کر دار ادا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ثمر محمد مبارک مند نے حال میں کوئلے سے گیس بنا کر دکھائی ہے اور اس گیس سے بجلی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لئے حکومت سے رقم کا مطالبہ کیا مگر حکومت نے ان کے اس کارنامے کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی رقم یا پیکج کا اعلان نہیں کیا۔ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ حکومت فنڈ ز فراہم کرے تو ایک سال میں گیس کی قلت ختم کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئلہ سے حاصل شدہ گیس بیرون ملک سے خریدی گئی بجلی اور گیس کی نسبت بہت سستی ہوگی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا ہے کہ کوئلے سے روزانہ پچاس سے ساٹھ ملین کیوبک فٹ گیس بنائی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں گیس سے ایک ہزار سے بارہ سو ملین مکعب فٹ کی کمی ہے، ایک گیسی فائر روزانہ ساٹھ سے ستر ملین مکعب فٹ بناتا ہے۔ ایسے مزید چار سے پانچ گیسی فائر بنا کر ایک سال میں گیس کی کمی ختم کر سکتے ہیں۔ گیسی فائر بنانے کے لئے ایک سے ڈیڑھ بلین ڈالر کی ضرورت ہے، اس سے ملک کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔توانائی کے بحران سے نجات کے حوالے سے مزید بات کی جائے تو حال ہی میں ڈاکٹر سرور نے جہلم (سرائے عالم گیر) میں واقع قائم نیشنل سائنٹفک اینڈ ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر میں پانی سے چلنے والی دو گاڑیاں بنائیں ہیں اور یہ دونوں گاڑیاں 60 فیصد ایندھن کی بچت کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ڈاکٹر سرور نے گاڑی بھی خود ڈیزائن کی ہے جسے ٹویوٹا کرولا موڈل کی کار کو درمیان سے کاٹ کر لیموزین کی شکل دی گئی ہے جبکہ اس کے انجن کی طاقت دو ہزار سی سی کے بجائے تین ہزار سی سی کر دی گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سی این جی کے برعکس پانی سے گاڑی چلاتے وقت گاڑی کے انجن کی پاور کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ پیٹرولیم ایندھن سے حاصل ہونے والی طاقت 19 فیصد جبکہ پانی سے حاصل ہونیو الی طاقت 140 فیصد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو سی این جی کی طرح گاڑی کے انجن پر دباؤ پڑتا ہے اور نہ گاڑی کا انجن جلد خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی ماحول دوست بھی ہے کیونکہ گاڑی چلتے وقت کاربن کے بجائے آکسیجن کی بھاری مقدار خارج کرتی ہے یعنی گاڑی جتنی زیادہ چلے گی ماحول میں فضائی آلودگی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی۔

ڈاکٹر غلام سرور کی پانی سے چلنے والی گاڑی نہ صرف پٹرول اور گیس کے استعمال میں کمی لا سکتی ہے بلکہ ماحول کی آلودگی میں بھی کمی لاسکتی ہے۔ آج کل سی این جی اسٹیشنز اور پٹرول پمپس پر گاڑیوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ اس مسئلے کو ڈاکٹر غلام سرور کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک میں ایسے متعدد لوگ ہیں جو ملکی ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کرنے کو تیار ہیں مگر ان کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی بڑا کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر حکومت ایسے لوگو کی سرپرستی شروع کر دے تو ملک تمام بحرانوں اور پریشانیوں سے نکل سکتا ہے۔ ہمیں یکجا ہو کرایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ذہانت کی کمی نہیں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہانت کی قدر کرتے ہوئے اسے استعمال میں لایا جائے تاکہ ملک کی ترقی اور بھلا ہوسکے۔
Sahir Qureshi
About the Author: Sahir Qureshi Read More Articles by Sahir Qureshi: 34 Articles with 40460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.