تاریخ شاہد ہے کہ بے شمارقومیں
صحیح سمت میں رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو گئیں جہاں انسا ن
کو خود ہی اس کی منزل کانہ پتہ ہو کہ اس نے کہاں نے جانا ہے توہ وہ کیا خاک
آنے والی نسلوں کو درست سمت دے گا وہ خاک قوم و ملک کی ترقی کا بیڑہ اٹھا
ئے گا جبکہ اسے توخود ہی اپنی صلاحیتوں کی سمت کا پتہ نہیں ۔بد قسمتی سے
ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسے حالات رواں دواں ہیں جہاں مسائل کے انبار کے
ساتھ ساتھ درست سمت رہنما ئی کا بھی فقدان ہے ۔ملک میں بڑھتی ہوئی بے
روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی نے پڑھے لکھے نوجوانوں جن سے ان کے والدین اور
بزرگوں کی توقعات وابستہ ہیں انہیں بھی مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا
ہے ۔
ایک سروے کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب حالیہ جرائم کی
شرح میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے اور ان جرائم میں ملوث افراد زیادہ تر پڑھے
لکھے نوجوان جنھیں بے روزگاری نے مایوسی کے اندھیروں میں جھونک دیا ہے ۔لیکن
ہمیں مل کر اس ملک کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی سمت گامز ن کر نا ہے ۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ ہم سب کومل کر اپنی اپنی ذمہ داری لینا ہوگی اور سمجھنا ہو
گی ۔حکمران تو شروع سے ہی ہمیں خون چوسنے والی جونکیں ورثے میں ملی ہیں ۔ہمیں
از خود انفرادی ذمہ داری کا شعور اجاگر کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ۔یاد
رکھئے نوجوانوں کو اگر دنیا کی برق رفتار ترقی میں آگے بڑھنا ہے تو درج ذیل
چند اٹل اصولو ںپر عمل پیرا ہو نا ہو گا ۔
1۔مستقل مزاجی
مستقل مزاجی اس کائنات کا بنیادی اور اٹل قانون ہے ۔اس کائنات کی ہر چیز
،ہر فعل مستقل مزاج ہے اگر آپ مستقل مزاجی کے ٹریک پر آجاتے ہیں تو کا ئنات
کی ساری طاقتیں آپ کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں اور کائنات کی یہ طاقتیں آپ کو
آپ کی منزل تک لے جاتی ہیں ۔کائنات غیر مستقل مزاج لوگوں سے نفرت کرتی ہے
اور یہ ان سے انتقام بھی لیتی ہے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں 90%لوگ غیر
مستقل مزاج ہیں جس کی وجہ سے وہ بے شمار معاشرتی و سماجی مسائل کا شکار ہیں
باوجود اس کے کہ ان کے پاس وسائل بھی ہیں ۔"Lack Of consistency leads to
deprivation''
2۔خو د اعتما دی
خود اعتما دی ایک ایسی پو شید ہ طاقت ہے جو کہ آپ کو ناممکن سے ممکن تک کا
سفر کرواتی ہے اپنی صلاحیتوں کو اجا گر کر کے انہیں بروئے کار لائیں ،اللہ
تعالیٰ نے ہر انسان کو یکساں صلاحیتوں سے نوازا ہے بس فرق صر ف اتنا ہے کہ
کچھ لوگ ان صلا حیتوں کو بروئے کار لانے میںکامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ
راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اس کی وضاحت آ پ کو چھوٹی سی مثال دے کر کرنا
چاہوں گا کہ تھامس ایڈیسن جس نے 12000کے قریب مختلف ایجادات کیں ۔روشنی کا
بلب اسی کا ایک کارنامہ ہے اور اس کو بنانے کے لئے اس نے 5500تجربات کیئے
اس کے بعد جا کر کامیاب ہوا ۔''Success is the ability to go from one
failure to another with no loss of en thusiasm''
یا د رکھئے کامیابی ناکامی کی محتاج ہے ،ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم ہمیشہ
کامیابی چاہتے ہیں بغیر کسی ناکامی کا سامنا کئے اور بغیر کسی چیلنج کا
سامان کئے صرف ہمیشہ (Short-Cut) راستہ کی تلا ش میں رہتے ہیں ۔بغیر اپنی
صلاحیتوں کو اجا گر کرنے اور ان پر بھروسہ کرنے کے معاشرے اور سماج کو لعن
طعن کرتے رہتے ہیں ۔یاد رکھئے ،دنیا کبھی آپ کی شخصیت ،آپ کی قابلیت اور آ
پ کی مظلومیت کا معاوضہ نہیں دیتی بلکہ یہ آپ کی کارکر دگی ۔آپ کی آئوٹ پٹ
اور آپ کی پر فارمنس کا معاوضہ دیتی ہے اور آپ کی صلاحیتوں کی قدر کر تی ہے
۔
97%لوگ اس بات سے آگاہ نہیں کہ کامیابی حاصل کرنا ان کے اپنے اختیار میں ہے
وہ قسمت ،مقدر اور سماجی حالت ہی کو الزام دیتے رہتے ہیں ۔
تاریخ میں اس حوالہ سے بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں ۔مختلف شخصیا ت نے اپنی
صلاحیتوں ،خود اعتمادی ،انتھک محنت اور مستقل مزاجی جیسی طاقت کے بل بوتے
عزت ،دولت اور شہر ت حاصل کی ۔ان میں امریکن صدر ابراہم لنکن جو نہایت غریب
خاندان سے تعلق رکھتا تھا ،بل گیٹس ،مسٹر ہونڈا،کارلس سلم ،کسنٹیلی فرائیڈر
چکن (KFC)وغیر ہ یہ چند مثالیں تھیں جن کی شہرت کا راز اپنی صلا حیتوں کا
صحیح استعمال اور مقاصد عظیم تھے ۔''عظیم دماغوں کے پاس مقاصد ہوتے ہیں
جبکہ دوسروں کے پاس محض خواہشات جس دن آپ اپنی مکمل ذمہ دار ی سمجھ لیں ،جس
دن آپ بہانے بنانا چھوڑ دیں ،معاشرے اور سماج کو لعن طعن کرنے کے بجائے
مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میںناکامیوں کی پروا کئے بغیر
ڈٹ جائیں گے اس دن میں آ پ کو یقین دلاتا ہوں آپ کی بلندی کے سفر کا آغاز
ہو جائے گا ۔لہٰذا قسمت کو کوسنے کی بجائے مقاصد ترتیب دیں اور ایک بہتر
سمت کی طرف گامزن ہوں ۔
اگر روزگار نہیں ملتا تو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر تے ہوئے کارو بار
کریں ۔بے شک چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو لیکن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر
بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا نوکری لینے والوں کی قطار سے نکل کر نوکری دینے
والوں کی قطار میں جانے کا عزم کر لیں اور کاروبار تو ہمارے پیارے نبی حضرت
محمد ۖ کا بھی پیشہ تھا ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق دنیا کے کل دس حصے
رزق میں سے نو حصے تجارت اور کاروبار میں ہے ۔انگریزی کا ایک مشہور مقولہ
ہے کہ ''Capital isn't scarce but the vision''جس کا مفہو م یہ ہے کہ کسی
بھی کاروبار کو شروع کرنے کے لئے سرمائے کی نہیں بلکہ ایک وژن ،ایک نظریے
اور ایک بالغ سوچ کی ضرور ت ہوتی ہے ۔ہم جب تک دوسرے لوگوں کی کامیابیوں
،مہربانیوں اور صلاحیتوں کی تعریف کرنا نہیں سیکھتے ہم اس وقت تک اچھی اور
مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے ،جب تک ہم اپنے آپ میں سے نفرتوں ،کدورتوں
،حسد ،کینہ اور بغض جسی ناسور کو نہیں نکالیں گے تب تک اچھی اور مطمئن
زندگی بسر نہیں کر سکیں گے ۔
میرے اس مضمون کو لکھنے کا مقصد صر ف اور صر ف مایوسی کے اندھیروں میں
چھوٹی سی شمع روشن کرنا تھا جو مجھ سمیت پاکستان کے تمام پڑھے لکھے
نوجوانوں پر بے روزگاری کے حوالے سے چھا ئی ہوئی مایوسی کا حل اس مضمون میں
قلمبند ہے ۔ |