نومبر 2008 کو ممبئی میں تاج محل
ہوٹل پر مسلح گروہ نے حملہ کر دیا اور بھارت نے حسب معمول الزام پاکستان کے
سر پر تھوپ دیا۔ اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کے سمندری راستے کا نقشہ تک
بھارتی میڈیا نے چیخ چیخ کر بتا دیا ۔ بھارت میں تو کسی کو سوئی چبھے تو
الزام پاکستان اور آئی ایس آئی کے سر دھرنا کوئی انہونی بات نہیں لیکن دکھ
کی بات یہ ہے کہ اپنے میڈیا نے تو ضلع اوکاڑہ میں اجمل قصاب کا گھر، خاندان
اور پتہ بھی ڈھونڈلیا ،ٹیلی وژن پر اس کے گھر اور گائوں کے مناظر بھی دکھا
دئیے ۔ میں اور میرے جیسے کچھ گمنام کالم نگار بولتے اور لکھتے رہے کہ
ڈرامے میں کئی جگہ جھول موجود ہے لیکن میڈیا تو میڈیا ہمارے کئی نامی گرامی
سیاستدان بھی یہ الزام پاکستان کے سر ڈال کر’’ملک دوستی ‘‘کا ثبوت دیتے رہے۔
خود ہمارے داستان گو وزیر داخلہ محترم رحمٰن ملک نے تو واقعے سے پہلے اجمل
قصاب اور اس کے ساتھیوں کی منصوبہ بندی اور سفر کی یوں منظر کشی کی کہ ہر
ایک نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا محسوس کیا۔ ہماری حب الوطنی
اور قومی دردمندی کی اس کی بڑی مثال کوئی ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس وقت
دوستی اور امن کی آشا کا جو بخار چڑھا اور پڑوسی کو خوش کرنے کی جو کوشش کی
گئی اس میں نہ تو قومی مفاد نظر آیا نہ ملک کی نیک نامی اور بد نامی کی
پرواہ کی گئی ۔سراغ رساں ایجنسیوں اور انٹیلجنس اداروں کی رپورٹس،تحقیقات
اور صفائیوں کو پس پشت ڈال کر میڈیا اینکرز اپنی اپنی رپورٹس مرتب کر رہے
تھے اور کچھ ایسے تجزیے کر رہے تھے جیسے ہر صورت پاکستان کو مجرم ثابت کرنا
ہے تاکہ عظیم صحافت کا بول بالا ہو۔ اب جب بھارت کے ایک سیکریٹری ستیش ورما
نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ ممبئی حملے بھارت نے خود کرائے کیونکہ اُس نے
دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مضبوط کرنا تھا اور اس سے پہلے پارلیمنٹ پر
حملہ بھی بھارت کی اپنی کارستانی تھی لیکن پھانسی افضل گرو کودی گئی جس کو
سزا دیتے ہوئے عظیم جمہوریت بھارت کی انصاف پسند سپریم کورٹ نے اعتراف کیا
کہ وہ اس پر امن شخص پر کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا لیکن عوامی دبائو کے
تحت اسے پھانسی دی جاتی ہے، یعنی انصاف کی اس سے اعلیٰ مثال بھی کوئی ہوگی
کہ بے گناہی کا اعتراف بھی اور موت کی سزا بھی اور حیرت کی بات یہ بھی ہے
کہ انسانی حقوق کی کوئی عالمی تنظیم تو نہیں بولی خود ہماری کوئی تنظیم بھی
نہ بولی، نہ ہی کوئی شخصیت گویا ہوئی کہ ایک بے گناہ انسان کیوں مارا گیا
کیونکہ اسے لشکر طیبہ، پاکستان اور آئی ایس آئی کے نام پر مارا گیا تھا اور
یہ سارے نام اِن شخصیات اور اداروں کے لیے پسندیدہ نہیں ہیں ۔ یہ کوئی ایک
واقعہ نہیں جس میں بھارت نے اپنے ہی شہریوں کو استعمال کیا اور پھر پاکستان
کے نام پر انہیں ہلاک کیا اگر چہ اکثر ایسا اس نے اپنے مسلمان شہریوں کے
ساتھ کیا لیکن جہاں اُسے ضرورت پڑی ہندو بھی استعمال کیے گئے اور سکھ بھی
اور الزام بڑی سہولت سے پاکستان پر لگا دیا۔ 8 ستمبر 2001 کو مہاراشٹر کے
ضلع ناشک کے ما لیگائوں میں کئی دھماکے کئے گئے جس میں مختلف رپورٹس کے
مطابق تیس سے چالیس افراد ہلاک ہوئے اور تقریباََ 125 زخمی۔ اِن دھماکوں کا
الزام بھی آئی ایس آئی پر لگا کر نو مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جو
سالہا سال سے جیل میں ہیں۔ ابھی حال ہی میں چار ہندونوجوانوں کو گرفتار کیا
گیا ہے جو کہ اصل مجرم بتائے جا رہے ہیں پھر بارہ تیرہ سال کی سزائے قید کس
جرم کی پاداش میں، کیا اقلیتوں کے حقوق کی کوئی تنظیم یا شخصیت یا اینکر اس
پر بولنا پسند کریں گے ۔ کچھ واقعات یہاں یا د دہانی کے لیے بیان کرنا
ضروری ہیں اور ایسے ہی ایک اور واقعے میں 15 جون 2004 کو احمد آباد پولیس
نے ایک انیس سالہ نوجوان لڑکی عشرت جہاں کو مزید تین اشخاص کے ہمراہ سرراہ
گولی ماردی تھی اور الزام لگایا گیا کہ وہ لشکر طیبہ کے لیے کام کرتی ہے اب
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں تھی اگر چہ اب
اُس کی زندگی تو واپس نہیں آسکتی لیکن اُس کو مارنے والے پولیس اہلکار کو
کیا سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے اور کیا اس الزام کا کوئی ہر جانہ بھی
ہوگا جو پاکستان پر لگایا گیا لیکن بھارت کو الزام لگانے اور ہمیں سہنے کی
عادت ہو چکی ہے اگر خود ہم اتنے مضبوط اور مستحکم ہوتے تو کسی کی مجال نہ
ہوتی کہ وہ اپنا ہر جرم ہمارے کھاتے میں ڈالتا، ہمیں دہشت گرد ریاست ثابت
کرتا، ہماری معیشت اور تجارت کا بیڑا غرق کرتا ،بین الاقوامی طور پر ہمیں
تنہا کرنے کی کوشش کرتا اور ہماری سرحدوں کے اندر اپنے دہشت گرد داخل کرتا
لیکن وہ دھڑلے سے ایسا کرتا ہے اس نے اپنے ثابت شدہ اور اقبالی دہشت گرد
سربجیت سنگھ کو جس اعزاز کے ساتھ دفن کیا وہ فسادی ہندو ذہنیت کی درست ترین
عکاسی ہے۔ لیکن بین الاقوامی سطح وہ واویلا یہ کرتا ہے کہ پاکستان دراندازی
کرکے بھارت میں دہشت گردی کرتا ہے اس کے آندھر پر دیش کے وزیر داخلہ
جانابڈی نے مئی 2007 میں مکہ مسجد حیدر آباد دکن میں ہونے والے دھماکوں کے
بارے میں بھی یہی کہا تھا کہ یہ سب کچھ جماعتہ الدعدۃ اور لشکر طیبہ نے آئی
ایس آئی کے کہنے پر کیا اس موقع پر نماز جمعہ کے چودہ نمازی شہید ہوئے تھے
جن میں سے پانچ پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ یہ تو صرف چند ایک واقعات
تھے جن کا تانا بانا بھارت سرکار نے بُنا اور الزام آئی ایس آئی اور
پاکستان پر لگا یا گیا لیکن ممبئی حملہ اور پارلیمنٹ پر حملہ کرو ا کے اس
نے اپنی فوجیں لاکر سرحدوں پر کھڑی کر دیں تھیں اور دنیا تو دنیا خود ہمارے
سیاستدانوں تک کو باور کرا دیا تھاکہ مجرم پاکستان اور اسکی ایجنسیاں ہی
ہیں۔ آج جب کہ خود گھر کے بھیدی نے لٹکا ڈھائی ہے تو بھارت کا میڈیا چپ
سادھے بیٹھا ہے اور بقول معروف بھارتی صحافی کلدیب نئیر کے بھارت میں تو
کوئی شور نہیں مچا۔ ظاہر ہے وہ پاکستانی میڈیا جتنا’’ اوور سمارٹ‘‘ نہیں
ہوگا اور دنیا میں نام اور پیسہ کمانے سے زیادہ اپنا قومی مفاد عزیز رکھتا
ہوگا لیکن ہمارے کچھ بڑے چینلز کے بھی زبان کو تالے لگ چکے ہیں اور آج جب
دنیا کے سامنے اصل دہشت گرد کو بے نقاب کرنے کا موقع ہے تو وہ شاید اس
کہانی کو کوئی نیا موڑ دینے کے لیے کسی نئی’’ تحقیقاتی رپورٹ‘‘ کی تیاری
میں مصروف ہیں تاکہ ورما اور مانی کو کسی نہ کسی طرح پاکستانی نہیں تو
پاکستانی ایجنٹ ہی ثابت کر سکیں جنہوں نے آئی ایس آئی اور پاکستان کے کہنے
پر عدالت میں بیان دیا ہو۔
میڈیا گروپ سے بھی زیادہ معنی خیز خاموشی حکومت پاکستان کی ہے جس نے اس
بیان کا کوئی نوٹس نہیں لیا کیونکہ خودوزیراعظم کو اپنا عہدہ سنھبالنے سے
پہلے ہی بھارت سے دوستی کی فکر لاحق تھی ،اعتراض دوستی پر نہیں بلکہ اس بات
پر ہے کہ بھارت خود اپنے ملک میں دہشت گردی کرے اور الزام ہمیں دے اور
ہماری معیشت ، صنعت اور ترقی کا جنازہ نکالے اور ہمارے ملک میں بھی
دراندازی کرے اور دنیا کے سامنے ہمیں درانداز ثابت کرے۔ بقول کلدیپ نئیر کے
ہمیں پیچھے کی بجائے آگے دیکھنا چاہیے تو کیا بھارت جو چاہے کرے اور ہم
پیچھے نہ دیکھیں۔ اُس کی دراندازی نے ہی پاکستان توڑا تھا تو کیا ہماری
’’امن کی آشا‘‘ مہم کے پیچھے ہم خدانخواستہ پھر کوئی سانحہ برداشت کریں
لیکن پڑوسی سے دوستی کریں۔ دوستی اور امن بہت ضروی ہے لیکن پہلے دشمنی کی
وجوہات تو ختم کی جائیں پڑوسی کو یہی سکھا دیا جائے کہ’’ جیو اور جینے‘‘ دو
کا اصول ہر دو طرف سے بروئے کار لانا چاہیے ۔ بھارت سے زیادہ ہمیں اپنے
پالیسی سازوں ، میڈیا اینکرز اور سیاستدانوں کو یہ بات بتانی اور سکھانی
ہوگی کہ دوستی اور امن کی آشااپنی جگہ لیکن ہماری پہلی ترجیح ہمارا ملک
ہونا چاہیے اور ان کی یاد داشت کے لیے عرض ہے کہ ہمارے ملک کا نام پاکستان
ہے لہٰذا جب بھی بھارت پاکستان کا نام لے، اس کو نقصان پہنچانا چاہے اور
اسے بدنام کرے تو سمجھ لیں کہ آپ کی اپنی یعنی ذاتی بدنامی ہے اور اگر آپ
نے یہ سمجھ لیا تو پاکستان پر الزام لگانا تو درکار کوئی ایسا سوچنے کی
غلطی بھی نہیں کرے گا۔ |