حال ہی میں منظرِ عام پر آنے
والے ایک عالمی سروے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں سب سے زیادہ تناؤ کا
شکارایشیائی خواتین ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ اور تیزی سے عالمی افق پر
ابھرتے 21ممالک میں18سال سے زائد عمرکی65ہزار خواتین پر کرائے گئے اس سروے
میں ایشیائی خواتین میں تناؤ کا تناسب سب سے زیادہ سامنے آیا۔اس سروے کے
مطابق 87فیصدایشیائی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً ہر وقت تناؤ کا شکار
رہتی ہیں جبکہ82فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں آرام و سکون کا کوئی لمحہ میسر
نہیں آتا۔اس سروے میں دوسرے نمبر پر میکسیکو کی خواتین آئیں جن میں تناؤ کا
تناسب74فیصد دیکھا گیا جبکہ روسی خواتین69فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔
ایک نئے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ترقی یافتہ اور امیرترین ممالک میں لوگوں
کے تناؤ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں اور خواتین میں دماغی بیماریوں کی شرح
مردوں کی نسبت دگنا ہوتی ہے۔ سماجی و معاشی اعدادوشمارسے معلوم ہوتا ہے کہ
زیادہ آمدنی والے ممالک کی 15فی صد آبادی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تناؤ
کا شکار ہو تی ہے۔جب کہ یہ شرح کم یا درمیانی آمدنی کے ممالک میں صرف 11
فیصد ہے۔ امریکا،فرانس ،ہالینڈ اور ایشیائی ممالک میں تناؤ کی شرح 30فی صد
ہے۔ سب سے کم ڈپریشن کی شرح چین میں6.5فی صد جب کہ میکسیکو میں8فی صد ہے۔
ایشیاء میں جہاں خواتین میں تناؤکی یہ شرح 87 فی صد اور مجموعی شرح 30فی صد
ہو وہاں خواتین میں خود نمائی کا رجحان حیرت انگیز حد تک ناقابل یقین
ہے۔ملک میں گرچہ ایک عرصہ سے مغربی ثقافت کا حملہ جاری ہے اب سلٹ واک یعنی
بے شرم مورچہ کے ذریعہ مغربی ثقافت نے ایک اور یلغار کی ہے۔ گزشتہ دنوں
کراچی میں فیشن شوزکے نام پر جس طرح بے حیائی کوفروغ دیا گیا،اس کی مثال
ماضی میں نہیں ملتی۔ ان فیشن شوزمیں شریک خواتین نے کہاہے کہ انہیں اپنی
مرضی کے لباس زیب تن کرنے کی آزادی ہونی چاہئے چاہے وہ لباس عریانی کو فروغ
دیتے ہوں۔ ان کی دلیل ہے کہ وہ کسی کی بری نظر کی وجہ سے برقعہ نہیں پہن
سکتیں غرض یہ کہ ان خواتین کے مطابق پاکستان میں خواتین کو آزادی نہیں ہے۔
وہیں یورپ میں مسلم خواتین اپنی آزادی کی دہائی دے رہی ہیں۔ فرق صرف اتنا
ہے کہ پاکستان میں خواتین ایسے لباس پہننا چاہتی ہیں جس سے ان کے جسم کے
تمام اعضاء کے نشیب و فراز ظاہر ہوں۔ تو دوسری جانب یورپ کے کئی ممالک میں
مسلم خواتین اپنے جسم اور چہرے کو ڈھانپنے کے لئے برقعہ اور حجاب کی متمنی
ہیں۔ بیلجیئم اور فرانس کے بعد اب اٹلی میں بھی برقعہ اور حجاب پر پابندی
لگانے پر غور و خوض کیا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام اٹلی کا دوسرا بڑا
مذہب ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں لیکن وہاں ایسی خواتین کی
تعداد بہت کم ہے جو برقعہ یا حجاب کا استعمال کرتی ہیں اس کے باوجود اٹلی
کی حکومت ملک میں برقعہ اور حجاب پر پابندی کی تیاری کر رہی ہے۔ اٹلی کی
اسمبلی میں برقع پر پابندی کا بل پیش کر دیا گیا ہے جس پر جلد ہی بحث شر وع
کی جائے گی۔ بل کی منظوری کے بعد اٹلی میں چہرے اور سر کے با لوں کا
ڈھانپنا غیر قانونی ہو جا ئے گا جس کی خلا ف ورزی پر150 سے 300 یو رو تک جر
ما نہ عائد کیا جائے گا۔ بل کے مطا بق کسی خا تو ن کو زبر دستی برقع اور
نقاب پہننے پر زور دینا بھی سنگین جر م ہوگا جس پر 30 ہزار یورو جر ما نہ
اور ایک سال قید کی سز ا دی جا ئے گی۔نظر تیری بری ، برقع میں پہنوں؟فیشن
شوزمیں شریک اکثرخواتین کا کہنا ہے کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے
کیا پہن رکھا ہے۔ اگر خواتین نے خود کو سر سے پیر تک بھی ڈھانپ رکھا ہو تب
بھی وہ جنسی زیادتی کا شکار بنتی ہیں۔ اگر خواتین زیادتی کا شکار بنتی ہیں
تو انہی پر یہ الزام عائد کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسا کرنے کی خود
دعوت دی ہوگی۔ایک جائزے کے مطابق 85 فیصد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا
جاتا ہے۔مال ودولت اور حجاب کے تعلق سے سعودی عرب کی مثال سمجھی جا سکتی ہے
جہان دولت کی بھی فراوانی ہے اور خواتین بھی پردے کے ساتھ رہتی ہیں۔لیکن
سعودی خواتین نہ تو تناؤکی شکار ہیں اور نہ ہی وہ بے حیائی کی حامی ہیں
بلکہ سعودی عرب میں گزشتہ60 برس کے دوران اوسط عمر 40 برس سے بڑھ کر73 سال
ہوگئی ہے۔ 1950 میں اوسط عمر 40 برس تھی جو 2010 میں بڑھ کر 73 برس ہوگئی
ہے اور اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ سعودی عرب کے آبادی کے منظر نامے سے
پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اور اس
میں سب سے نمایاں شرح اموات میں کمی ہے۔ شرح اموات میں کمی بالخصوص نومولود
بچوں اور شیرخوار بچوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور
نمایاں تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سعودی عرب میں شرح پیدائش میں خاصی کمی آئی ہے۔
محض تین عشرے قبل ایک خاتون کے ہاں اوسطاً 7 بچے پیدا ہوتے تھے یہ شرح اب
کم ہوکر اوسطاً تین بچے فی خاتون پرآگئی ہے۔دنیا کے امیر ممالک کے
افرادغریب ممالک کے مقابلے میں تناؤ کا زیادہ شکار ہیں جب کہ مردوں کی نسبت
اس مرض کی شکار خواتین کی تعداد دگنی ہے۔ تناؤ کے اہم اسباب میں طمع و لالچ
اہم ہیں۔معاشرے میں لالچ کا عنصر دولت سے جنم لیتا ہے جو حسد، کینہ پروری
اور عدم انصاف کو عام کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دولت مند ہونا جرم نہیں بلکہ اس
کا ناجائز استعمال خرابیوں کی جڑ ہے۔ ہر مذہب کے مطابق لالچی انسان کی محبت
دولت سے ہوتی ہے جو معاشرے میں عد م انصاف کا باعث بنتی ہے۔ دنیا کے ہر اس
حصے میں جہاں انصاف کی عدم فراوانی ہے وہاں کے عوام میں غربت کی انتہا اور
وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے جن کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر
ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات کا محل اپنی حیثیت کے مطابق بنانا چاہئے۔
دولت کا لفظ ہی پراگندا اثر کا حامل ہے، دولت معاشرے میں غربت کی طرح چیلنج
کی حیثیت رکھتی ہے جس کا ہونا ناجائز نہیں بلکہ یہ خدا کا وہ عطیہ ہے جس کو
نیک کاموں کے لئے استعمال کر کے خدا کا مشکور ہونا چاہئے۔ دولت کی بے حد
فراوانی معاشروں کی تباہی کی بنیاد بھی ہے۔ معاشرے میں ہر شخص کو اپنی چادر
کے مطابق پاؤں پھیلانے چاہئیں کیونکہ اپنی خواہشوں کی عمارت ہمسایوں کو
دیکھ کر تعمیر کرنے والے ہمیشہ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔بشکریہ |