بشارتِ نبوی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کے مطابق جنگ یرموک (۱۵ھ)میں مسلمانوں کو تاریخی فتح ہوئی۔اسلامی لشکر
کے ہاتھوں رومیوں نے شکست فاش کھا کر دمشق کی جانب راہِ فرار اختیار کی۔ان
کے تعاقب میں اسلامی لشکر بھی دمشق پہنچااور رومیوں کو جہنم رسید کیا۔ایک
مہینہ دمشق میں قیام کے بعد لشکرِ اسلام کے سالارِ اعظم امین الامت سیدنا
ابوعبیدہ بن جراح نے لشکر کے تمام سرداروں کو جمع کرکے دمشق سے بیت المقدس
یاقیساریہ کوچ کرنے سے متعلق رائے طلب کی جس پر حضرت معاذ بن جبل نے
امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب سے رائے طلب کرنے کا مشورہ دیا۔حضرت
ابوعبیدہ نے ایک مکتوب امیرالمؤمنین کی خدمت میں مدینہ منورہ ارسال
کیا۔حضرت عمر نے اس موضوع پر اجلہ صحابۂ کرام رضوان ﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین
کو جمع کرکے مشورہ کیا،اس پر مولائے کائنات سیدنا علی کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ نے
پہلے بیت المقدس جانے کا مشورہ دیا اور کہا:’’رسولِ غیب داں صلی ﷲ علیہ
وسلم نے مجھ کو خبر دی ہے کہ پہلے بیت المقدس فتح ہوگا پھر قیساریہ۔‘‘حضرت
علی کی روایت کردہ حدیث کی حضرت فاروقِ اعظم نے تصدیق کی اور حضرت ابوعبیدہ
کو پہلے بیت المقدس جانے کا حکم دیا۔
حضرت ابوعبیدہ نے جابیہ دمشق سے اسلامی لشکر کو چھ ٹکڑوں میں ترتیب دے کر
چھ دنوں میں بیت المقدس کی طرف روانہ کیا اورسیف ﷲ المسلول حضرت خالد بن
ولید اور باقی لشکر کے ساتھ جابیہ ہی میں ٹھہرے رہے۔ادھر اسلامی لشکر چھ
دنوں میں ایک کے بعد دیگرے شہر بیت المقدس پہنچے اور قلعہ کا محاصرہ
کرلیا۔بیت المقدس کا قلعہ نہایت وسیع ، بلند اور مضبوط تھا۔جس کی وجہ رومی
ایک حد تک بے فکر اور محفوظ تھے۔قلعہ کو محصور کرنے کے تین دن گزرنے کے بعد
بھی رومیوں کے کسی سردار یا فرد نے اسلامی لشکر یا مجاہدین سے کسی بھی قسم
کی کوئی گفتگو کی نہ اپنی طرف سے کوئی حرکت۔اپنی خفیہ پالیسی کے مطابق بس
روزانہ وہ قلعہ کی فصیل پر چڑھتے ، مجاہدین کو گھور گھور کر دیکھتے اور
واپس چلے جاتے۔تین دن کے بعد مسلم سردار حضرت یزید بن ابی سفیان اپنے چند
ساتھیوں کے ہم راہ ایک مترجم کو لے کر قلعہ کی دیوار کے قریب گئے۔باشندگانِ
بیت المقدس سے بات چیت شروع کی، اسلام کی دعوت دی اور کہا:’’اگر تم مسلمان
ہوکر ہمارے بھائی بننا نہیں چاہتے تو جزیہ ادا کرکے ہمارے حفظ و امان میں
آجاؤں۔ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘اس پر رومیوں نے کفریہ جملے بلند کیے
اور کہا :’’ہم اپنا مذہب کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کرسکتے اور جزیہ دے
کر ہم دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا نہیں چاہتے،ہم جنگ کے لیے تیار
ہیں۔‘‘پھر حضرت یزید بن ابی سفیان اسلامی لشکر میں واپس آئے،تمام سرداروں
کو صورتِ حال سے آگاہ کیااور ایک قاصد حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی خدمت میں
روانہ کیا۔حضرت ابوعبیدہ نے حالات جاننے کے بعد قلعہ پر حملے کرنے کا حکم
دیا اور باقی ماندہ لشکر کے ساتھ بیت المقدس کی جانب روانہ ہوگئے۔
حضرت ابو عبیدہ کا حکم نامہ ملتے ہی مجاہدین نے حملے کی تیاری شروع
کردی۔دوسرے دن نمازِ فجر کے بعد مجاہدینِ اسلام میدانِ کارزار میں رومیوں
سے بر سر پیکار ہوئے۔اہل شہر قلعہ کی فصیل سے حملہ کرتے،منجنیق (پتھر
پھینکنے کا آلہ) سے پتھر برساتے،تیر وں کی بوچھار مجاہدین کو مجروح
کرتی۔اِدھر لشکرِ اسلام کھلے میدان میں رہ کر قلعہ پر معمور رومیوں کے
حملوں کا جواب دیتا۔غروبِ آفتاب کے ساتھ جنگ موقوف ہوجاتی پھر طلوعِ آفتاب
سے دوبارہ شروع ہوتی۔اسی طرح گیارہ دنوں تک ہوتا رہا۔گیارہویں دن حضرت
ابوعبیدہ اور حضرت خالد بن ولید اسلامی لشکر کے ساتھ بیت المقدس آگئے۔ان کی
آمد سے مجاہدین میں خوشی اور نیا جوش و وَل وَلہ پیدا ہوگیا۔اسلامی لشکر نے
نعرہائے تکبیر و رسالت بلند کیے۔رومیوں نے نئے لشکر اور مسلمانوں کے سردار
کو دیکھاتو ہوش اُڑ گئے۔گھبراکر شہر کے سب سے بڑے ’’کنیسہ کے بطریق‘‘ ،جوان
کا سب سے بڑا عالم اور مذہبی پیشوا ماناجاتا تھا،کے پاس گئے۔اس کا نام ’’قمامہ‘‘تھا۔وہ
دین نصرانیت اور توریت و انجیل اورزبور کے ساتھ ساتھ دیگر کتب سابقہ کا بھی
عالم تھا۔اس کی بات اہل شہر کے نزدیک قولِ فیصل کا درجہ رکھتی تھی اور اس
کی ذات محترم و معظم تھی۔جب اس نے اہل شہر کو اپنے گرد ایستادہ پایا تووجہ
پوچھی۔لوگوں نے مسلمانوں سے جنگ اور اسلامی لشکر کے بارے میں بتایا۔بطریق
قمامہ نے جب اسلامی لشکر اور اس کے سردار کی آمدکے بارے میں سنا تواس کے
چہرے کا رنگ اُڑ گیا،اس کے چہرے سے غم و افسردگی کے آثار جھلکنے لگے۔اس نے
اہل شہر سے کہا کہ:’’جو علم مجھ کو کتبِ سابقہ اور متقدمین سے وراثت میں
ملا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک شام کو نبی آخرالزماں صلی ﷲ علیہ وسلم
کا ایک سرخ رنگ کا صحابی جو بڑا سخت اور بہادرہوگا فتح کرے گا۔اگر واقعی یہ
سردار وہی ہے تو ہم تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔شکست ہمارا مقدر ہے۔اور
اگر یہ وہ نہیں ہے تو تمہیں خوش خبری ہو کہ تم ہی فاتح رہوگے۔لہٰذا ضروری
ہے کہ مَیں مسلمانوں کے سردار کو دیکھوں اگر ان میں وہ صفات پائی گئیں جو
اگلی کتب میں مذکور ہیں تو ہم ان سے صلح کرکے شہر ان کے حوالے کر دیں
گے۔اور اگر وہ صفات نہ پائی گئیں تو ہم ضرور قتل و قتال کریں گے۔‘‘
بطریق قمامہ مذہبی عالموں اور راہبوں کے جلوس کے ساتھ قلعہ کی دیوار کی طرف
آیا اور لشکرِ اسلام کے سردار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی،جسے حضرت ابوعبیدہ
نے قبول کی اور قلعہ کی دیوار کے قریب تشریف لے گئے۔بطریق قمامہ نے حضرت
ابوعبیدہ کو دیر تک بغور دیکھا، اگلی کتابوں میں مذکور صفات کا موازنہ
کیا۔اس نے اسلامی سردار سے کوئی گفتگو کی نہ سوالات پوچھے۔کچھ دیر بعد اس
نے اپنی قوم سے کہا کہ:’’یہ وہ شخص نہیں جو ہماراشہر فتح کرے گا اس لیے تم
ضرور جنگ کرو۔قسم ہے حق انجیل کی ! تم ہی فاتح رہوگے۔‘‘یہ کہہ کر وہ دوبارہ
کنیسہ میں جاکر مراقب ہوگیا۔بطریق قمامہ کی بات سن کر اہل شہر خوش ہوگئے
اور نئے جوش و جذبے کے ساتھ مصروفِ جنگ ہوگئے۔
اس کے بعد جنگ کی پھر وہی صورت ہوگئی۔طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک جنگ
ہوتی ،پھرموقوف ہوجاتی۔روزانہ بڑی تعداد میں رومی مارے جاتے۔مجاہدین بھی
جامِ شہادت نوش کرتے،مسلسل چار ماہ تک شہر بیت المقدس کے قلعہ کا محاصرہ
رہااور جنگ جاری رہی۔لمبی مدت تک قلعہ میں محصور رہ کر رومی تنگ آگئے
تھے۔اور وہ چاہتے تھے کہ قلعہ سے باہر نکل کر میدان میں فیصلہ کن جنگ لڑی
جائے۔مگر انہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہوگئے
تو انہیں شکست دینا ناممکن ہوجائے گا۔مجبوراً انہیں دوبارہ بطریق قمامہ کے
پاس جان پڑا۔اس سے اپنی بے چینی کا اظہار کیااور کہا کہ آپ مسلم سرداروں سے
صلح کی کوئی صورت پیدا کریں۔اپنی قوم کی گذارش پر قمامہ دوبارہ قلعہ کی
دیوار کے قریب آیا اور مسلمانوں سے بات چیت کی پیش کش کی۔حضرت ابوعبیدہ
حضرت خالد بن ولید اور چند صحابۂ کرام کو لے کر قلعہ کی دیوار کے قریب
گئے۔قمامہ نے کہا:’’اے گروہِ عرب کے سردارو!ہمارا یہ شہر ارضِ مقدس ہے اور
اس کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے پر ﷲ کا غضب نازل ہوتاہے۔اور ﷲ تعالیٰ
اسے ہلاک کر دیتا ہے۔تم اس شہر کو چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ تم پر بھی خدا کا
غضب نازل ہو سکتا ہے۔‘‘اس پر حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ ’’ہمیں معلوم ہے
کہ یہ شہر ارضِ مقدس اور بابرکت ہے،اسی شہر سے ہمارے نبی مصطفی جانِ رحمت
صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم معراج میں آسمان پر تشریف لے گئے۔یہ سرزمین معدنِ
انبیاء ہے۔یہاں اولوالعزم انبیا و مرسلین کے مزارات ہیں۔اسی ارضِ مقدس پر
ہمارا قبلۂ اول بھی ہے۔اسی لیے اس سر زمین پر تم سے زیادہ ہماراحق ہے۔اگر
تم جنگ بند کرنا چاہتے ہوتو اسلام قبول کرکے ہمارے بھائی بن جاؤ یاجزیہ ادا
کر کے ہمارے حٖفظ و امان میں آجاؤ۔ورنہ جنگ حسبِ سابق جاری رہے گی۔‘‘
حضرت ابوعبیدہ کی بات سن کر قمامہ آگ بگولہ ہو گیا اور کہا:’’بے شک ﷲ ایک
ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں،تمہارا کلمہ حق ہے مگر ہم تمہارے نبی کو ﷲ
کا نبی نہیں مانتے۔(معاذﷲ)‘‘حضرت ابوعبیدہ نے کہا :’’ توجھوٹاہے کیوں کہ تم
لوگ ﷲ کی وحدانیت کے بھی قائل نہیں،حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو ﷲ کا
بیٹا کہتے ہو۔جس کا رد ﷲ پاک نے اپنے مقدس کلام قرآن کریم میں کیاہے جو
ہمارے نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔اس لیے صدق دل سے اسلام لاؤ یا
پھر کسی ایک شرط کو مان لو۔‘‘بطریق قمامہ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر
دیااور جزیہ کی شرط کو اپنے لیے باعث ذلت و عار کہا اور کہا:’’ تم زندگی
بھر ہم سے لڑتے رہے تب بھی قلعہ میں داخل نہیں ہو سکتے کیوں کہ جو شخص ہمیں
شکست دے کر قلعہ فتح کرے گا اس کے اوصاف و صفات ہماری کتابوں میں مذکور
ہیں۔جو تم پر صادق نہیں آتے۔‘‘قمامہ کی بات سن کر حضرت ابوعبیدہ نے ان
اوصاف سے متعلق پوچھا تو قمامہ نے بتانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم
تمہیں وہ صفات نہیں بتائیں گے البتہ اسے دیکھ کر فوراً پہچان لیں گے اگر تم
اس کا نام جانناچاہتے ہوتو اس کا نام عمر بن خطاب ہوگاجو ’’فاروق‘‘ کے لقب
سے مشہور ہوگا،اور وہ نہایت سخت مرد ہوگا۔‘‘قمامہ کی زبان سے حضرت عمر
فاروقِ اعظم کا اسم مبارک سن کر حضرت ابوعبیدہ اور حضرت خالد بن ولید کے
مقدس چہرے کھِل اُٹھے اور مسرور ہوکر راہب سے کہا کہ :’’اے رومی پیشوا! آپ
جس مقدس ہستی کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ ہمارے سردار اور امیر مدینہ طیہ
میں قیام پذیر ہیں۔ﷲ کے دین کے معاملے میں وہ کسی بھی مداہنت کو برداشت
نہیں کرتے۔‘‘قمامہ نے کہا :’’اگر واقعی وہ تمہارے امیر ہے تو تم قتل و قتال
سے رُکے رہو۔انہیں یہاں بلالو۔اگران میں وہ صفات پائی گئیں تو ہم ان کے لیے
شہر کے دروازے کھول کر جزیہ کی شرط قبول کر لیں گے۔لیکن ان کے آنے تک جنگ
موقوف رکھو۔‘‘حضرت ابوعبیدہ نے منظور کیا۔مجاہدین کے لشکر میں تشریف لاکر
سب کو قمامہ سے ہوئی گفتگو سے آگاہ کیااور ایک تفصیلی خط امیرالمؤمنین
فاروقِ اعظم کی خدمت میں حضرت میسرہ بن مسروق کے ذریعے مدینہ منورہ روانہ
کیا۔
امیرالمؤمنین فارقِ حق وباطل سیدناعمربن خطاب نے خط موصول ہونے کے بعد
اکابر صحابۂ کرام کو جمع کر کے مشورہ کیا۔حضرت علی مرتضیٰ نے جلد از جلد
بیت المقدس تشریف لے جانے کا مشور دیااور کہا:’’میری رائے ہے کہ آپ کا جلد
از جلدتشریف لے جانا ہی بہتر ہے۔کیوں کہ رومیوں نے آپ کو دیکھنے کی درخواست
کی ہے،اور ان کی یہ درخواست در پردہ ان کی ذلت اور اسلام کی حقانیت اور
شوکت کا مظہر ہے۔علاوہ ازیں لشکرِ اسلام طویل مدت سے سخت سردی میں لڑائی کی
مشقت برداشت کررہاہے آپ کے جانے سے اگر شہر آسانی سے فتح ہوگیاتو مجاہدین
اسلام کو بڑی مشقت سے نجات مل جائے گی۔ اور چوں کہ بیت المقدس تمام
عیسائیوں کا قبلہ ہے اور وہ لوگ اسی شہر میں حج کرتے ہیں اس لیے اندیشہ ہے
کہ ملک شام کے سارے عیسائی بیت المقدس کی اعانت میں جمع ہوگئے تو اسلامی
لشکر کو بہت دشواری کا سامنا ہوگا۔اور اگر آپ تشریف لے گئے تو ان شاء ﷲ
مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی۔‘‘مولائے کائنات کے عمدہ مشورے کو تمام حاضرین
نے پسند کیا اور فاروقِ اعظم بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہوگئے۔مسجد نبوی
میں نماز ادا کرنے کے بعد بارگاہِ مختارِ کائنات رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم میں درود و سلام اور استغاثہ پیش کیا۔انتہائی قلیل رختِ سفر، ایک
غلام اور چند صحابۂ کرام کے ہم راہ سفر کا آغاز کیا۔سفر کی نوعیت یہ تھی کہ
نمازِ فجر کے بعد ظہر تک مسافت طے فرماتے۔جس آبادی سے گزرتے رک کر رعایا کے
مسائل حل کرتے ،مقدمات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصل فرماتے ،مقدمات سے
متعلق افراد کو پابندیِ شریعت کی تاکید فرماتے۔بعد نمازِ ظہر وعظ و نصیحت
کی مجلس ہوتی۔اہل مجلس کو تقویٰ و پرہیزگاری کا درس دیتے۔اس طرح آپ نے بیت
المقدس تک کا سفر طے کیا اور ارضِ مقدس کی سرحدمیں قدم رنجہ فرمایا۔امام
احمدرضاؔ محدث بریلوی آپ کی شان میں یوں رطب اللسان ہیں:
فارقِ حق و باطل امام الہدیٰ
تیغِ مسلولِ شدت پہ لاکھوں سلام
ترجمانِ نبی ہم زبانِ نبی
جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں سلام
وسیع تر اسلامی سلطنت کے فرماں رواں کاانداز سفر کچھ اس طرح تھا کہ ایک
اونٹ سواری کے لیے تھاجس پر کبھی امیرالمؤمنین سواری فرماتے اور خادم مہار
تھامے پَیدل چلتا،تو کبھی خادم اونٹ پر سوار ہوتااور امیرالمؤمنین مہار
تھامے پَیدل چلتے۔حضرت ابوعبیدہ چند مجاہدین کے ساتھ آپ کے استقبال کو
آئے۔جیسے ہی مجاہدین اسلام نے امیرالمؤمنین کی سواری دیکھی نعرہائے تکبیر و
رسالت بلند کیے۔جس وقت فاروقِ اعظم لشکر کے قریب پہنچے تو صورت حال یہ
دیکھی گئی کہ آپ کے ہاتھوں میں اونٹ کی مہار تھی اور خادم سوار تھا۔آپ کے
بدن پر جو لباس تھا اس پر چودہ پیوند لگے تھے۔اپنے امیر کی اس سادگی کو
دیکھ کر مجاہدین جوش ایمانی سے اشک بار ہوگئے اور رومیوں کی آنکھیں حیرت سے
پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔آپ نے لشکرِ اسلام سے نہایت فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد
فرمایااور اعمالِ صالحہ و تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی تلقین
فرمائی۔پھر حضرت ابوعبیدہ سے ملک شام کی لڑائیوں اور جنگ یرموک کے تفصیلی
حالات سماعت فرمائے۔مجلس کے اختتام پر ظہر کا وقت ہوگیا۔
حضور رحمت عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عاشقِ رسول ، مؤذنِ مسجد
نبوی حضرت بلال حبشی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ غمِ مفارقت کی تاب نہ لاسکے اور
مدینہ منورہ سے ملک شام ہجرت کر گئے تھے۔ اسی غم میں آپ نے اذان کہنا بھی
ترک کردیا تھا۔لشکراسلامی کی خبرپاکر وہ بیت المقدس کی جنگ میں شامل ہوگئے
تھے۔صحابۂ کرام حضرت بلال حبشی کی آواز میں اذان سننا چاہتے تھے،انہوں نے
حضرت فاروقِ اعظم سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔سیدناعمرفاروق نے بھی حضرت
بلال کی آواز میں اذان سننے کا اشتیاق ظاہر کیا۔حضرت بلال نے امیرالمؤمنین
کی گذارش کو حکم مان کر تعمیل کی۔کشورِ دل کو فتح کرلینے والی انتہائی پر
سوز اور پیاری آواز میں جب اذان شروع کی تو سوزِ عشقِ رسولِ اکرم صلی ﷲ
علیہ وسلم سے لشکر پر لرزہ طاری ہوگیا،آنکھیں نم ہوگئیں اور کہرام مچ
گیا،یادِ حبیب الرحمان صلی ﷲ علیہ وسلم نے سب کو تصویرِ محبت بنادیا۔نماز
سے فراغت کے بعد امیرالمؤمنین نے قلعہ کی جانب روانہ ہونے کا ارادہ
کیا۔حضرت ابو عبیدہ نے ایک اعلیٰ قسم کا مصری سفید لباس اور عمامہ
امیرالمؤمنین کی خڈمت میں پیش کیا اور عرض گذار ہوئے : ’’اے امیرالمؤمنین!
ان پیوند لگے کپڑوں کی بجائے ان نئے کپڑوں کو زیب تن فرماکر رومیوں کے
سامنے جائیں تاکہ ان پر آپ کا رعب و دَب دبہ طاری ہو۔‘‘ فاروقِ اعظم نے
قبول فرمایا۔ابھی چندہی قدم آگے بڑھے تھے کہ یکایک ان کے مقدس چہرے پر
گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے۔فوراً گھوڑے سے اُترے اور اسلامی لشکر میں
واپس جاکر وہی پیوند لگے کپڑے زیب تن فرمایا اور کہا:’’اس عمدہ لباس سے دل
میں غرور و تکبر کے پیدا ہونے کا خوف تھا اس لیے مَیں نے اسے اتار
دیا۔‘‘پھر آپ قلعہ کی دیوار کے پاس پہنچے۔بطریق قمامہ اپنے حواریوں،علما ،رؤسا
اور اپنی مذہبی کتابوں کے ساتھ آیا۔اس نے بڑی غور سے حضرت فاروقِ اعظم
کوسراپا دیکھا،کبھی اپنی مذہبی کتابوں میں مذکور ان صفات کا مطالعہ کرتا
اور کبھی فاروقِ اعظم کے رُخِ زیبا کی زیارت کرتا۔دفعتاً بطریق قمامہ نے
شور بلند کیا کہ ’’قسم خدا کی! یہ (حضرت فاروقِ اعظم) وہی شخص ہے جس کی
صفات اور تعریف ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور ان ہی کے ہاتھوں ہمارا شہر
(بیت المقدس) فتح ہوگا۔خدا کی قسم! یہ محمد (ﷺ) بن عبدﷲ کے صحابی ہیں۔‘‘ اس
نے اپنی قوم کو قلعہ سے اترنے اور شہر مسلمانوں کے سپرد کرنے کا حکم
دیا۔قمامہ کا حکم سن کر تمام رومیوں نے قلعہ خالی کردیا اور شہر پناہ کا
دروازہ کھول کر حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح و امان کی
درخواست کی اور جزیہ کی ادائیگی کا اقرار بھی۔
امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب نے رومیوں کے لیے امن اور ذمہ کا عہد لیا
اور انہیں شہر کی طرف لوٹا دیا۔پھر آپ اسلامی لشکر میں آئے سب نے سجدۂ شکر
ادا کیا۔پوری رات عبادت و ریاضت میں گزری۔دوسرے دن امیرالمؤمنین سیدنا
فاروقِ اعظم اسلامی لشکر کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے شہر بیت المقدس میں
داخل ہوئے۔قبلۂ اول سے ﷲ کی وحدانیت اور رسول اعظم صلی ﷲ علیہ وسلم کی
رسالت کا نغمہ بلند ہوا اور قبلۂ اول بیت المقدس فتح ہوا۔ |