پاکستان میں برسوں سے چندخاندان
ہی حکمرانی کا تاج پہنتے ہیں اور ان کی جانشینی انہی کی پیڑیاں کرتی
ہیں،جیسے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو سے نصرت بھٹو،بے نظیرسے
بلاول بھٹوتک اور اس کے بعد آصفہ بھی جانشینی کی امیدوار ہیں،پاکستان کی
دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز جس نے جنرل ضیاء الحق کی
آمریت تلے آنکھ کھولی اور اسی کی جانشینی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا
اور بعد ازاں یہ جماعت بھی پیپلزپارٹی کی طرح گھر کی جماعت ہی بن سکی ،جس
کی قیادت میاں نواز شریف،شہبازشریف ،حمزہ شریف ،مریم نواز انہی کی فیملی کے
گرد ہی گھومتی ہے ،اور کبھی بھی کسی غریب ورکر کو قیادت کا مزہ نہیں چکھایا
گیا۔اور ورکر صرف ان قائدین کے جلسے جلوسوں میں تالیاں ہی مارنے کی حد تک
رہ گئے،پاکستان کے صوبے خیبرپی کے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ،کہ عوامی نیشنل
پارٹی کو باچا خان سے ،ولی خان ،پھر اسفند ولی خان یعنی کے خاندان میں ہی
رکھا گیا ،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کوملا کہ 16سال سے
سیاست کی وادی پرخار میں رہنے والے عمران خان کو جب عوام نے تیسری سیاسی
قوت بنایا تو عمران خان نے بھی عوام پر اپنا حق ادا کیا اور پارٹی میں
الیکشن کروا دئیے حالانکہ اس فیصلے سے پارٹی کی پاپولیرٹی پر بھی کچھ
اثرپڑا لیکن عمران خان نے وہ کردکھایا جوآج تک باقی سیاسی پارٹیوں نے
ورکرزکے ڈرسے نہ کیا کہ کہیں کوئی ورکر ہی پارٹی کا سربراہ نہ بن جائے لیکن
کپتان نے ایسا کیا اور پارٹی کو ورکرز کے ہاتھوں میں دے دیا،پاکستان میں
موروثی جانشینی کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر پیڑھی میں تعداد بڑھتی جاتی ہے لیکن
دستیاب عہدوں کی تعداد وہی برقرار رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے پوتے پڑپوتوں میں
اقتدار کی جنگ بڑھتی جاتی ہے اور چونکہ خاندان کی شاخیں دور دور تک مختلف
سمتوں میں پھیلی ہوتی ہیں اس لیے جانشینی کی قطار خلط ملط ہو جاتی ہے۔ جیسے
جیسے کنبہ وسیع ہوتا جاتا ہے پیدائش کی ترتیب کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے
اور سیاسی طاقت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔جس سے جھگڑا اور رسہ کشی میں مزید
اضافہ ہو جاتا ہے۔پاکستان اکیلا ہی موروثی سیاست کا ڈسہ ہوا نہیں پاکستان
کیساتھ ساتھ پڑوسی ملک بھارت اور سعودی عرب کی مثالیں سامنے ہیں جوقیادت کی
نئی پیڑھی میں منتقلی کی صورت حال سے دوچار ہیں جہاں اس قسم کے منتقلی
اقتدار کو درپیش چیلنج سامنے آرہے ہیں۔مملکت سعودی عر بیہ میں ا گلے دس
بارہ سال کے دوران لیڈروں کی تیسری یا چوتھی نسل کے لیڈروں کو اقتدار منتقل
ہو جائے گا۔ کیونکہ سعودی عرب میں فرمانروائے وقت کی زندگی میں نہیں بلکہ
اس کی موت کے بعد ہی اقتدار منتقل ہوتا ہے۔ مملکت کے بانی کے بیٹے 1953سے
اب تک بر سر اقتدار ہیں۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان ہی مملکت ہے۔ کسی پارٹی
کے ذریعہ اسے حکومت سے الگ نہیں کیا جاتا لیکن پھر بھی وہاں الگ الگ دھڑے
اور گروہ بندی ہے۔ شاہی خاندان کے افراد چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹے ہیں۔جس
سے سعودی عرب میں نئی نسل کو اقتدار کی منتقلی کا عمل انتہائی دھندلا اور
مبہم ہو جاتا ہے۔ لازمی طور پریہ ایک خاندانی معاملہ ہے، جس میں شاہی
خاندان کے اراکین کسی بادشاہ یا و لی عہد شہزادے کی موت کے بعد جانشین کے
نام پر اتفاق رائے ہونے تک باہم تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔اگرچہ جانشینی
کی ایک رسمی پالیسی موجود ہے لیکن اس پر کبھی عمل ہی نہیں کیا گیا۔
سعودی عرب داخلی استحکام کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عام طور پر اپنی تیل
کی دولت کا استعمال کرتا ہے لیکن یہ پالیسی آئندہ آنے والی دہائیوں میں
اپنی حدیں چھو سکتی ہے کیونکہ تیسری اور چوتھی پشتیں قیادت سنبھال رہی
ہیں۔تیل کی دولت سعودی عرب کی نمایاں پہچان رہی ہے اور اس پر نئی نسل یقیناً
انحصار کر سکتی ہے لیکن اس امر کی کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ اس تیل طاقت کو
اپنے پیشرؤوں کی طرح موثر ہتھیار بنا سکیں گے۔ دنیا بھر میں تیل کی پیداوار
میں کافی اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے عالمی تیل ذخیرے میں سعودی عرب کے
حصہ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اب تیل کی دولت اس کے اقتدار کا ذریعہ بھی
نہیں رہ گئی۔اختیارات اورطاقت حاصل کرنے والے تیل جیسے کھلے آلہ کی کمزوری
تیسری اور چوتھی نسل کے لیے سعودی عرب کے شاہی خاندان کی داخلی سیاست کو
اور بھی پیچیدہ کر دے گی۔کسی بھی سیاسی نظام میں دوسری پیڑھی کو منتقلی یا
ادلا بدلی ایک انتہائی حساس عمل ہو سکتا ہے۔ |