اوگرا کیس میں اہم شخصیات بھی ملوث نکلیں

ان دنوں اوگرا کیس کے حوالے سے میڈیا پر کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم توقیر صادق ہیں جن پر غیر قانونی بھرتیوں اور ابتداً 82 ارب کی کرپشن کا الزام ہے۔ توقیر صادق کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 21 جولائی 2009 کو اوگرا کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔گزشتہ دنوں توقیر صادق کو فیڈرل کورٹ آف دبئی میں پیش کیا گیا تھا جس کے بعد دبئی حکام نے انہیں انٹرپول کے حوالے کر دیا۔ انٹرپول نے توقیر صادق کو نیب کی ٹیم کے حوالے کر دیا تھا۔ تفتیش کے دوران نیب ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ کرپشن 82 ارب سے بڑھ کر 150 ارب تک پہنچ گئی ہے۔ اوگرا کرپشن کیس میں نیب کی تفتیشی ٹیم کے سامنے سابق چیئرمین توقیر صادق نے کئی بااثر افراد کے کرپشن میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے اور ان کے نام بھی ظاہر کر دیے ہیں جس میں سابق حکومت کے وزراءاور بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔ اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق نے نیب کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ یوٹیلیٹی کمپنیوں کے لیے گیس کی فراہمی میں بے حساب اضافے کا فیصلہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پیٹرولیم کے وزیر سید نوید قمر اور مشیر ڈاکٹر عاصم حسین کی مشاورت سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ تھے تو اوگرا چیئرمین ہونے کے ناتے پیٹرولیم کے وزیر نوید قمر اور بعد میں مشیر ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ اس سلسلے میں متعدد مرتبہ میٹنگیں ہوئی تھیں۔ تفتیش کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے اپنا اردو میں لکھا ہوا ایک بیان جمع کرایا جس میں انہوں نے ملک سے فرار ہونے کے بعد بیرون ملک قیام کے دوران اپنے طرز زندگی اور ذریعہ آمدنی کے حوالے سے روشنی ڈالی۔سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق نے بینک المشرق دبئی میں 3 لاکھ درہم کی موجودگی کا اعتراف بھی کر لیا۔ نیب کی تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تفتیش کے دوران سابق چیئرمین اوگرا نے اعتراف کیا کہ دبئی میں موجود بینک المشرق میں اس کا اکاﺅنٹ موجود ہے جس میں 3 لاکھ درہم تھے۔ توقیر صادق نے بتایا کہ بینک المشرق دبئی کے اکاﺅنٹس ان کے انکل عبدالغفور اور سمیرا کے زیر استعمال رہے تاہم ہم جب ضرورت پڑتی تھی تو وہ اس اکاﺅنٹس سے مجھے رقم بھیجتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے تحریری بیان میں توقیر صادق نے کاشف نامی شخص کو 60 لاکھ روپے دینے، دبئی اور سری لنکا میں مختلف جگہوں پر قیام پذیر رہنے کا اقرار کیا تھا۔ توقیر صادق دبئی میں جن مقامات پر رہائش پذیر رہے۔ ان میں انٹرنیشنل سٹی دبئی، انگلینڈ کرافٹ دبئی، اجمان ہوٹل اور اپارٹمنٹ الزہرہ شامل ہیں۔ توقیر صادق کے تحریری بیان کے مطابق گزشتہ سال اگست اور ستمبر کے مہینوں میں وہ سری لنکا کے شہر کینڈی میں قیام پذیر رہے۔ سری لنکا میں قیام کے دوران مختلف لوگوں کے علاوہ سری لنکن سفیر سے ملاقاتیں کی۔ توقیر صادق کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم اور وزرا کی موجودگی میں ہونے والے اجلاسوں میں میں موجود ہوتے تھے۔ میری برطرفی کے حوالے سے ڈاکٹر عاصم کی طرف سے وزیراعظم کو بھجوائی گئی سمری کا علم نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل) کے گیس کی فراہمی کی حد کے حوالے سے التواءمیں پڑے ہوئے بہت سے معاملات نمٹائے تھے۔ گیس کمپنیوں کی جانب سے گیس کی فراہمی کی حد میں اضافے کا مطالبہ کئی سالوں سے کیا جارہا تھا لیکن جب میں اتھارٹی کا چیئرمین تھا تو میں اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے قابل تھا۔ توقیر صادق 2009ءسے 2011ءتک آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین تھے، اس عرصہ میں انہیں قومی خزانے کو 82 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق سے تفتیش میں اہم انکشافات ہوئے تھے۔ نیب کے مطابق سی این جی سٹیشن کے ذریعے تیس لاکھ سے سات کروڑ تک گیس چوری کی گئی۔ چار سال تک بوگس سی این جی اسٹیشن چلتے رہے۔ اوگرا کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی استثنٰی حاصل نہیں توقیر صادق پر فوجداری اور کریمنل کیسز ہیں۔ اس لیے ان سب کا پیش ہونا ضروری ہے۔ توقیر صادق نے ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف بھی اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے بہت سی چیزوں میں ابتداءکی۔ نیب کے مطابق کرپشن سکینڈل میں چار سو چھیاسٹھ سی این جی اسٹیشن مالکان کو نوٹسز جاری کیے گئے جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور ڈاکٹر عاصم کے نیب کو ریکارڈ کرائے گئے بیانات میں تضاد ہے، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ توقیر صادق کو وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام کی سفارش پربلیو پاسپورٹ بھی جاری کیا گیا۔جبکہ نیب کی جانب سے طلب کیے جانے پر یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فرائض نیک نیتی سے انجام دیے اور اس دوران کیے گئے تمام اقدامات کے سلسلے میں انہیں آئینی استثنیٰ حاصل ہے، جسے پارلیمنٹ نے انہیں تفویض کیا ہے اور پارلیمنٹ کے سوا کسی دوسرے ادارے کو صدر اور وزیراعظم کو حاصل استثنیٰ ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ اس لیے وہ نیب یا ایف آئی اے سمیت کسی بھی تحقیقاتی ادارے کے سامنے میں پیش نہیں ہوں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں نیب نے توقیر صادق کے انکشافات کی روشنی میں اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نیب نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے فہرست تیار کرلی تھی۔ اہم شخصیات کے نام ای سی ایل میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ تاہم چیئر مین نیب کی تقرری نہ ہونے کے باعث ای سی ایل سٹ پردستخط نہ ہوسکے۔جبکہ چئیرمین نیب کی تقرری کے لیے حکومت کی جانب سے ایک بار پھر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے رابطہ کیا گیا ہے اور چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ دونوں جانب سے رانا بھگوان داس کے نام پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ اب حکومت اور اپوزیشن نے رانا بھگوان داس کو چیئرمین نیب بنانے کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے قوانین میں ترمیم کرنے پر مشاورت شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق چئیر مین کی تقرری کے بعد اہم شخصیات کے خلاف سخت ایکشن ہوسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 645075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.