پہلے بودھ گیاسیریل بم دھماکے
اوراب مڈے میل میں زہر دے کر 30معصوم بچوں کا قتل۔ اسی پر بسنہیں ہے بلکہ
نتیش حکومت مخالفین اس سے بھی بڑے بڑے اور خوفناک منصوبے بنا ئے ہوئے
ہیں۔حالیہ دنوں بہار حکومت کو بدنام کر نے کی یہ دوسری سازش ہے جو فرقہ
پرست بی جے پی کے ارکان نے ’’معصوم بچوں ‘‘کی جان لے کر رچی ہے۔30بچوں کی
دردناک موت کو ئی ایسا معمولی حادثہ نہیں ہے کہ جسے اخبارو ں میں پڑھ کر
چھوڑدیا جائے یا ٹیلی ویژن پر دیکھ کر چینل تبدیل کر دیا جائے یہ سانحہ
اتنا عظیم ہے کہ اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے اتناہی کم ہے۔بھلا تصور
کیجیے ان ماں باپ کی حالت کا جنھوں نے صبح سویرے اپنے مستقبل کے سہاروں کو
نہلا دھلا کر اور صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اسکول روانہ کیا ہو اور پھر انھیں
دوپہر کو اطلاع ملے کہ ’’ان کیچراغ گل‘‘ہو گئے․․․․ان پر کیا قیامت بیتی ہو
گی اورانھوں نے اس حادثے کو کس طرح برداشت کیا ہوگا․․․․․مگر فرقہ پرست بی
جے پی کو اس کی کیا پر واہ ! جسے گجرات میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل پر آج
بھی کو ئی افسوس نہیں وہ یہ اس کا احساس کیسے کر سکتی ہے۔اس کے لیڈران کی
نظر میں تو سارے انسا ن بالخصوص مسلمان ’’کتے ‘‘ہیں اورسیکولر خیال ذہنیت
کے لوگ اس کے یہاں معافی کے قابل نہیں ہیں۔نتیش کمار چونکہ سیکولر خیالات
کے انسان ہیں اور ان کی پوری جماعت سیکولر زم کی بنیادو ں پر قایم ہے یہی
وجہ ہے کہ جب بی جے پی نے اپنی انتخابی کمیٹی کا صدر ایک شخص کو متعین کیا
جسے صحیح معنوں میں انسان کہنا ’’لفظ انسانیت‘‘ کی تو ہین ہے تو نتیش نے اس
کا دامن چھوڑدیااسی لیے بی جے پی ان کی جان کی دشمن بن گئی بلکہ اس کی
ریاست میں موت کا کاروبار کر نے لگی۔
بہار میں مرنے والے معصوم بچوں کی اموات پرحسب دستور ابھی کمیشن قایم ہوں
گے ۔اس اندوہناک حادثے کی تحقیقات ہوں گی اور اس میں کتنی مدت درکار ہوگی
اس کا کو ئی اندازہ نہیں ۔ ابھی بہار حکومت متاثرین سے ان کے بچوں کی موت
خریدیتے ہو ئے لاکھوں روپے معاوضہ دے گی۔ ابھی تو اس پر سیاسی کھیل رچا
جائے گا ۔اپوزیشن اسمبلی میں ہنگامہ کر ے گی ۔کمیشن پر اعتراض ہوں گے
۔ریاست میں بند اور مظاہروں کا دور چلے گا اور ان ہنگاموں میں مجرم افراد
صاف بچ نکلیں گے ۔تھوڑے دنوں بعد لوگ یہ بھی بھول جا ئیں گے کہ بہار میں کو
ئی قیامت بھی برپا ہو ئی تھی۔
ہمارے عہد کا المیہ یہی ہے کہ مجرم سامنے ہوتے ہو ئے بھی کسی میں اس پر
ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں ہوتی اور اگر کبھی ہوبھی جاتی ہے تو مجرم کو کیفر
کردار تک پہنچانے سے پہلے ہی شرپسندی بر پا کر نے کے لیے چھوڑدیا جاتا۔
بہار کے وزیر تعلیم پی ۔کے شاہی سے جب اسمبلی میں اس اندوہناک حادثے کے
متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے بر جستہ اور ببانگ دہل کہا کہ جن اسکولوں
میں یہ حادثے پیش آئے ہیں ان میں ایک اسکول کی پرنسپل مینا کماری کے شوہر
کے تعلقات فرقہ پرست جماعت کے ایک بڑے لیڈر سے ہیں اور اسی کی دکان سے مڈ
ڈے میل کاسامان خریدا جاتا ہے اس لیے اس معاملے میں سازش کی بو آتی ہے۔یہ
سب حکومت کو بد نام کر نے کی سازش ہے۔انھوں نے مزید کہایہ محض اتفاق نہیں
کہ جس حادثے کے بعد مینا کماری کے خاندان کے تمام افراد غائب ہیں ۔گوپی۔ کے
شاہی کے اس بیان کی ایوان میں مخالفت ہو ئی اورانھیں جھوٹا و فریبی بھی کہا
گیا مگر ․․․․․حقیقت یہ ہی کہ یہ بہار حکومت کو بد نام کر نے کی ایک عظیم
سازش ہے اور بی جے پی اس کے پس پشت ہے جسے نتیش سے ایک ایک حساب چکاناہے۔
بی جے پی کی مثال سانپ کی طرح ہے جو ہمیشہ بے خبری میں اور پیچھے سے وار کر
تا ہے ۔اس بزدل کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ فن اٹھا ئے ہو ئے سامنے سے وار کر
ے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے
مرد میداں ہو تو سینے پر وار کرو پیچھے سے وار کرکے بھاگتے کیوں ہو؟
مگربی جے پی‘ ہمیشہ کی بزدل جماعت‘ پیچھے سے ہی وار کر ے گی ۔یہودی خصلت
جماعت موت کے ڈر سے سینے پر وار نہیں کر ے گی ۔
بھلا مجھے بتائیے کیا کسی جمہوری ملک میں سیکولرزم کے لیے کو ئی جگہ نہیں
ہے؟کیا سیکولر خیالات کو فروغ نہیں ملنا چاہیے؟کیا مسجدوں اور مذہبی مقامات
کو گر ا کر اور فرقہ وارانہ فسادات کر وا کر ہی ہندومت کے تقاضے پورے کیے
جاتے ہیں ؟کیا اپنا غلط مقصدحاصل کر نے کے لیے معصوموں کی بلی چڑھانا جائز
ہے؟اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو یہ ملک اوراس کا ہر باشندہ فرقہ پرست
جماعت بی جے پی سے پوچھنا چاہتا ہے مگر یہ ناگی خصلت کے لوگ سامنے آکر جواب
نہیں دیں گے ۔خفیہ طور پر پولیس کے ساتھ مل کر کہیں فساد کر ادیں گے۔اس طرح
گو یا یہ سوالوں کے جواب دیتے ہیں اور اپنے ہندوازم کے تقاضو ں کو پورا
کرتے ہیں۔
میں بے خوف اور بے جھجک ایک آزاد مکج جگ شہری ہوتے ہو ئے بہارحکومت سے
مطالبہ کرتا ہوں کہ انصاف کے تقاضے باقی رکھتے ہو ئے مجرم کو تلاش کر نے
میں جلدی کر ے اور مکمل شناخت ہونے پر اسے وہی زہریلا کھانا کھلائے تا کہ
اسے احساس ہو کہ ’’موت ‘‘کتنی دردناک ہوتی ہے۔
مجھے احساس ہے کہ میری تحریر بالکل بے دم ہو کر رہ گئی ۔میں نہ جانے کیا
کیا لکھتا جارہا ہوں خود مجھے ہوش نہیں ہے ۔30بچوں کی درناک موت نے میرا
ذہنی توازن بگاڑ دیا ہے ۔مجھے ان کی معصوم اورپھول جیسی صورتیں یاد آرہی
ہیں اس سے زیادہ ان کے ماں باپ پر ترس آرہا ہے جن کے کلیجوں میں نہ جانے
کیسے سکون آیا ہوگا یا اب بھی بہت سے ان میں سے بچو ں کی جدائے گی پر بلک
رہے ہوں گے ۔دہا ئی دے رہے ہوں گے ‘رو رہے ہوں گے․․․․․․․یہ کتنے افسوس کی
بات ہے کہ بہار حکومت مجرموں کی تلاش اور ان کے خلاف سخت کارروا ئی کر نے
کے بجائے متاثرین کے زخموں پر لاکھوں روپوں کے معاوضوں کے مرہم رکھ رہی
ہے۔بھلا کیا لاکھ روپے میں مرنے والے بچے واپس آسکتے ہیں ؟یا کسی مارکیٹ سے
خریدے جاسکتے ہیں؟․․․․مگر کیا کیا جائے جب یہی دستور زندگی ٹھیرا اور یہی
سیاسی نظام ․․․․․ !!
احساس
مجھے احساس ہے کہ میری تحریر بالکل بے دم ہو کر رہ گئی ۔میں نہ جانے کیا
کیا لکھتا جارہا ہوں خود مجھے ہوش نہیں ہے ۔30بچوں کی درناک موت نے میرا
ذہنی توازن بگاڑ دیا ہے ۔مجھے ان کی معصوم اورپھول جیسی صورتیں یاد آرہی
ہیں اس سے زیادہ ان کے ماں باپ پر ترس آرہا ہے جن کے کلیجوں میں نہ جانے
کیسے سکون آیا ہوگا یا اب بھی بہت سے ان میں سے بچو ں کی جدائے گی پر بلک
رہے ہوں گے ۔دہا ئی دے رہے ہوں گے ‘رو رہے ہوں گے․․․․․․․یہ کتنے افسوس کی
بات ہے کہ بہار حکومت مجرموں کی تلاش اور ان کے خلاف سخت کارروا ئی کر نے
کے بجائے متاثرین کے زخموں پر لاکھوں روپوں کے معاوضوں کے مرہم رکھ رہی
ہے۔بھلا کیا لاکھ روپے میں مرنے والے بچے واپس آسکتے ہیں ؟یا کسی مارکیٹ سے
خریدے جاسکتے ہیں؟․․․․مگر کیا کیا جائے جب یہی دستور زندگی ٹھیرا اور یہی
سیاسی نظام ․․․․․ !! |