پرانے میدان میں نئی جنگ

یہ بات اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کراچی ، طالبائزیشن کے حوالے سے ایک مضبوط گڑھ بن چکا ہے۔ بے ہنگم قدیم آبادیوں اور غیر قانونی طور پر آباد کچی آبادیوں میں شدت پسندوں کا باآسانی بلا خوف رہنا اب کوئی خفیہ خبر نہیں رہ گئی ہے۔اس میں بھی اب کسی کو شک نہیں رہا ہے کہ طالبان کے نام سے کچھ افراد اور گروہ پختون سرمایہ داروں اور سیاسی رہنماؤں سے لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں پرچی دیکر بھاری بھرکم وصولیاں بھی کرتے ہیں۔ اور اب ان کا دائرہ وسیع ہوتے ہوئے کراچی کی دوسری قومیتوں کی جانب بھی تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔کراچی میں ایک ایسی جنگ کی تیاری کیلئے صف بندی عرصہ دراز سے کی جا رہی ہے جس کا اظہار مختلف طریقوں سے مختلف جماعتیں اور خاص طور پر ایم کیو ایم واشگاف انداز میں کرتی رہی ہے لیکن اسے کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا ۔ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات تھیں ۔اس میں پہلی وجہ یہ تھی کہ نام نہاد پختون قیادت خوف زدہ تھی کہ اگر طالبان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو پھر کراچی میں ان کا رخ ہماری جانب اور ہمارا گھروں سے نکلنا وبال جان بن جائے گا ۔ائر کنڈیشن کمروں میں ہونے والے اجلاسوں میں کسی بھی دوسرے شخص کو یہ توفیق نہیں ہوتی تھی کہ وہ شاہی فرمان پر اعتراض کرسکے اس لئے وہ چُپ سادہ لیتے۔ اس لئے جب سوات سے نقل مکانی کی صورت میں عوام کی بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا تو مناسب اسکریکنگ نہ ہونے کے سبب کراچی کی کچی آبادیاں طالبان کیلئے محفوظ پناہ گائیں بنتی چلیں گئیں اور سوات، دیر ، وزیر ستان سے آنے والے مہاجرین نے اپنے رشتے داروں کے گھروں کے علاوہ کرائیے کے مکانات حاصل کرلئے ۔ پولیس کا نظام صرف دکھاوا ہے لیکن جب ان مہاجرین کی مکمل تحقیق کے حوالے سے جب سندھ قوم پرست اور ایم کیو ایم کی جانب سے مطالبہ بلند ہوا تو ایسے جان بوجھ کر لسانی رنگ دے دیا گیا اور اُس وقت اس معاملے میں شدت آگئی جب کشمور میں سوات سے آنے والے 25گاڑیوں کو زبردستی روک دیا گیا ۔ چونکہ اے این پی ، سندھ حکومت میں شامل تھی اور اس کے صوبائی صدر اسی دن دبئی جا رہے تھے اس لئے انھیں بڑی مشکل سے روکا گیا کہ کسی طرح ان سوات کے مہاجرین کو کراچی لانے کیلئے حکومت کو مجبور کریں ۔ فوری طور پر پریس کانفرنس کی گئی اور حکومت کو الٹی میٹم دیا گیا جس کے بعد 25بسوں کا قافلہ کراچی پہنچ گیا ، لیکن اُس کے بعد عمومی طور پر یہ ہونے لگا کہ سوات یا پشاور سے آنے والی بسوں پر سندھی قوم پرست کے متشدد کارکنان بسوں پر فائرنگ کرتے اور انھیں شدید خوف زدہ کرکے ، بعض سندھی ڈاکو اُن لٹے پٹے خاندانوں کا سامان بھی لوٹ لیا کرتے۔ سوات سے آنے والوں کو سندھ حکومت کی جانب سے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی اور لاکھوں کی تعداد میں آنے والے مجبور و بے کس پختون مہاجرین کو اپنے رشتے داروں کے گھروں پر تکیہ کرنا پڑا ۔ انھیں کام کاج کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا رہا اور با آلاخر جب حکومت کی جانب سے سوات ، دیر کے مہاجرین کی واپسی کا اعلان کیا گیا تو اے این پی نے یہاں بھرپور فائدہ اٹھا یا اور بسوں کا کنٹریکٹ اپنے ایک عہدے دار کو دیا جبکہ تمام بسوں کو پابند کیا گیا کہ سوات ، دیر جانے والی بسوں کا ڈیزل صوبائی صدر کے پیٹرول پمپ ، سپر ہائی وے سے بھرا جائے گا تو انھیں بسوں کا معاوضہ دیا جا ئے گا۔یہاں ایک فاش غلطی یہ بھی ہوئی کہ جانے والے کسی بھی سواتی عوام کا کوئی ریکارڈ نہ آنے پر اور نہ جانے پر مرتب کیا گیا ۔ زیادہ تر ایسے افراد بھی مہاجرین کے روپ میں اُن بسوں میں سوات گئے جو نقل مکانی کرکے نہیں آئے تھے انھیں رشوت لیکر فری ٹکٹ دئیے گئے۔ مہاجرین کو نقد سفری رقم اے این پی کے اکلوتے منسٹر کے سپرد کی گئی جس میں لاکھوں روپوں کی خرد برد کرکے جیبوں میں ڈال دئیے گئے۔ نام نہاد پختون قوم پرستوں کی اس لالچ نے یہ نہیں سوچا کہ مستقبل میں کراچی کا کیا حال ہوسکتا ہے۔ رہ جانے والے ہزاروں ایسے لوگ کراچی میں رک گئے جنھوں نے سوات آپریشن میں مہاجر کا بھیس بدل کر کراچی میں پناہ حاصل کرلی تھی ، یہی صورتحال جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جنھوں نے ہجرت کے بعد کراچی میں سستے مکانات کرائیے پر حاصل کرلئے ، افغانی تو روس جنگ کے بعد سے کراچی میں کئی نسلوں سے رہ رہے تھے اس لئے انھیں کراچی میں کسی قسم کا پریشانی کا سامنا نہیں تھا ۔طالبان کے نام پر جرائم پیشہ افراد نے مختلف سیاسی پارٹیوں میں کارکنان کی حیثیت سے جگہ بنا لی اور دیکھتے دیکھتے کراچی میں ایک ایسی سیاست شروع ہوئی جس میں بے گناہ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹے جانے لگا ۔انسان کی زندگی کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی اور اس درندگی کا نشانہ عام طور پر پختون بننے لگے اور پھر اردو بولنے والے اور بلوچ بھی اس طرح عبرت کا نشانہ بننے لگے کہ ان کے درمیان نفرتوں کی خلیج کسی طور کم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ا س سلسلے میں میڈیا نے جلتی ہر تیلی کا کام کیا اور سنسنی پیدا کرنے کے ریکارڈ قائم کئے ۔خوف و ہراس کا ماحول بنانے کیلئے لائیو ریکارڈنگ میں ایسے پروگرام آن ائیر کئے جس میں فائرنگ کی گونج سنائی دے رہی ہے ، لوگ زمیں پر لیٹے ہوئے ہیں اور اینکر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہم پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے ، جبکہ پلان کے مطابق اس سے کچھ ہی فاصلے پر چند مسلح افراد ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھر رہے ہوتے تھے۔اُس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ سب کچھ جو کیا جا رہا ہے اس کے نتائج کس قدر ہولناک نکل سکتے ہیں۔ میں ان تمام واقعات نہ صرف چشم دید گواہ ہوں بلکہ معروف اینکرز کے یہ اسکرپٹ بذات خود دیکھتا بھی رہا ہوں۔مجھے ان اینکرز کے طرز عمل پر کوئی حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے فعل و کردار میں شرم ناک تضاد کو میں جتنے قریب سے دیکھ چکا ہوں اس کے بعد بعض اینکرز کو دیکھ کر مجھے ان سے گھن آتی ہے کہ انھوں نے کراچیکی صورتحال کی درست عکاسی کرنے کے بجائے صرف ریٹنگ بڑھانے کیلئے کس قدر اوچھے طریقے اپنائے۔آج کراچی میں یہ سب اوچھے طریقے حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں جیو کے معروف اینکر پرسن حامد میر کے ساتھ کواری کالونی میں طالبان تلاش کر رہے تھے تو انھیں چند بچوں نے انٹرویو دیا کہ ہمارے علاقے میں ایک بھی سرکاری اسکول نہیں ہے ہم پڑھنا چاہتے ہیں ، حامد میر نے پوچھا کہ اگر اسکول میں نہیں پڑھے تو کیا کر و گے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں پھر تم لوگوں کو مارکر پیسے لوٹوں گا۔ آج تعلیم نہ ملنے کے سبب کراچی کا سب سے خطرناک علاقہ کٹی پہاڑی کا کواری کالونی ہے ، اس علاقے میں ایک بھی سرکاری اسکول نہیں ۔آٹھ اسکولوں کچرے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اور ہم اس کچروں کے ڈھیر سے ملالہ یوسف زئی کو تلا ش کر رہے ہیں۔اب ان علاقوں میں تعلیم کے متلاشی نہیں بلکہ جدید ہتھیاروں سے مسلح نوجوان ملیں گے۔میدان جنگ پرانا ہے ۔ لیکن اب جنگ نئی ہے کیونکہ اب طالبان کے نام پختون ہی نہیں ، بلکہ پنجابی ، بلوچ ، اردو اور دیگر قومیتیں بھی صف آرا ہوچکیں ہیں اور ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ کسی بھی طرح کراچی کے علاقوں پر گرفت بھرپور مضبوط کرلی جائے ۔ جس کا عملی مظاہرہ حالیہ الیکشن میں ٹریلر کی صورت میں آچکا ہے ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بلدیاتی الیکشن ہوئے تو اﷲ ہم سب کی حفاظت کرے، کیونکہ اب کراچی میں امن کا قیام محض خواب ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 664021 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.