انھیں کوئی ایسی بات بھی مل جائے جس کاکوئی سرہونہ پاؤں توپھربھی جس حالت
میں ہوں‘ نکل کھڑے ہوتے ہیں اورالزامات کی گھناؤنی آندھی بن کرپاکستان
پرنازل ہوتے ہیں۔اورایک یہ ہیں کہ حریف کے بندے ‘کھلے بندوں اعتراف جرم
کررہے ہیں اوریہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔کل ہماری جانب سے ایک بیان جاری
ہوا‘مگر مذمتی نہیں‘یہ بھی خوش آئند خبرہے لیکن اس میں وہ رمق ہرگزنہیں
جواس بھیانک سازش کاتقاضاہے۔لیکن باقی سب کہاں کھوگئے ؟بڑے بڑے نام
ہیں؟کیامنورحسن کے علاوہ سب بھارت کے عزائم کوپسندکرتے ہیں اگرنہیں کرتے
تولبوں کوجنبش دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟ان کی پارٹی کے چیئرمین یامخصوص
مورثی وارثان پرانگلی اُٹھائی جائے توآسمان سرپراُٹھالیتے ہیں‘کیااس پاک
دھرتی کاان پرکوئی حق نہیں ‘جس کے ازلی دشمن اس کی چادرکوداغدارکرنے میں
کوئی کسرنہیں چھوڑتے اورآج ان کے بھیانک عزائم سامنے آرہے ہیں تواس دھرتی
کے نام نہادقلم نگاروں کوسانپ سونگھ گیاہے۔اس کے سیاسی زعماء پرتولگتاہے
کسی خاص مقاصدکی خماری ہے وگرنہ دھرتی توماں ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں کی خبروں کے مطابق عشرت جہاں مقابلہ کیس میں بھارتی وزارت داخلہ
کے انڈرسکرٹری آروی ایس مانی نے اپنے دستخط کے ساتھ ایک بیان عدالت میں جمع
کرایاہے جس میں انہوں نے کہا’’سی بی آئی اوراورایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم
میں شامل ستیش ورمانہ انہیں بتایاہے کہ دہلی میں پارلیمنٹ اورممبئی کے دہشت
گرد حملے طے شدہ تھے اوریہ بھارتی سرزمیں پرانسداددہشت گردی قوانین کومضبوط
بنانے کیلئے کروائے گئے تھے۔ورمانے انکشاف کیاکہ’’ دسمبر 2001میں پارلیمنٹ
پرحملہ دہشت گردی کی روک تھام کے قانون پوٹااورممبئی پردہشت گردی یواے پی
اے قانون میں ترامیم کیلئے کرائی گئی‘‘۔
مقام حیرت ہے کہ جب پارلیمنٹ پرحملے ہوئے یاہوٹل تاج والا واقعہ (اس میں لگ
بھگ 166افراد ہلاک ہوئے) تو بھارتی سفارتکارہردروازہ کھٹکاتے پھرتے تھے کہ
ظلم ہوگیا‘ظلم ہوگیا‘پاکستان کی سرزمین دہشت گردپیداکرتی ہے ‘پاکستان
کودہشت گرد ملک قراردیاجائے ۔اوراسکامیڈیاطوفانی پروگرام کرکے ایسے ایسے
سنگریزے ارض پاک پربرسارہاتھاکہ الامان الحفیظ ۔ان کے اینکرز کی تعصب میں
ڈوبی گرجدارآواز ‘قلم کاروں کے نوک قلم سے نکلتے زہرآلود الفاظ‘اخبارات کی
دل دہلادینے والی ڈیزائننگ ‘بربریت کاسماں پیش کرتی لفاظی اورنجانے کیسے
کیسے خرافات۔مگراب جبکہ ریاستی مقولہ کہ مطابق’’ککڑ کھیہہ اڈائی تے اپنڑے
سروچ پائی‘‘یعنی مرغاجب اپنے پاؤں سے خاک اڑاتاہے تووہ بالاآخراسکے اپنے ہی
سرمیں آگرتی ہے‘تو اب کیوں بھارتی نام نہاد میڈیاکی زبان سوکھ گئی ہے۔اوراس
پرمستزاد یہ کہ انکے ساتھ ساتھ پاکستانی ایجنسیوں کی خطاؤں پررائی کاپہاڑ
بنانے والے پاکستانی صحافی بھی سکتہ کے عالم میں ہیں ۔یاشاید پُرحکمت
وشگفتہ الفاظ کاتعین کررہے ہیں۔
جہاں تک حکومت پاکستان کاتعلق ہے تو انکی امن ودوستی کی خواہشات سے ہمیں
کوئی اختلاف نہیں لیکن انکی بے جاتوقعات کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہن سکتیں
۔خواہش کی جاسکتی ہے مگریہاں توخواہش کااظہاربھی ندامت کے آنسوروتاہے
‘الیکشن کے بعدوالاواقعہ آپ کے سامنے ہے۔جوملک اپنے دشمن کولتاڑنے کی خواہش
میں اپنے ہی شہریوں کے گلے کاٹتاہو‘جس کے پارلیمنٹ کے رکن ہندوستان کی
سرزمین پررہنے والے اپنے ہم وطن ہندوستانی مسلمانوں سے کہیں کہ پاکستان چلے
جاؤ‘جس میں ایک مسلمان اجمل قصاب کوبغیرثبوتوں کے محض اسلیئے تخت
دارپرلٹکایاجائے کہ یہ اکثریت کی خواہش ہے یعنی عوامی پریشرتوپھرآپ ایسے
اندھے دل کے ہمسائے سے لایعنی توقعات لگائے رہیں ‘مگراسکی جانب سے عمل
درآمد ندارد ہی ہوگا۔امن ہوناچاہیئے ‘ہمسائے سے اچھاتعلق ہوناچاہیئے کون
پاگل کہتاہے کہ جنگ اچھی چیزہے ‘کون احمق کہتاہے کہ اقتصادی ومعاشی تعلق
نہیں قائم ہوناچاہیئے لیکن دوسرے فریق کی رضامندی کے بناء چاہے ہم کتنی ہی
پیش رفت کرلیں کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ہوامیں تنہاہاتھ چاہے کتنی ہی دیر
اورکتنی ہی قوت سے لہراتارہے جب تک دوسراہاتھ شامل نہیں ہوگا‘امن کی تالی
نہیں بجے گی۔ہم اچھے کی آس میں غوطہ زنی کررہے ہیں اورہماری مشرقی سرحدوں
کے بعد اب مغربی سرحدوں پربھی دراندازی جاری ہے ۔کیونکہ اصل دوست نے اپنے
حقیقی رفیق کو چپہ چپہ پرقونصل خانے کھولنے کی کھلے دل سے اجازت دے رکھی ہے۔
اب ذراالزامات کاغیرجانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں ۔ممکن ہے ستیش ورمانے جوکہ
ذمہ دارافسرہیں‘ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیاہو ۔اگرایساہے توپھرممکن ہے
اجمل قصاب نے بھی غلط بیانی کی ہوکہ بھارتی سرزمیں پرحملہ کی پلاننگ
پاکستانی زمین پر ہوئی۔ستیش ورماپرکسی بھی قسم کاکوئی دباؤنہیں ‘وہ آزاد
شہری ہیں جبکہ اجمل قصاب زیرحراست تھے اوران پرعتاب شاہی نازل تھااسلیئے
انکے کسی بھی بیان کوقابل اعتبار نہیں قراردیاجاسکتاجبکہ اسکے برعکس ستیش
ورماکابیان کسی حدتک قابل قبول ہے۔دوسری جانب 21جنوری 2013کوبھارت کے شہرجے
پورمیں حکمران وبانی جماعت کانگریس کے وزیرداخلہ سشیل کمارشندے نے بھارت کے
سیکولرچہرے سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا تھاکہ ’’ملک میں اقلیتوں کے ساتھ
غیرمنصفانہ سلوک اوردہشت گردی کے واقعات کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات کھلی
ہے کہ اپوزیشن جماعتوں بھارتی جنتاپارٹی اورراشٹریہ سیوک سنگھ کے کیمپوں
کابھی معائنہ کیاگیاجہاں انتہاپسندوں کودہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہے‘جس
پرنگاہ رکھناضروری ہے۔دونوں جماعتیں عوام کوقوم پرستی کے نام پرتقسیم کررہی
ہیں‘سمجھوتہ ایکسپریس اورمکہ میں مسجد میں بم نصب کرنے کے واقعات‘ مالیگاؤں
میں دھماکے سب انہی کاکیادھراہے‘ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے
غوروفکرکرنااورہوشیاررہناہوگا‘‘۔اب ہمارے ہمسائے سے کوئی جاکرپوچھے (ہمارے
سیاسی گروہ پریشان نہ ہوں ہمیں پتہ ہے کہ وہ نہیں پوچھ سکتے ۔اسلیئے ہم نے
کوئی کالفظ لگاکراسی کانام لیاہے جودوستی ہم پرجتاتاہے اورہرایشوپرسپورٹ
ہمارے ہمسائے کی کرتاہے) کہ پاکستانی ہمسایہ جی !یہ آپ کی اپنی بانی جماعت
کا رکن بھی جھوٹاہے ؟اگریہ سچاہے توپھرآپ سب جھوٹے ہیں۔لہذاایک کام لازم
کیجئے یاتوسیکولر اوڑھنی لیرلیرکردیجئے اور دنیاکوسچ بتادیجئے کہ آپ ایک
کٹرہندوریاست ہیں یاپھر آئیے ہمارے ہاتھ میں ہاتھ دیجئے ‘تعصب ‘بغض ‘کینہ
کوپرے پھینکئے اور اخلاص ومحبت سے پاک بھارت دوستی کاآغاز کرتے ہیں۔لیکن
سوچنے کامقام ہے کہ محمد علی جناح کہ سادہ سے چودہ نکات ٹھکرانے والے
کیاہمارے دوست بن پائیں گے؟ہمارے ملک کو دوٹکڑے کرنے کی سازش کرنے والے
ہمیں کوئی نفع دے سکیں گے؟ |