ماں کا دودھ بچے کی مثالی غذا

بچے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں جن کی آمد زندگی کے لئے سب سے اہم خوشی اور رحمت سمجھی جاتی ہے۔خصوصا ً اُن ماﺅں کے لئے جن کے ہاں پہلے بچے کی آمد ہو‘ نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے‘ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے صحیح رہنمائی کی جس پر عمل کے ذریعے بچے کی نشوونما نسبتاً آسان ہوسکتی ہے۔

بچے کی نشوونما کو ہم مختلف مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں جس میں سب سے پہلا مرحلہ ایک سے تین ماہ کا ہوتا ہے۔ اس دوران بچے صرف دودھ پر انحصار کرتے ہیں۔نوزائیدہ بچوں کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ماں کے دودھ کی ہوتی ہے جس کے ذریعے بچے کو وٹامن ڈی ملتا رہتا ہے اور اسے دوسری کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں ویسے ویسے بچے کی دودھ کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پہلے اگر وہ دن میں 5مرتبہ دودھ پیتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ اس سے زیادہ مرتبہ اور زیادہ مقدار میں دودھ پینے لگتا ہے ۔یاد رکھیں کہ بچہ اپنی بھوک کے مطابق ہی دودھ پیتا ہے اس لئے اگر وہ کسی وقت سو رہا ہے تو اسے اٹھاکر دودھ پلانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پہلے تین ماہ میں بچے کی نشوونما میں جس تیزی سے اضافہ ہوتا ہے بچے کی بھوک میں بھی اسی تسلسل سے اضافہ ہوتا ہے‘ ایسے میں ضروری ہے کہ بچے کی طلب کے مطابق اسے دودھ پلایا جائے ۔ ہر گزرتے ہوئے ہفتے کے ساتھ بچہ ہوشیار ہوتا چلا جاتا ہے ایسے میں ماﺅں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ جڑ ُی رہیں اور مسکراہٹ سے اس کی حرکتوں کا جواب دیں۔ جلد ہی ماں بچے کو دودھ پلانے کے عمل کے دوران بات چیت کا عمل محسوس کرسکتی ہے۔

ماﺅں کو اس فکر میں مبتلا دیکھا گیا ہے کہ کہیں ان کا بچہ بھوکا تو نہیں ہے جب کہ بچے کی حرکات و سکنات بتاتی ہیں کہ وہ بھوکا ہے یا نہیں۔مثال کے طور پر اگر بچہ بہت سست نظر آرہا ہے اور دودھ سے منہ موڑ رہا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس وقت اسے بھوک نہیں ہے۔

بچے کو کتنی مرتبہ اور کتنا دودھ پلانا چاہئے؟آیا اس کا پیٹ بھرا ہے یا نہیں ‘اس حوالے سے بھی ماﺅں کی فکر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔چونکہ ایک سے تین ماہ کے بچے نسبتاًدودھ کم پیتے ہیں ‘وہ رات کو لمبے عرصے کے لئے سوتے ہیں۔اگر آپ کا بچہ فعال اور متحرک ہے‘ اس کے وزن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ‘ وہ دن میں 6سے8مرتبہ دودھ پیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی خوراک سے مطمئن ہے ‘جب کہ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ بچہ مطمئن نہیں ہے۔ اگر بچہ دودھ پینے کے باوجود مسلسل روتا ہے یا چڑچڑے پن کا شکار ہے تو فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

ایک ماہ کی عمر تک بچے نسبتاً کم فضلہ خارج کرتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ بچہ ہر خوراک کے بعد فضلہ خارج نہ کرے اور بعض اوقات تین‘ تین روز تک بھی ایسا ہوسکتا ہے لیکن جب بچے اس سے زیادہ وقت نکالنے لگیں تو ڈاکٹر سے مشورہ لے لینا چاہئے۔

گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ جب یہ بات آپ کے علم میں آئے گی کہ بچہ زیادہ کثرت سے دودھ پی رہا ہے ‘اس لئے ضروری ہے کہ ماں اپنی خوراک کی جانب خصوصی توجہ دے تاکہ بچے کی طلب کو پورا کرسکے۔
ویسے تو ایک سے تین ماہ کے بچوں کے لئے ماں کا دودھ مثالی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے ڈبے کا یا فارمولا دودھ پلانا ضروری ہے تو اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ بچے ڈبے کا دودھ نسبتاً آہستگی سے ہضم کرتے ہیں ‘اسی لئے ہوسکتا ہے کہ آپ کا بچہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کی بہ نسبت کم خوراک لے‘جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جائے گا اس کی خوراک کے دورانئے میں وقفہ کم ہوتا جائے گا۔

دوسرے مہینے کے دوران بچہ 4سے5اونس دودھ فی خوراک لے سکتا ہے لیکن تیسرے ماہ کے اختتام تک بچے کے لئے 5سے 6اونس دودھ فی خوراک کی ضرورت محسوس ہوگی۔بچہ دودھ کی بوتل کے ذریعے کم دودھ پیتا ہے ‘اس لئے ضروری ہے کہ بوتل کا چھید نہ زیادہ بڑا ہو نہ چھوٹا اور دودھ بوتل کے ذریعے بچے کے منہ میں جاتارہے۔ اگر بچے کی طرف سے پیٹ بھرنے کا اشارہ ملے تو زبردستی دودھ پلانا غلطی ہوسکتی ہے۔بوتل کو سہارا دینے کے لئے کسی بھی قسم کا مصنوعی سہارا لینا بچے کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ‘علاوہ ازیں بچے کو بوتل منہ میں لے کر سونے کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے کیوں کہ یہ عادت دانتوں کی بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔

بہت سے بچے دودھ پینے کے تھوڑے وقفے کے بعد منہ سے دودھ نکال دیتے ہیںلیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ عمل کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ 6ماہ کی عمر میں یہ انتہائی کم ‘جب کہ10ماہ کی عمر میں ختم ہوجاتا ہے‘ لہٰذا اس حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔بچے کو اس کے بہت زیادہ بھوکا ہونے سے پہلے ہی دودھ پلادیں۔دودھ پلانے کے بعد بچے کو ڈکار آنے تک کندھے سے لگاکر رکھیںاور بچے کو زیادہ مقدار میں دودھ مت پلائیں۔

اگر بچہ زیادہ مقدار میں دودھ اُلٹنے لگے ‘دودھ پینے کے عمل کے دوران چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے لگے یا اس کا وزن کم ہونے لگے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 198 Articles with 289484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.